'' لہو میں بھیگے تمام موسم ۔۔۔گواہی دیں گے... کہ تم کھڑے تھے‘‘۔ جب بھی پاکستان کے قومی اعزازات کو نوازشات کی صورت میں اپنی مدح سرائی اور شان میں قصیدے لکھنے والوں پربارش کی طرح برستے دیکھتا تودو سرے بہت سے ناموں کے ساتھ ساتھ دو چہرے خود بخود نمایاں ہو کر آسمان پاکستان پر چمکتے دمکتے ستاروں کی صورت میں سامنے آ جاتے ۔ ان میں سے ایک ہنگو کا شہید اعتزاز حسن ہے جس نے اسی سال6 جنوری کو اپنی جان پر کھیلتے ہوئے ابراہیم زئی میں اپنے سکول کے سینکڑوں بچوں کو خودکش حملے سے ہونے والے قتل عام سے بچایا۔ 6 جنوری کو جب اعتزاز نے اپنی جان قربان کرتے ہوئے خود کش دہشت گرد کے سامنے ڈھال بن کر اس کی تباہ کن خود کش جیکٹ کو اپنا جسم پیش کیا اور اس کے آقائوں کی ناپاک کوشش کو ملیا میٹ کردیا‘ تو ا س وقت ہو سکتا ہے کسی کو اس کی عظیم الشان قربانی کا کچھ زیا دہ احساس نہ ہوا ہو لیکن سولہ دسمبر کو درندوں کی جانب سے پشاور کے آرمی پبلک سکول میں برپا کی جانے والی قیامت کا نظارہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اگر اعتزاز چھ جنوری کو اپنی جان کی قربانی نہ دیتا تو نہ جانے کتنے معصوم طالبعلموں کا قتل عام ہو جاتا۔ ہنگو کا یہ جانباز‘ اپنے اس سکول کے طالب علموں کا جانثار اعتزاز شہید وں کے نصیب میں آنے والی جنت کے اس اعلیٰ درجہ پر فائز ہو چکا ہے جس پر ہزاروں شہداء فخر محسوس کرتے ہوں گے۔
اعتزاز حسن شہید کے بعد دوسرانام جو روشن ستارے کی مانند چمکتا دمکتا آسمان شہا دت پر رونق افروز دکھائی دیتا ہے،
وہ ہماری قوم کی وہ بہادر اور جذبۂ ایثار سے سرشار گجرات کی بیٹی سمیعہ نورین ہے جس نے چلتی ہوئی سکول وین کو گیس سلنڈر سے لگنے والی آگ سے‘ اس میں سوار بچوں کو بچاتے ہوئے اپنی جان دے دی۔ سمیعہ نورین‘ جس نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے منگو وال گجرات کے سکول کے بچوں کو جلتی ہوئی ویگن سے نکالنا اپنا مشن سمجھا‘ اپنا ایمان سمجھا‘ اگر چاہتی تو سب سے پہلے بڑے ہی آرام سے اپنی جان بچا سکتی تھی لیکن وہ ایک استاد تھی اور اس کے سامنے جلنے والے اس کے شاگرد تھے‘ جنہیں ایک اچھا استاد ہمیشہ اپنے بچوں کی طرح جان سے پیارا سمجھتا ہے۔ قوم کی اس بہادر بیٹی نے اپنی قوم کے ان پھولوں کو ایک ایک کر کے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے خود کو راکھ کا ڈھیر بنا لیا۔ ایک لمحے کیلئے سوچیے‘ اگر آپ کی انگلی یا جسم کے کسی بھی حصے کو ماچس کی تیلی کا ہلکا سا شعلہ چھو جائے تو کیا آپ برداشت کر سکیں گے؟ ماچس کی تیلی سے چیخیں نکل جاتی ہیں لیکن یہاں اعتزاز، سمیعہ ، طاہرہ قاضی اور افشاں نے اپنے جسموں کو آگ کے خوفناک شعلوں کے سپرد کرتے ہوئے کئی انسانی جانوں کو بچا لیا۔ یہ سب کچھ انہوں نے اپنے لئے نہیں کیا‘ بلکہ میرے اور آپ کے بچوں کیلئے‘ اس قوم کے کل کے معماروں کیلئے ،کسی دوسری ماں‘ کسی دوسری بہن اور کسی دوسرے کے بھائی کیلئے کیا۔
بد قسمتی یہ تھی کہ اعتزاز اور سمیعہ نورین کی قربانیوں کو قوم بھول چکی تھی۔ زیادہ نہیں تو ان کے نام سے کوئی یاد گاری ٹکٹ ہی جاری کر دیئے جاتے‘ کسی سڑک کا نام ہی ان کے نام سے منسوب کر دیا جاتا لیکن ایسا نہ ہو سکا اور قوم کو ایک اور سانحہ عظیم دینے کیلئے سولہ دسمبر کا دن آ گیا اور آرمی پبلک سکول پشاور کے133 بچے اور12 سٹاف ممبران سفاکیت اور درندگی کی نذر ہو گئے۔ اس سانحہ عظیم میں طاہرہ قاضی اور افشاں احمد کی قربانی نے اعتزاز اور سمیعہ کی یاد تازہ کردی۔ ان بھولی بسری یادوں کو پھر سے زندہ کرنے والے نام طاہرہ قاضی اور افشاں احمد کے ہیں‘ جنہوں نے قربانیوں کی وہ لازوال داستان رقم کی جس کی مثال نہیں ملتی۔ اعتزاز حسن اور سمیعہ نورین کے بعد آسمان شہادت پرجلوہ افروز شہداء کی محفل نجوم میں ایک اور پر نور چہرہ شامل ہو گیا ہے جو اپنے نام افشاں کی منا سبت سے ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے۔ آرمی پبلک سکول کا زندہ بچ جانے والا عرفان اﷲ بتاتا ہے کہ جب دہشت گرد ان کے کلاس روم کے اندر آنے لگے تو ہماری ٹیچر افشاں ان درندوں کے سامنے تن کر کھڑی ہو گئی۔ جب درندوں نے اپنی خوفناک شکلوں کے ساتھ بے رحم کلاشنکوفیں اس کے سر پر رکھتے ہوئے اسے پیچھے ہٹنے کو کہا تو اس نے نہایت اونچی آواز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں جیتے جی تمہیں اپنے بچوں تک نہیں پہنچنے دوں گی۔ وہ دھان پان سی لڑکی ان خونخواروں کے سامنے ایسے تن کر کھڑی ہو گئی جیسے کوئی چٹان۔ جب خونی درندوں نے دیکھا کہ وہ سامنے سے نہیں ہٹ رہی تو انہوں نے اسے پکڑ کر اس پر پٹرول چھڑکا لیکن وہ حوا کی بیٹی ذرا نہ گھبرائی اور اس نے اونچی آواز سے انہیں للکارتے ہوئے کہا ''میرے مردہ جسم پر سے گزر کر ہی تم میری کلاس کے بچوں تک پہنچ سکتے ہو‘‘ حالانکہ درندوں کو للکارتے ہوئے وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ درندے پٹرول کو آگ دکھا کر ایک لمحے میں اسے کوئلہ بنا دیں گے۔ اسی دوران اس کی کلاس کے لڑکے‘ جن میں عرفان اﷲ بھی شامل تھا‘ اپنی جان بچانے کے لیے کلاس روم کی کھڑکیوں سے باہر کودتے رہے۔ ظالموں نے قوم کی اس بہادر بیٹی کوفاسفورس بم سے آگ کے بھیانک شعلوں کی نذر کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ راکھ ہو گئی۔ درندوں نے اس کی جان تو لے لی لیکن بھول گئے کہ اس مجاہدہ کی راکھ سے اٹھنے والی چنگاریاں آسمان کی بلندیوں پر ہمیشہ چمکتی دمکتی نظر آئیں گی۔
چوتھا نام آرمی پبلک سکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی کا ہے۔ جب جب ایثار اور قربانی کی بات ہو گی‘ جب جب مدر ٹریسا کا ذکر ہوگا طاہرہ قاضی صاحبہ کا نام بھی ہونٹوں پر آئے گا جو آخری دم تک بحری جہاز کے کپتان کی طرح سکول میں اپنے آخری بچے تک کو بچانے کیلئے بھاگتی پھریں ۔وہ ایک کمزور خاتون تھیں لیکن دستی بموں کے دھماکوں ، گولیوں کی بارش اور بارود کی بو میں وہ بچوں کومیزوں کے نیچے چھپنے اور باتھ رومز میں گھسنے کی ہدایت دیتی رہیں۔ پورے سکول کے ایک سرے سے دوسرے تک بھاگ بھاگ کر وہ اونچی آواز میں بچوں کو بھاگنے کے لیے کہتی رہیں اور اسی بھاگ دوڑ کے نتیجے میں وہ ایک کلاس روم کے عقبی دروازے کے قریب درندوں کی وحشت کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ دہشت گردوں نے انہیں جان سے تومار دیا لیکن بھول گئے کہ وہ خود تو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنم کے سب سے نچلے درجے میں پھینک دیئے گئے ہیں لیکن طاہرہ قاضی کو امر کر گئے ہیں۔ جب بھی فلورنس نائیٹنگیل کا ذکر ہو گا‘ طاہرہ قاضی کا نام بھی سامنے آئے گا۔ جب بھی اﷲ کے پیارے شہیدوں کا ذکر ہو گا اعتزاز، سمیعہ نورین، طاہرہ قاضی اور افشاں احمدکی قربانیوں کی داستانیں بھی سنائی دیں گی۔ اس سکول میں دوسرے اساتذہ کے ساتھ یہ وہ چار نام ہیں جنہیں باشعور قومیں اپنی تاریخ کے اوراق اور درسی کتابوں میں محفوظ رکھتی ہیں تاکہ آنے والی نسلوں کو اپنے شہیدوں کی عظمت کا درس دیتی رہیں‘ جو ایثار و قربانی کی مقدس لوح پر کندہ کر دئے گئے ہیں اور جو رہتی دنیا تک روشن رہیں گے۔۔۔۔ لہو میں بھیگے تمام موسم ۔۔۔گواہی دیں گے... کہ تم کھڑے تھے...!!