"MABC" (space) message & send to 7575

نہیں‘ جناب ایسا نہیں ہے

جو کہتے ہیں کہ اب ہی کیوں دہشت گردوں کو پھانسی جیسی سخت سزائیں دینے کا خیال آ گیا ہے تو وہ سن لیں کہ اُن کی یہ سوچ بالکل غلط ہے۔ اگر کسی خاص ردعمل کے طور پر ایسا ہوتا تو فوج اس وقت سزائیں دینا شروع کر دیتی جب راولپنڈی پریڈ لین کی مسجد میں نماز جمعہ ادا کرتے ہوئے صرف فوجی افسروں اور ان کے بچوں کو سروں میں گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا تھا‘ جب پشاور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل مسعود اسلم کا اکلوتا بیٹا ہاشم مسعود اسلم دہشت گردوں نے اسی مسجد میں شہید کر دیا تھا‘ جب میجر جنرل عمر بلال ، بریگیڈئر عبد الرئوف، کرنل فخر، کرنل منظور سعید اور کئی میجرز کو اسی دن اسی مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران دہشت گردوں نے شہید کیا۔ شاید ہمارے ان لوگوں کو یاد نہیں رہ گیا کہ 4 دسمبر2009ء کو نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے اﷲ کے دربار میں حاضر ہونے والے پاک فوج کے افسروں اور ان کے بچوں کو پانچ دہشت گردوں نے ہینڈ گرنیڈ اور کلاشنکوفوں سے اپنے ظلم و بر بریت کا اسی طرح نشانہ بنایا تھا جیسے سولہ دسمبر کو آرمی پبلک سکول میں نشانہ بنایاگیا ہے۔ پریڈ لین کی اس مسجد میں پشاور کی گیارہویں کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل مسعود اسلم کا بیٹا ہاشم مسعود اسلم اور میجر جنرل نسیم ریاض کا بیٹا بلال ریاض، کرنل شبیر کا بیٹا علی حسن، کرنل سخران کا بیٹا حسن، کرنل فخر کا بیٹا سعد الحسن اور بہت سے دوسرے فوجی افسران کے بچے شامل تھے۔ اس حملے میں بیالیس فوجی افسراور جوان شہید اور83 
لوگ زخمی ہوئے۔ اب وہ لوگ جو یہ جواز دے رہے ہیں کہ آج چونکہ آرمی سکول میں فوجیوں کے اپنے بچے شہید ہوئے ہیں اس لیے تیز ترین فیصلوں کیلئے فوجی عدالتیں بھی قائم کی جا رہی ہیں‘ وہ بتا سکتے ہیں کہ کیا اس وقت فوج دہشت گردوں کے خلاف ملٹری کورٹس نہیں بنا سکتی تھی جب ان کے کور کمانڈر کا بیٹاا ور پندرہ سے زائد فوجی افسران کے بچے شہید کر دیئے گئے تھے ؟ جب پاک فوج کے لیفٹیننٹ جنرل مشتاق مرزا کو صدر راولپنڈی میں خود کش دھماکے میں شہید کیا گیا تھا اور جب قاسم مارکیٹ اور پھر آئی ایس آئی کے سٹاف کو لے جانے والی پوری بس میں سوار اہلکاروں کو خود کش دھماکے میں شہید کیا گیا اور جب فوجی افسروں اور جوانوں کی گردنیں کاٹ کاٹ کر ان سے یہ دہشت گرد فٹ بال کھیلتے تھے۔ اس وقت فوج کیلئے کس قدر آسان تھا کہ ملک بھر میں فوجی عدالتیں قائم کر دی جاتیں۔
یہ تو کسی سے بھی چھپا ہوا نہیں کہ آپریشن ضرب عضب کو شروع ہوئے توکئی ماہ گذر چکے ہیں اور اسی آپریشن میں میران شاہ، میر علی اور شمالی وزیرستان کے بہت سے علا قوں میں افواج پاکستان پوری قوت سے دہشت گردوں کے ایک ایک ٹھکانے کو تباہ کرنے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں اور اب تک کی رپورٹ کے مطابق 2100 سے زائد دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا جا چکا ہے۔اس لیے یہ تاثر لینا یا غلطی سے اس طرح کی سوچ کو اپنے ذہنوں میں جگہ دینا کسی طور بھی منا سب اور درست نہیں ہو گا کہ اب کسی خاص وجہ سے ان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن تیز کر دیا گیا ہے اور ساتھ ہی دھڑا دھڑ انہیں پھانسیاں بھی دی جانے لگی ہیں۔ اس کے بعدایک اوربہت بڑا اعتراض جو ہمارے سکیورٹی اداروں پر اس ضمن میں لگایا جا رہا ہے کہ یہ سب نا مناسب سکیورٹی کی وجہ سے ہوا ہے۔ یہ اعتراض اپنی جگہ درست ہو سکتا ہے اور ان کی اس بات کو قطعی جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا لیکن یہ حقیقت سامنے رکھ کر فیصلہ کریں تو شائد لہجوں میں تلخی کچھ کم ہو جائے کیونکہ پشاور کینٹ میں اس وقت84 تعلیمی ادارے ہیں اور اگر پشاور شہر کی بات کی جائے تو ان کی تعداد سینکڑوں میں بنتی ہے۔ اب اندازہ کیجئے کہ ہر سکول کی فول پروف سکیورٹی کس طرح ممکن ہے ۔۔۔ ہمارے سکیورٹی اداروں کو جو چاہے کہہ لیجئے لیکن یہ بھی دیکھ لیں کہ آرمی پبلک سکول میں کل بچوں کی تعداد 1100 کے قریب ہے۔ ان میں سے 950 سے زائد بچوں کو ہمارے جانبازوں نے اپنی جانوں پر کھیلتے ہوئے بچا لیا۔ جیسا کہ اپنے کالم '' ایمر جنسی کیوں نہیں‘‘ میںلکھا تھا کہ جی ایچ کیو، مہران بیس، کامرہ کی طرح اس واقعہ میں بھی آرمی پبلک سکول کا کوئی نہ کوئی شخص لازمی ملوث ہو گا تو ایک اطلاع کے مطابق اسی سکول کا کمپیوٹر آپریٹر ان دہشت گردوں کا مدد گار اور معاون تھا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ شہروں کے علا وہ تمام سکیورٹی اداروں اور خاص طور پر ہمارے اہم دفاعی مراکز اور دوسری حساس تنصیبات کے اندر اور ارد گرد کی حدود کے اندر مساجد اور رہائشی کالونیوں میں آمدو رفت پر گہری نگاہ رکھی جائے‘ کیونکہ آرمی پبلک سکول کے سٹاف کے ہی ایک فرد کے اس سانحہ عظیم میں ملوث ہونے کے ثبوت مل چکے ہیں اور اسی کی دہشت گردوں کو دی جانے والی فہرست کے مطا بق ان دہشت گردوں کو علم تھا کہ اس سکول میں سٹاف کے کون سے ٹیچر فوجی افسران کے خاندان سے ہیں۔ ان میں سے ہی ایک خاتون استاد صائمہ طارق پاک فوج کے بریگیڈیئر طارق کی بیگم تھیںجنہیںموت بہت دور سے شاید اسی دن کیلئے پشاور اور پھر وہاں سے اس آرمی پبلک سکول لے کر آئی۔ شہید صائمہ طارق نے یہ سکول اپنی موت سے صرف 40 دن پہلے پانچ نومبر کو جوائن کیا تھا۔ بچوں کو تعلیم دینا اور وہ بھی اپنے دل کی گہرائیوں اور پوری دلجمعی سے صائمہ کا عشق تھا۔ جب یہ خاندان پشاور پہنچا تو صائمہ کے شوہر بریگیڈئر طارق کی خواہش تھی کہ وہ یونیورسٹی میں داخلہ لیتے ہوئے مزید تعلیم حاصل کرے لیکن صائمہ جن کا آرمی پبلک سکول اور کالجز میں تدریس کا سولہ سالہ تجربہ تھا‘ چاہتی تھیں کہ نئی نسل کی تربیت کیلئے اپنے آپ کو وقف کر دیا جائے اور ان کے شوہر نے تدریسی عمل سے ان کی وارفتگی کو دیکھتے ہوئے انہیں آرمی پبلک سکول پشاور میں پڑھانے کی بادل نخواستہ اجا زت دے دی۔ آج بھی ان کے سابق سکولوں اور کالجوں میں جہاں وہ طالب علموں کو پڑھاتی رہی ہیں جس سے بھی بات کی جائے‘ سب ان کے حسن سلوک کو یاد کرتے ہیں۔ ان سب کا کہنا ہے کہ استاد ہو تو ایسا ہوجو اس محبت اور پیار سے پڑھاتی تھیں کہ لگتا تھا کوئی کانوں میں رس گھول رہا ہے۔ اپنے ایک گذشتہ کالم میں ہنگو کے اعتزاز حسن شہید، گجرات سکول کی سمیعہ نورین شہید، پرنسپل طاہرہ قاضی شہید اور افشاں شہید کا ذکر کیا تھا لیکن جب صائمہ طارق کی کہانی سامنے آئی تو ایسا لگا کہ سکول کے بچوں کی ایک اور ماں اپنے بچوں کو بچاتے ہوئے قربان ہو گئی...! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں