امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے میں تیس سال تک خدمات انجام دینے کے بعد2006ء میں ریٹائر ہونے والے بروس ریڈل نے اپنی حالیہ کتاب اور مضامین میں پاکستان اور آئی ایس آئی کے متعلق جو قیاس آرائیاں کیں اور پھر اپنے ٹی وی انٹرویوز میں امریکہ اور بھارت کو بلوچستان میں دہشت گردوں کی پشت پناہی اور انہیں بورڈنگ لاجنگ کی سہولیات دینے کے پاکستانی الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے امریکہ اور بھارت کو اس سے بری الذمہ قرار دینے کی ناکام کوششیں کیں‘ ایک خفیہ ادارے کے سابق اعلیٰ عہدیدار سے تو اس طرح کی توقع کی جا سکتی ہے‘ لیکن کسی اچھے لکھاری اور بہت سی کتابوں کے مصنف سے اس قسم کی منافقت کی توقع ہرگز نہیں کی جا سکتی۔ اگر تو ریڈل کی حالیہ تقریریں اور تحریریں ڈائریکٹوریٹ آف ا نٹیلی جنس پروجیکٹ میں ان کی موجودہ اسائنمنٹس کیلئے ہیں تو پھر ان کی ان کاوشوں کو ضرور سراہا جا سکتا ہے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک ملک کی کردار کشی اور دوسرے کی پذیرائی پر مبنی یہ جھوٹی کہانیاں اور رپورٹیں کسی طور پذیرائی کے لائق نہیں۔ یہ سب کچھ لکھتے ہوئے بروس ریڈل اگر اپنے ہی ملک کے ایک مشہور وقائع نگار William dalrymple کی امریکی فوجوں کی افغانستان سے واپسی کے بعد افغانستان، پاکستان اور بھارت کے ممکنہ رد عمل کے تجزیے پر مبنی کتاب A Deadly Triangle پر بھی ایک نظر ڈال لیتے تو شاید ان کے لیے بہتر ہوتا اور ساتھ ہی اگر ہمارے ملک کے بعض نامور صحافی بروس ریڈل کی مستند آرا سے مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی تحریر کردہ رپورٹس کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیا کریں تو شاید حقائق ان پر واضح ہو جائیں۔ پاکستان اور افغانستان کے دن بدن مستحکم ہوتے ہوئے تعلقات نے بھارت کی نیندیں اڑا دی ہیں اور بھارت کے تھنک ٹینک واضح الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ ''افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کو End Game کہا جا رہا ہے جبکہ بھارت کے لیے افغانستان ابھی End Game نہیں بنا۔
بھارت کو معصومیت کا سرٹیفکیٹ عطا کرنے سے پہلے بروس ریڈل اگر چھبیس اکتوبر2010ء کو کابل کی سفارتی رہائش گاہوں سے منسلک ''پارک‘‘ اور ''حامد‘‘ نام کے دو گمنام گیسٹ ہائوسز میں ہونے والے حملوں اور خود کش دھماکوں کی اصل کہانی کو سامنے رکھتے تو شاید ان کے ذہن کے چھپے گوشوں میں بھارتی اصلیت اچھل کر سامنے آ جاتی‘ جب امریکی، افغان اور بھارتی میڈیا نے یہ کہتے ہوئے طوفان کھڑا کر دیا تھا کہ پاکستان کی آئی ایس آئی نے کابل کے اندر گاندھی چلڈرن ہسپتال میں کام کرنے والی بھارتی نرسوں اور عملے کے دوسرے ارکان کی رہائش گاہوں پر خود کش حملہ کراتے ہوئے انہیں ہلاک کر دیا ہے۔ پارک اور حامد نام کے ان دو گمنام گیسٹ ہائوسز اور وہاں مقیم بھارت کے میڈیکل سٹاف کے پردے میں یہ لوگ ایک سال سے جن سرگرمیوں میں مصروف تھے‘ اس کے مطابق بھارت کی ملٹری انٹیلی جنس اور را کی جانب سے مرد اور خواتین کا ایک دستہ ''میڈیکل اور انگلش لینگویج ٹریننگ ٹیم‘‘ کے نام سے کابل بھیجا گیا۔ بھارت میں اس دستے کو تین ماہ تک بلوچستان اور کابل کے علاقوں میں بولی جانے والی ''دری زبان‘‘ پر مہارت حاصل کرائی گئی اور پھر انہیں انڈین ایئرلائنز کی ایک پرواز کے ذریعے کابل پہنچا دیا گیا۔ ان کے پاسپورٹس اور دیگر سفری کاغذات تیار کرتے ہوئے یہ
ظاہر کیا گیا کہ یہ سب بھارت کے مختلف ہسپتالوں اور مختلف شعبوں میں مہارت رکھنے والا طبی عملہ اور یونیورسٹیوں کے استاد ہیں۔ ان سب لوگوں کو دہلی کے ایک میڈیکل کالج کی بس میں سوار کرا کے ایئرپورٹ پہنچایا گیا اور ان سب کو سول لباس پہننے کا کہا گیا تاکہ ایئرپورٹ پر موجود کسی بھی شخص کو یہ شک نہ گزرے کہ یہ بھارت کی فوج اور ایجنسیوں سے متعلق مسلح دستوں کے افراد ہیں۔ جب یہ سب لوگ کابل پہنچ گئے تو انہیں کسی فوجی بیرک یا بھارتی سفارت خانے میں ٹھہرانے کے بجائے کابل کے سفارتی علاقے سے منسلک دو گمنام سے گیسٹ ہائوسز میں ٹھہرایا گیا‘ جن کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا کہ یہ بھارت کی خفیہ ایجنسی کے سیف ہائوسز ہیں۔ کابل اور اس کے مضافات میں ان کو بلوچستان میں دہشت گردی کے لیے بھیجے جانے والوں کو تربیت دینے پر مامور کیا گیا۔
ہمارے ملک میں سیاستدان اور میڈیا کے بعض حضرات یہ
الزامات تو لگاتے ہیں کہ طالبان پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے پیدا کیے اور یہ جو آج پاکستان بھر میں جگہ جگہ دہشت گردی کی کارروائیاں جاری ہیں‘ اسی بیج کا نتیجہ ہیں جو ''کسی اور‘‘ کیلئے بوئے گئے تھے۔ اگر یہ مفروضہ تسلیم کر لیا جائے تو اس سوال کا جواب کون دے گا کہ کیا نائن الیون سے پہلے ان طالبان نے پاکستان میں کوئی خود کش دھماکہ کیا؟ پاکستانی عوام، سکیورٹی تنصیبات یا فورسز پر کوئی حملہ ہوا؟ کیا یہ سب نقاد اس بات سے بے خبر ہیں کہ جب یہ طالبان ابھی وجود میں نہیں آئے تھے‘ تو اس وقت روسی جرنیل اور بھارتی فوج کے ڈپٹی چیف آف سٹاف اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس لیفٹیننٹ جنرلRK SAWHNEY کی قیادت میں بھارتی فوج کی پہاڑی رجمنٹ پر مشتمل دو کمپنیاں، ناردن الائنس، تاجک فورسز کو ہر قسم کا اسلحہ، روسیوں کے چھوڑے ہوئے توپوں اور ٹینکوں کے فاضل پرزوں کے علاوہ روسی فوجوں کے چھوڑے ہوئے نئے اور پرانے گن شپ ہیلی کاپٹروں کے پرزہ جات کی سپلائی میں مصروف تھے اور جنرل روی ساہنی کو یہ ٹاسک اس لئے دیا گیا تھا کہ وہ ڈی جی ایم آئی کے ساتھ ساتھ دو سال تک آسام کی مسلح تحریکوں سے نمٹنے کا تجربہ رکھتے تھے اور ان کی بھرپور مدد کیلئے افغانستان میں بھارت کے سابق سفیر جیانت پرساد پوری طرح مصروف عمل تھے۔ تین ماہ قبل یعنی 23ستمبر 2014ء کو بھی جنرل ساہنی روسی اسٹیبلشمنٹ سے امریکہ کی واپسی کے بعد کی افغان صورت حال پر طویل ملاقاتیں کر چکے ہیں۔
امریکہ کے قصر صدارت وائٹ ہائوس میں من مانیاں کرنے والے چار سابق امریکی صدور کی نیشنل سکیورٹی کونسل میں سینئر ایڈوائزر کے فرائض انجام دیتے رہنے والے بروس ریڈل مڈل ایسٹ، سائوتھ ایسٹ اور فار ایسٹ کے بارے میں امریکی پالیسیاں تیار کرنے اور اس پر عمل در آمد کے حوالے سے یقیناً بہت سے رازوں سے واقف ہوں گے۔ بل کلنٹن کے دور صدارت میں ان کی رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور اپنے ملکی مفادات کی تکمیل کیلئے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو بھی وہ مانیٹر کرتے تھے لیکن... آج بھارت کو خوش کرنے کیلئے وہ جو کچھ تحریر فرما رہے ہیں‘ اس پر یقین نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ باتیں درست نہیں۔ ممکن ہے بھارت نواز گروپوں کو اس وقت سب سے زیادہ ذہنی تکلیف اس بات پر ہو رہی ہو کہ ''حامد کرزئی کے دور کا وہ افغانستان‘‘ نہ جانے کدھر چلا گیا‘ جب کابل کی ہر پالیسی بھارت کی مرضی سے بنتی تھی۔ اب اشرف غنی کے کابل کے صدارتی محل میں آنے سے کابل میں بھارتی اثر و نفوذ میں دن بدن آنے والی کمی نے ''بھارت نوازوں‘‘ کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے اور پشاور واقعے پر حامد کرزئی کی طرح مگر مچھ کے آنسو بہانے کی بجائے جس دکھ اور دلی صدمے کا اظہار کابل کی جانب سے کیا گیا‘ وہ ان لوگوں کو کھائے جا رہا ہے‘ جو افغانستان کے ذریعے پاکستان پر اپنے پنجے گاڑنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بروس ریڈل جیسے بہت سے ''بھارت نواز‘‘ لکھاریوں کی خدمات مستعار لی جا رہی ہیں تاکہ کسی بھی طریقے سے پاکستان کے بارے میں عالمی اور افغانستان کی رائے عامہ کو گمراہ کیا جا سکے۔