کل پھر ملک بھر میں سرکاری تعطیل تھی۔ تقریریں ہوئیں ‘ ریلیاں نکالی گئیں‘اس کے ساتھ ہی کشمیر کیلئے اپنی جانیں دینے والوں پر امریکہ اور بھارت کے حکم سے پابندیاں بھی لگ رہی ہیں۔ کشمیر کیلئے چندہ جمع کرنے والے ڈبے اکھاڑ دیئے گئے ہیں۔ یہ ہے ہمارا کشمیر کاز اور یہ ہے سال میں ایک دن پورا پاکستان بند کر نے کی حقیقت۔ اپریل1988ء میں جنرل ضیا نے آزادی کشمیر کے ایک منصوبے کا اعلان کیا اور اس کا نام اٹھارہویں صدی میں ہسپانوی تسلط کے خلاف غیر روایتی جنگ لڑنے والے ایک شہزادے ٹاپیک امرو کے حوالے سے''آپریشن ٹاپیک‘‘ رکھا ۔۔۔ منصوبہ یہ تھا کہ اوڑی سے لے کر ویری ناگ تک وادی کشمیر کے کچھ علاقوں کو کاٹ کر آزاد کرا لیا جائے۔ وادی کشمیر کو جموں سے الگ کرنے کیلئے بانہال سرنگ کو کاٹ کر کارگل لیہہ سڑک کو منقطع کر کے شمال میں لداخ کے تیس ہزار مربع میل علاقے کو وادی سے علیحدہ کردیا جائے۔ اس کیلئے افغان جہاد میں شریک ہونے والے مجاہدین کو استعمال کرنا تھا اور اس سلسلے میں جنرل ضیاالحق نے نوجوانوں کو جہادی ترغیب دینے کیلئے مسجدوں ، مدرسوں اور علماء کی مدد لی؛ چنانچہ ملک کے مختلف مذہبی گروپوں میں جہادی تنظیمیںقائم کرنے کی مقابلہ بازی شروع ہو گئی تو دوسری طرف آزاد اور مقبوضہ کشمیر میں جنرل ضیا کے نام کی مناسبت سے نصف درجن سے زائد جہادی تنظیمیں کھمبیوں کی طرح اُگ آئیں۔ ان چھوٹی چھوٹی تنظیموں نے اپنے طور پر کشمیر میں نا تجربہ کار لوگ داخل کر دیئے جنہوں نے وہاں غیر منظم اور بے ربط قسم کی کارروائیاں شروع کر تے ہوئے بھارتی فوج، پولیس اور دوسرے سکیورٹی اداروں کو چوکنا کر دیا۔ 17 اگست کے بعد نہ جنرل ضیا رہے اور نہ ہی جنرل اختر جو اس منصوبے کے اصل دل و دماغ تھے۔ جنرل ضیا اور جنرل اختر کے بعد بے نظیر بھٹو اقتدار میںآ چکی تھیں۔ ایسے میں آئی ایس آئی یا دیگر سرکاری ادارے جہادیوں کی کسی بھی طرح کی مدد کرنے سے قطعی قاصر اور مجبور تھے۔ یہ چھوٹی چھوٹی جہادی تنظیمیں مقبوضہ کشمیر میں داخل تو ہو گئیں لیکن ان کا نہ تو کسی سے رابطہ تھا اور نہ ہی ان کیلئے اسلحہ اور گولہ بارود کی سپلائی کا کوئی مربوط سلسلہ تھا۔۔۔یہاں پر ایک دفعہ پھرکشمیریوں کی ہمت اور حو صلے کو داد دینا پڑے گی کہ انہوں نے بھارتی فوج اور اس کے سکیورٹی اداروں اور ایجنسیوںکی بے پناہ طاقت کے با وجود طویل عرصے تک مجاہدین کی اس طرح کی متعدد تنظیموں کی طرف سے شروع کی گئی غیر منظم جدو جہد کا ساتھ دیا اور پاکستان کے ان سینکڑوں نوجوانوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہوگا‘ جنہوںنے صرف جذبہ جہاد اور کشمیر کی مائوں ،بہنوں اور بیٹیوں کیلئے اپنی بھر پور جوانیاںقربان کیں۔ جو پکڑے گئے ان پر بھارتی فوج نے ظلم اور تشدد کے وہ پہاڑ توڑے کہ آج بھی ان کی روحیں کانپ اٹھتی ہوں گی۔
سترہ اگست کے ہوائی حادثے کے نتیجے میں جنرل اسلم بیگ آرمی چیف بن چکے تھے اور انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے مرکز میں پی پی پی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو بطور وزیر اعظم پاکستان کام کر رہی تھیں ۔۔۔۔۔جنرل بیگ خاموشی سے کشمیر میں جہادی گروپوں کی اس ساری صورت حال کا جائزہ لیتے رہے ۔ ان کا خیال تھا کہ اگر یہ جہاد دو تین سال تک مسلسل چلتا رہا اور بھارت اپنی پانچ لاکھ کے قریب فوج مقبوضہ کشمیر میں لے آیا تو یہ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہو گی(آج یہ تعداد ساڑھے سات لاکھ ہوچکی ہے) ۔اس صورت میں کشمیریوں کے بھارتی تسلط سے آزاد ہونے کے امکانات پیدا ہو نے کی قوی امیدہے لیکن افسوس کہ یہ ہزاروں قربانیاں کسی کام نہ آ سکیں اور کشمیر کی آزادی کی جدوجہد پھر ناکام ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کی طرف سے ضرورت معاونت نہ مل سکی۔
افغانستان میں دنیا کے ہر کونے سے لوگ روس کے خلاف جہاد میں شریک ہونے کیلئے افغانستان پہنچ رہے تھے۔ا س وقت امریکہ، اقوام متحدہ اور تمام یورپی ممالک میں سے کسی ایک نے بھی انہیں افغان مجاہدین کے علا وہ کسی اور نام سے نہ تو لکھا تھا اور نہ ہی کبھی پکارا تھا کیونکہ ان کی نظر میں اس وقت افغانی روس کے ناجائز تسلط کے خلاف جدو جہد کر رہے تھے تو پھر بھارتی تسلط کے خلاف کشمیریوں کی آزادی کیلئے لڑنے والے مسلمانوں کو کشمیری مجاہدین کے نام سے پکارا جانا کیسے قابل اعتراض ہو سکتا تھا؟۔
پاکستان کی ہر سول قیا دت کی بزدلی دیکھئے کہ کئی ممالک نے کئی مقامات پر غیر قانونی، غیر سفارتی اقدامات اور معاہدے کئے لیکن سرکاری سطح پر اس کی ذمہ داری لینے سے انکاری ہوئے ۔۔۔ امریکی وزیر دفاع چک ہیگل کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ بھارت افغانستان سے بلوچستان لبریشن آرمی اور تحریک طالبان کی شکل میں اپنی پوری فورس پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے ، بلوچستان میں بھارت کی مدد سے چلائی جانے والی مسلح بغاوت کے ثبوت ہم ساری دنیا کے آگے رکھ رہے ہیں لیکن بھارت کو اُس کی زبان میں جواب دینے سے ڈر رہے ہیں۔ کیوں؟ نریندر مودی کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول کھلم کھلا پورے بھارت میں لیکچر دیتا پھر رہا ہے کہ پاکستان کا سر کچلنے کیلئے ہم تحریک طالبان کے جسم اور بھارتی مدد اور پیسہ پاکستان کے خلاف
استعمال کر رہے ہیں جس میں کوئی قبا حت نہیں اور کسی غیر ملکی طاقت نے اس پر آواز بھی اٹھانا گوارا نہیں کیا تو پھر پاکستان کیوں مجبور ہے۔ فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل،جنہوں نے کئی سال کشمیر میں اپنے فرائض انجام دیئے،نے ایک دفعہ شکوہ کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے جنرل بیگ سے درخواست کی تھی کہ ان مجاہدین کیلئے اور تو ہم کچھ بھی نہیں کر رہے ،کم از کم ہمیں اپنی اطلاعات اور خارجہ امور کی وزارتوں کو ان مجاہدین کی مدد کیلئے درخواست توکرنی چاہیے۔ با لکل اسی طرح جیسے اس نے مشرقی پاکستان میں کیا ۔۔۔لیکن جنرل بیگ نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ انہیں بے نظیر پر اعتماد نہیں ہے کیونکہ وہ بھارت کے مقابلے میںان کشمیری مجاہدین کی کسی بھی طرح کی کوئی مدد کرنے کی ہامی نہیں بھریں گی۔ کبھی کبھی اس بات پر حیرانی ہوتی ہے کہ کشمیر اور بھارت کے مسئلہ پر پاکستان کی سیا سی اور فوجی قیا دت کی سوچ ایک دوسرے سے اس قدر مختلف کیوں ہوتی ہے؟ یہ کب تک بے معنی اور طویل لا حاصل مذاکرات کرتے رہیں گے۔ افسوس تو یہ بھی ہے کہ ہماری اب تک کی تمام قیادتیں بھارت میں پیدا ہونے کے با وجود ہندو ذہنیت کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتیں کہ ہندو ہمیشہ کچھ لینے کی کوشش کرتا ہے اپنی طرف سے کچھ دینے کی نہیں۔ نہرو سے لے کر شاستری اور جگ جیون رام سے لے کر من موہن سنگھ اور نریندر مودی تک سب کا کردار ہم سب کے سامنے ہے۔ وہ کہتے ہیں کر لو جو کرنا ہے۔ انہیں کون بتائے کہ ہم نے کشمیر پر ایک اورچھٹی کر لی ہے...!