کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں عوام کے جان و مال، کاروبار، پاکستان کی سالمیت ، خوش حالی اور امن وامان کی بہترین صورت حال کو بحال کرنے کیلئے کی جانے والی کوششوں میں کامیابی کیلئے ہر محب وطن پاکستانی دعا گو ہے۔قانون نافذ کرنے والے افسران اور اہلکار اس کوشش میں شہید بھی ہو رہے ہیں لیکن ان کے مورال میں کسی بھی قسم کی کمزوری کا شائبہ تک نہیں ہوتا ۔ملک کے تمام ادارے ،قوم سے امن فراہم کرنے اور اندرونی اور بیرونی سرحدوں کی حفاظت کے عہد کو نبھا تے ہوئے فخر محسوس کر رہے ہیں لیکن نائن زیرو پر رینجرز کے اچانک چھاپے اور وہاں سے عامر خان اور دوسرے گرفتار کئے جانے والوں کے علاوہ صولت مرزا کے اعترافی بیانات نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ایک ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے جس سے ہر طرف ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ دوسری جانب اس آپریشن پر ردعمل دیتے ہوئے الطاف حسین کا یہ کہناکہ وہ لوگ جو قانون کو مطلوب تھے وہ کہیں اور بھی چھپ سکتے تھے انہوں نے نائن زیرو کے اطراف میں پناہ لے کر اچھا نہیں کیا ،ایسا لگتا ہے کہ وہ ان کی وہاں موجو دگی سے بے خبر تھے۔ بغیر کوئی لگی لپٹی کے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اس وقت الطاف حسین اپنی سیا سی زند گی کے انتہائی نازک وقت سے گزر رہے ہیں اور ایسے حالات میں بڑا مشکل ہوتا ہے کہ کوئی شخص اعصاب کی شکست و ریخت سے محفوظ رہ سکے ۔میرے نزدیک نائن زیرو اور خورشید بیگم
سیکرٹریٹ پر رینجرز کے چھاپے اور وہاں سے کی جانے والی وسیع پیمانے پر گرفتاریوں پر جو ردعمل ظاہر کیا گیا وہ منا سب نہ تھا،جبکہ کراچی میں آپریشن کیلئے فوج کو کنٹرول سنبھالنے کیلئے سب سے زیا دہ اپیلیں ایم کیو ایم نے ہی کی تھیں ۔
بلدیہ ٹائون میں285 کے قریب انسانی جانوں کو جس نے بھی جلا کر خاکستر کیا وہ کسی بھی طور رحم کا مستحق نہیں ہو سکتا اور ان سفاک مجرموں کو بھی ایسی ہی سزا ملنی چاہیے ۔اس سلسلے میں اگر ایم کیو ایم کا کوئی شخص یا عہدیدار ملوث ہے تو اس کے خلاف سب سے زیا دہ الطاف حسین کو حکومت اور قانون کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ میں جس الطاف حسین کو جانتا ہوںوہ اس وقت کراچی میں قومی پرچم ریلی کا انعقاد کرتا ہے جب اندرون سندھ کے علا وہ لیاری،بلوچستان ،فاٹا اور وزیرستان میں جگہ جگہ پاکستانی پرچموں کو ملک دشمنوں کی جانب سے آگ لگائی جا رہی تھی اور پھر غالباً فروری2010 ء تھا، جب ایم کیو ایم کے لاکھوں کارکنوں اور عہدیداروں کے ہاتھوں میں پاکستان کا خوبصورت سبز ہلالی پرچم لہرا رہا تھا ۔ جلسہ گاہ کی سٹیج کے ارد گرد اور دور دور تک پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعروں کی گونج میں قومی پرچم لہراتے ہوئے وہ بہار دکھا رہے تھے کہ آنکھوں میں وطن کی محبت کے دیئے روشن ہونے لگے ۔ٹی وی کے سامنے بیٹھے ہوئے ہم جیسے وطن کی محبت میں سرشار لوگوں کے شدت جذبات سے دل جھوم جھوم اٹھے ۔اور پھر اس وقت جب جنرل
راحیل شریف کی قیا دت میں پاک فوج کے ہر افسر اور جوان نے اﷲ ہو کا ورد کرتے ہوئے پاکستان کی سالمیت سے کھیلنے والے ملک دشمنوں کے خلاف ضرب عضب کا آغاز کیا تو ایک بار پھر الطاف حسین کی اپیل پر قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے مزار مبارک سے منسلک وسیع عریض گرائونڈ میں '' پاکستانی فوج کی خدمات کے اعتراف میں سلیوٹ‘‘ کرنے کیلئے رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں روزے کی حالت میں کراچی کے عوام اکٹھے ہو رہے اور اپنے جانبازوں کو خراج عقیدت پیش کر رہے تھے۔ اس کے بعد فوج سے اظہار یک جہتی کیلئے تبت سینٹر سے نکالی گئی ریلی بھی ہم سب کے سامنے ہے۔
لیکن صولت مرزا ،عمیر صدیقی اور دیگر بہت سے لوگوں کے
اعترافی بیانات نے آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا کر دیا ہے ۔ ایسے دھواں دار اعترافات ،جنہوں نے ایک چمکتی ہوئی تصویر دھندلاکر رکھ دی ہے۔ کوئی بھی ذی ہوش انسان اعترافی بیانات سامنے آنے کے بعد افسوس کا جتنا بھی اظہار کرے وہ کم ہے لیکن اعترافی بیانات کی بات کریں تو پھر وہ ویڈیو ٹیپ اور اعترافی تحریر بھی سامنے رکھنی ہو گی جن میں سے ایک میں پنجاب کی ایک اہم شخصیت عدلیہ کے ججوں کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف فیصلے ڈکٹیٹ کروا رہی تھی اورعدالت عالیہ جس کی سچائی کو تسلیم کرتے ہوئے ان ججوں کو تو سزا دے دیتی ہے لیکن ان ججوں کو حکم دینے والوں کو پوچھا تک نہیں گیا اور اعترافی تحریر میںوزیر خزانہ اسحاق ڈار کا جنرل مشرف کی حکومت میں لکھا جانے والا وہ بیان ہے جس میں وہ میاں صاحبان کیلئے کروڑوں ڈالر کی منی لانڈرنگ کا اعتراف کرتے ہیں۔اسحاق ڈار کے اعترافی بیانات کے اقتباسات سامنے رکھیں تو پھر ذہن میں یہ سوالات ابھرنے لگتے ہیں کہ صولت مرزا اور اسحاق ڈار میں سے کس کے اعترافی بیانات وطن عزیز کیلئے زیادہ خطرناک ہیں؟اس کا فیصلہ میں یا آپ نہیں بلکہ ملک کے تحفظ کا فیصلہ کرنے والی قوتوں نے کرنا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ اسحاق ڈار کے فوجی حراست میں لکھے جانے والے اعترافی بیان کی کوئی وقعت نہیں ہے تو پھر ماڈل ایان علی کو
منی لانڈرنگ میں کیوں اور کس قانون کے تحت گرفتار کر رکھا ہے؟ صولت مرزا اور عمیر صدیقی کے دیے جانے والے بیانات کو سامنے رکھیں تو پھر ماڈل ٹائون کے چودہ قتل اور78 لوگوں کو قتل کی نیت سے ماری جانے والی گولیاں کس کھاتے میں جائیں گی ؟اور پھر ایک صوبائی وزیر کی ایک مفرور ملزم سے کسی کے نام پر وصول کی جانے والی رشوت لینے والی ویڈیو بھی سامنے رکھنی ہو گی ... قانون تو سب کیلئے ایک جیسا ہی ہونا چاہئے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ پنجاب اور کراچی کے قانون میں تفریق کر دی جائے؟ اگر صولت مرزا کے اعترافی بیانات پرالطاف حسین اور بابر غوری شریک جرم ہو سکتے ہیں تو پھر اسحاق ڈار کی اعترافی تحریر کی ایک ایک سطر کے مطا بق یہ دیکھنا ہوگا کہ ان کے ساتھ کون کون شریک جرم تھا؟۔ ملک کے مفادات اور سالمیت سے کھیلنے کی بات کریں تو پھر یہ بھی مت بھولیں کہ عوامی نیشنل پارٹی کے جناب اسفند یار ولی خان کے ایک نہیں بلکہ درجنوں بیانات ہیں کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر شروع کی گئی تو وہ اسے بم سے اڑادیں گے اور پھر لوگوں کو یاد ہوگا کہ وہ حکومت پاکستان کی رٹ کو للکارتے ہوئے دھمکیاں دے رہے تھے کہ اگر ہم پختونوں کو تنگ کیا گیا تو یاد رکھو کہ روس جلال آباد میں موجو دہے اور وہ ہماری صرف ایک آواز پر اٹک تک پہنچ جائے گا اور کیا ہم مولانا فضل الرحمن کے والد کا یہ اعترافی بیان بھی بھول جائیں کہ شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے ‘‘...!!