اور انگلی اٹھ ہی گئی لیکن یہ وہ نہیں جس کے بارے میں تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے ڈی چوک میں اپنے کنٹینر پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ کل امپائر اپنی انگلی اٹھا دے گا۔ وہ انگلی تو نہ اٹھنی تھی اس لئے نہ اٹھی لیکن ہمارے وزیر اعظم نے 15اپریل کو اپنی انگلی اٹھا کر دنیا بھر کو دکھاہی دی ہے ۔کسی بھی اہم شخصیت سے وزیر اعظم کی ہونے والی ملاقات کی تصویر اس وقت تک میڈیا کو جاری نہیں کی جاتی جب تک وزیر اعظم خود اس کی اجا زت نہ دے دیں۔ 15اپریل کو ملک کی دو مقتدر شخصیات کے درمیان ون آن ون ہونے کی ملاقات کی جو تصویر وزیر اعظم ہائوس سے سرکاری طور پر میڈیا کو جاری کی گئی اسے دیکھتے ہی سب چونک گئے‘ کیونکہ اس تصویر میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنی دائیں ہاتھ کی انگلی کا رخ نہ جانے کس کی طرف کیا ہواتھا۔ ریکارڈ گواہ ہے کہ میاں نواز شریف وزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر تیسری دفعہ فائز ہوئے ہیں اور جہاں تک یاد پڑتا ہے اب تک انہوں نے کسی بھی اہم شخصیت سے اپنی ون آن ون ملاقات کی کوئی بھی تصویر اس طرح انگلی اٹھائے ہوئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو نہیں بھیجی۔
غالباً یہ 1991ء کی بات ہے کہ اس وقت کے واحد پی ٹی وی کے 9 بجے کے خبر نامے میںا یک ایسا نوجوان اینکر پہلی دفعہ خبرنامہ پڑھنے کیلئے بھیجا گیا جو اس سے پیشتر پانچ بجے کے نیوز بلیٹن میں پنجابی خبریں سنایا کرتا تھا اور وہ نو جوان ایک اعلیٰ سرکاری افسر کا بیٹا تھا لیکن اس رات نو بجے کے بلیٹن میں جب وہ انتہائی تعلیم یافتہ ، مہذب اور بہت ہی خوش شکل نوجوان خبرنامہ سنا رہا تھا تو اس وقت کے وزیر اعظم کو اس کے خبریں پڑھنے کا انداز نہ جانے کیوں پسند نہ آیا‘ وہ اس وقت شاید رحیم یار خان یا بہاولپور میں تھے انہوں نے وہاں سے حکم جاری کر دیا کہ اس نوجوان اینکر کو دوبارہ9 بجے کے خبر نامے میں شامل نہ کیا جائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بے چارہ پنجابی خبریں سنانے سے بھی گیا ۔ اس لئے اس ملاقات میں ان کی دائیں ہاتھ کی اٹھی ہوئی انگلی والی تصویر جسے خصوصی طور پر اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کو جاری کیا گیا ہے ہو ہی نہیں سکتا کہ اس تصویر کی وزیر اعظم نواز شریف سے با قاعدہ اجا زت نہ لی گئی ہو۔
جب انگلی اٹھانے کی بات کی جائے تو اس کے بارے میں مشہور کہاوت ہے کہ جب آپ کسی کی جانب ایک انگلی اٹھاتے ہیں تو چار انگلیاں آپ کی جانب اٹھی ہوئی ہوتی ہیں۔ اگر کسی کواس کہاوت کی سچائی جاننی ہے تو وہ اپنی ایک انگلی کسی کی جانب اٹھا کر دیکھ سکتا ہے‘ اس کو جواب مل جائے گا۔ سوال پھر سامنے آتا ہے اور بار بار آتا ہے کہ آخر وزیر اعظم ہائوس کے یہ تصویر چھپوانے کے در پردہ مقاصد کیا ہو سکتے ہیں؟ اگر ان کی جانب سے چھپا ہوا یہ اشارہ دے دیا گیا ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس کو کیا پیغام دیا گیا ہے؟ کیا یہ پیغام اندرون ملک کیلئے تھا یا بیرون ملک کچھ اہم ترین شخصیات کیلئے؟۔ اگر انگلی اٹھائے جانے کی بات کے دوسرے پہلو کی جانب غور کریں تو ہو سکتا ہے کہ چونکہ یہ ملاقات یمن اورسعودی عرب کے کشیدہ حالات کے تنا ظر میں تھی اس لیے کسی زیر بحث نقطہ پر جناب وزیر اعظم اپنی رائے یا فیصلے پر انگلی لہراتے ہوئے زور دے رہے تھے۔
جب سے یہ خصوصی تصویر میڈیا کی زینت بنی ہے ہر کوئی ایک دوسرے کی جانب معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے اس کے بارے میں سوال کر رہا ہے اور ایک انگلی پر نہ جانے اب تک کتنے لاکھ انگلیاں اٹھ چکی ہیں۔ تجزیہ نگار اور دانشور کبھی دور کی کوڑی لے آتے ہیں تو کبھی بہت ہی نزدیک کی اور ہر کوئی اپنی اپنی سوچ کے مطا بق اس کو معنی پہنا رہا ہے۔ کچھ لوگوں کی قیافہ شناسی ہے کہ یہ انگلی شاید چوہدری نثار علی خان کے اس بیان کی جانب اٹھائی جا رہی تھی جس میں انہوں نے متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور انور قرقاش کی پاکستان کی مشترکہ پارلیمنٹ کی قرار داد کے بارے میں کی جانے والی ٹوئٹ کے جواب میں خواہ مخواہ بغیر پوچھے بیان جاری کر دیا تھا اور جس پر وہ معذرت خواہ ہونے کی بجائے ابھی تک فخر سے ڈٹے رہنے کا اعلان کر رہے تھے۔
میں چونکہ دانشور نہیں اس لئے اندازے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اپنی یہ انگلی پنجاب میں امن عامہ کی ناقص صورت حال،ہر گلی اور سڑک پر ڈاکوئوں اور راہزنوں کی عورتوں اور مردوں سے دن دہاڑے کی جانے والی لوٹ مار پر اظہار ناپسندیدگی کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ شہباز شریف ، چیف سیکرٹری پنجاب اور انسپکٹر جنرل پولیس کی ناقص کا رکردگی کی جانب اٹھا ئی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی یہ انگلی ملک بھر میں جان لیوا لوڈ شیڈنگ کے خلاف وزیر پانی اور بجلی خواجہ آصف اور عابد شیر علی کی طرف اٹھائی ہو لیکن ا س کیلئے تو انہیں اپنی دو انگلیاں اٹھانی تھیں۔ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی یہ انگلی پاکستان سٹیل مل کے ملازمین کو چار ماہ کی تنخواہیں نہ دینے والوں کی جانب اٹھائی ہو یا پھر ہو سکتا ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب ایک بینک کی نجکاری میں کئے جانے والے اربوں ڈالر کے گھپلوں کے خلاف اٹھنے والے میڈیا کے طوفان کی جانب اٹھائی ہو ؟۔اگر قیا س کے گھوڑے دوڑاتے جائیں تو یہ بات قرین قیا س لگتی ہے کہ انہوں نے اپنی یہ انگلی لاجواب پرواز کے نعرے کے نام سے مشہور ادارے کی موجودہ حالت کے ذمہ داروں کی جانب اٹھائی ہوَ؟یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہوں نے ایل این جی کے سودے کے بعد شاہد خاقان عباسی کے مبینہ طور پر خریدے جانے والے ان تین نئے جہازوں کی خبر کی جانب اٹھائی ہو؟
جس طرح کے ملک میں حالات ہیں‘ جس طرح لوگ بھوک او ربیروزگاری سے تنگ آ کر خودکشیاں کر رہے ہیں اور جس طرح مہنگائی نے لوگوں کو جیتے جی مار دیا ہے‘ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اپنا اور اپنی انگلیوں کا رخ ایسے مسائل کی طرف کریں جنہوں نے عوام کو ادھ موا کر رکھا ہے۔ یقین کریں لوگوں کو گرمیوں سے اس لئے خوف نہیں آتا کہ پسینہ بہے گا بلکہ لوگ ڈرتے ہیں کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور کم بجلی خرچ کرنے کے باوجود بھاری بل آئیں گے جو ان کے کڑاکے نکال دیں گے۔ حکمران اگر ان ایشوز کی طرف اپنی انگلیاں کریں گے تو عوام کو بھی محسوس ہو گا کہ ان کے حکمران ان کا خیال رکھنے والے ہیں۔ یہ نہیں کہ صرف ووٹ لے کر بھول گئے بلکہ قدم قدم پر ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ عوام کی برداشت کا امتحان لینا بند کریں اور بجائے اس کے کہ خالی اعلانات اور دعوے کرتے رہیں ‘ ان کی مدد کو آئیں۔ ذرا گلیوں اور سڑکوں پر نکلیں اور دیکھیں کہ عوام کس حال میں ہیں۔ اپنی انگلی سے عوام کی انگلی تھامے اور ثابت کریں کہ وہ عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ایک لمحے کیلئے مان لیتے ہیں کہ وزیر اعظم کی انگلی وزراء کی نا اہلی اور پنجاب حکومت کی مہنگائی اور امن و امان میں مکمل ناکامی پر اٹھائی گئی ہو لیکن پھر اس خیال کو جھٹکنا پڑتا ہے کیونکہ ایک انگلی جو انہوں نے ان محکموں کی جانب اٹھائی ہو گی تو باقی چار انگلیاں ان کی جانب بھی لازمی اٹھی ہوں گی؟ اک معمہ ہے۔ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔