یہ بڑی عجیب بات ہے کہ جب بھی گریڈ انیس اور اس سے اوپر کے افسران کی ترقی کیلئے سنٹرل سلیکشن بورڈ کے اجلاس کی کوئی تاریخ مقرر ہوتی ہے تو انعقاد سے عین چند دن پہلے پولیس اور ایف آئی اے سے متعلقہ افسران کی رپورٹوں کے بارے رائے دینے والے سیکرٹری اچانک دس دن کی رخصت پر چلے جاتے ہیں۔ یوں ترقی کی خبر سننے کے انتظار میں دن گننے والے افسر بے چارے ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ابھی یہ کہانی ختم ہی ہوئی تھی کہ راج ہنسوں کے کان دوسری کہانی سننے لگے کہ کس طرح ایک وفاقی سیکرٹری نے اسلام آباد کے ایس پی ٹریفک کو فون کیا کہ ان کے بیٹے کا ڈرائیونگ لائسنس بنا دیا جائے۔ ایس ایس پی ٹریفک نے ان کے بیٹے کو لرننگ لائسنس تھماتے ہوئے کہا کہ لرننگ کی مدت پوری ہونے پر ڈرائیونگ ٹیسٹ لے کر آپ کو لائسنس جاری کر دیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ سیکرٹری صاحب ایس ایس پی کی اس ''قبیح‘‘ حرکت پر بہت سیخ پا ہوئے۔ کچھ عرصہ گزرا کہ اس ایس پی ٹریفک کا تبادلہ بطور ایس ایس پی آپریشن کر دیا گیا۔ اسی دوران وہاں ایک جماعت نے احتجاجی جلوس نکالا‘ جس کے شرکا نے توڑ پھوڑ کی اور پولیس پر پتھرائو بھی کیا۔ اسلام آباد کے اعلیٰ حکام کی ہدایت پر مظاہرین کے خلاف تھانہ چک شہزاد میں مقدمہ درج کر دیا گیا۔ ابھی اس ایف آئی آر کو درج ہوئے کوئی تین گھنٹے ہی گزرے ہوں گے کہ اعلیٰ حکام کی طرف سے ایک کال آئی کہ یہ مقدمہ فوری خارج کر دیا جائے اور مقدمہ درج کرنے والے اہلکاروں کو فوری طور پر معطل کر دیا جائے۔
کہا جاتا ہے کہ اعلیٰ سطح سے ملنے والے ان احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے متعلقہ حکام نے سیکرٹری صاحب کے بیٹے کا ڈرائیونگ لائسنس بغیر ٹیسٹ کے بنانے سے معذرت کرنے والے ایس ایس پی، ڈی ایس پی اور ایس ایچ او چک شہزاد کو معطل کردیا۔ اب وہی ایس ایس پی گزشتہ چار ماہ سے معطل ہو کر بغیر تنخواہ گھر بیٹھا ہے۔ اُس کی زندگی کیسے گزر رہی ہے؟ اس کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں‘ جو محض تنخواہ پر گزارا کرتے ہیں۔ یہ کہانی کا تیسرا کردار ہے جبکہ پہلے دو کردار آئی جی اسلام آباد آفتاب چیمہ اور ایس ایس پی محمد علی نیکو کارا ہیںجنہوں نے حکومت کے زبانی احکامات پر دھرنے والوں پر تشدد اور ان پر فائرنگ کرنے سے انکار کر تے ہوئے صرف اتنا کہا تھا کہ وہ جو بھی کریں گے آئین اور قانون کے مطا بق کریں گے‘ جس پر ان دونوں کو ان کی ملازمتوں سے فارغ کیا جا چکاہے اور یہ تیسرے کردار وہ مشہور دبنگ ایس ایس پی عصمت اﷲ جو نیجو ہیں جو چار ماہ سے معطل ہو کر گھر بیٹھے ہیں جنہوں نے دھرنے والوں کے خلاف حکومت وقت کے ہر حکم کی تعمیل کرنے کی کوشش کی‘ جس پر دھرنے کے شرکاء نے ان پر تشدد بھی کیا تھا جس سے وہ زخمی ہو کر ہسپتال داخل رہے۔
اب ایک کہانی پڑھیے۔ جنگل میں بیٹھا ہوا ر اج ہنسوں کا جوڑا ان تین کرداروں کے واقعات سننے کے بعد بولا کہ لازماً یہاں الوئوں کا ڈیرہ ہے‘ شاید اسی وجہ سے ہر طرف ویرانی ہی ویرانی دکھائی دے رہی ہے ۔ ان کے قریب ہی کہیں ایک اور الو بیٹھا ان کی باتیں سن رہا تھا۔ اس نے ان دونوں کے پاس آ کر کہا کہ ایسی بات نہیں‘ اس ویرانی کا ہم سے بھلا کیا تعلق؟ اس کی کوئی اور وجہ ہے‘ وہ تلاش کریں۔ راج ہنسوں کے جوڑے نے بحث میں پڑنے کی بجائے وہاں سے چلے جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ انہیں جاتے ہوئے دیکھ کر الو نے مادہ راج ہنس کو روک کر کہا کہ تم نہیں جا سکتی کیونکہ تم تو میری گھر والی ہو۔ یہ سن کر پہلے تو راج ہنس سمجھے کہ الو ہم سے مذاق کر رہا ہے‘ وہ جانے لگے لیکن الو نے زبر دستی مادہ ہنس کو بٹھا کر کہا کہ اس بات کا فیصلہ یہاں کے بڑے اور عقل مند لوگوں سے کرا لیتے ہیں۔
تھوڑی دیر میں ہی ایک کوے کی طرف سے اعلان ہو گیا کہ جنگل میں موجود سب بڑے بڑے اور عقل مند برگد کے بڑے درخت کے نیچے اکٹھے ہو جائیں کیونکہ ایک اہم مسئلہ درپیش ہے جس کا فیصلہ کرنا ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں جنگل کے سب بڑے‘ برگد کے اس درخت کے نیچے پہنچ گئے تو الو نے مادہ ہنس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری گھر والی ہے اور کافی عرصہ سے میرے ساتھ رہ رہی ہے‘ جبکہ یہ راج ہنس نہ جانے کہاں سے آگیاہے اور میری بیوی کو اپنے ساتھ لے جا نا چاہتا ہے اور یہ بھی اس کے جھانسے میں آ گئی ہے۔ جب میں نے اسے ایسا کرنے سے روکنے کی کوشش کی تو یہ دونوں مجھ سے جھگڑنا شروع ہو گئے۔ مادہ ہنس بھی اس کے ساتھ جانے کی ضد کر رہی ہے۔ یہ سنتے ہی راج ہنس نے سیانے اور طاقتور لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ الو بالکل غلط کہہ رہا ہے ہم لوگ فلاں جگہ رہتے تھے‘ وہاں سے ہم آپ کے اس جنگل میں پہنچے۔ اگر کسی کو شک ہے تو چل کر ہمارے ٹھکانے سے معلوم کر سکتا ہے‘ وہاں سب آپ کو بتائیں گے کہ ہم دونوں میاں بیوی ہیں۔ ہم تو اس سامنے والے درخت پر بیٹھے ہوئے جنگل میں ہر طرف ویرانی سی دیکھ کر حیران ہورہے تھے کیونکہ ہم نے تو جنگلوں میں رونقیں ہی رونقیں دیکھی تھیں‘ کہیں پرندے چہچہا رہے تھے تو کہیں وقفے وقفے سے مختلف قسم کے پرندوں اور جانوروں کی نت نئی قسم کی بولیاں سننے کو ملتی تھیں لیکن اس جنگل میں تو ہر جانب ایک خوف کا سماں دکھائی دے رہا ہے۔ یوں محسوس ہوتاہے کہ ہر کوئی اپنی اپنی جگہ سہما ہوا ہے اور اس الو سے تو ہم آج تھوڑی دیر پہلے زندگی میں پہلی بار ہی ملے ہیں۔ بھلا الو اور مادہ ہنس کی شادی بھی کبھی سنی اور دیکھی ہے؟۔
مجلس میں موجو دسب بڑے کچھ دیر آپس میں مشورہ کرنے کے بعد راج ہنسوں سے کہنے لگے‘ آپ دونوں کی اور الو کی باتیں تفصیل سے سننے اور آپس میں کافی غور و خوض کرنے کے بعد ہم سب متفقہ طور پر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ الو جو کچھ کہہ رہا ہے وہ بالکل صحیح ہے کیونکہ اس کے ساتھ مادہ الو نہیں اس لئے مادہ ہنس واقعی اسی کی بیوی ہے۔ اس لیے یہ الو صاحب کے پاس رہے گی اور نر ہنس کو ہماری پوری مجلس کی طرف سے یہ حکم ہے کہ بجائے ا س کے کہ اس کی وجہ سے جنگل کا سکون خراب ہو وہ فوراً یہاں سے کہیں اور چلا جائے‘ ورنہ اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ راج ہنسوں کا جوڑا مجلس کا متفقہ فیصلہ سنتے ہی زارو قطار رونے لگا۔ مادہ نے دہائی دیتے ہوئے ہر طرح کی قسمیں کھائیں کہ وہ راج ہنس کے گھر والی ہے لیکن مجلس کے تمام لوگ اپنے فیصلے پر قائم رہے اور مادہ کو الو کے ساتھ جانے کی ایک بار پھر سختی سے تاکید کر دی۔ہر طرف سے مایوس ہو کر راج ہنس جب وہاں سے روتا پیٹتا جانے لگا تو الو نے اسے روک کر اپنے پاس بٹھاتے ہوئے کہا'' تم لوگوں نے اب سب کچھ اپنی آنکھوں سے خود دیکھ لیا ہے کہ اس جنگل کی ویرانی کی وجہ الو نہیں بلکہ یہ سب بڑے اور طاقتور لوگ ہیں جو وہی فیصلے کرتے ہیں جو ان کی مرضی کے مطابق ہوتے ہیں! ‘‘
یہ کہہ کر اس نے مادہ کو راج ہنس کے ساتھ جانے دیا اور کہا کہ اس نے یہ سارا ڈرامہ یہ سمجھانے کے لیے کیا تھا کہ اعلیٰ سطح پر ہونے والے فیصلے ہی کسی ملک کی ترقی یا زوال کا باعث بنتے ہیں۔