انسانی حقوق اور امن کی فاختہ سے پیار کے نام پر نوبل انعام کے حقدار قرار دیے جانے والے دلائی لامہ اور محترمہ آنگ سان سوچی کی آنکھیں بند ہو گئی ہیں‘ ان کے کان پک گئے ہیں یا ان کی ناک کچھ سونگھنے اور محسوس کرنے کی حس کھو بیٹھی ہے جو انہیں میانمار میں جگہ جگہ روہنگیا کی جلی اور سڑی ہوئی لاشوں کی سڑاند بھی محسوس نہیں ہو رہی؟۔ او ر صد افسوس ہے آنگ سان سوچی پر کہ جب بین الاقوامی میڈیا نے ان سے پوچھا کہ آپ آگے بڑھ کر ان روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کو کیوں نہیں رکواتیں تو انہوں نے اتنا کہہ کرخاموشی اختیار کر لی کہ اگر اس وقت میں نے روہنگیا کے حق میں کچھ کہا تو نومبر میں ہونے والے عام انتخابات میں بدھسٹ ووٹر میرے خلاف ہو جائیں گے اور اس سے میری مقبولیت پر بہت برا اثر پڑسکتا ہے۔ آنگ سان سوچی کے نام سے مشہور یہ خاتون جب برما کی فوجی حکومت میں رنگون میں قید تھیں تو بین الاقوامی میڈیا سے متعلق جو بھی انہیں ملنے کیلئے جاتا یہ اس کے سامنے انسانی حقوق کے متعلق بڑھ چڑھ کر باتیں کیا کر تی تھیں۔ آج جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا یہ قتل عام اور زندہ انسانوں کو آگ میں جلانا انسانی حقوق کی تذلیل نہیں تو نوبل انعام یافتہ خاتون کے پاس کوئی جواب ہی نہیں ہوتا کیونکہ اس سے ان کے اقتدار کا رستہ بند ہو سکتا ہے... کیا نوبل انعام سے نوازنے والی کمیٹی آنگ سان سوچی اور دلائی لامہ کو دیئے جانے والے نوبل انعام کے استحقاق پر نظر ثانی کرنا پسند کرے گی؟ کیونکہ ان کی خاموشی اور بے حسی ثابت کر رہی ہے کہ یہ مذہبی متعصب ہیں نہ کہ انسانی حقوق کے علمبردار۔ افسوس صد افسوس یہ معیار ہے دنیا میں نوبل انعام سے نوازنے والوں کا؟ شاید کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ نسل کشی اور قتل عام کے معنی اقوام عالم کی نظروں میں اس وقت بدل جاتے ہیں جب نشانہ غریب‘ مفلوک الحال‘ کالی رنگت والے اور مسلمان بن رہے ہوں۔ کیا پوری دنیا میں سے کسی کو بھی تھائی لینڈ اور میانمار کی بے شمار قتل گاہیں اور لا تعداد اجتماعی قبریں نظر نہیں آ رہیں جو ان روہنگیا مسلمانوں کی جلی اور کٹی پھٹی لاشوں سے اٹی پڑی ہیں؟
انگریز جہاں جہاں قابض رہا‘ وہاں ابھرنے والی آزادی کی خونریز تحریکوں کی وجہ سے وہاں سے رخصت ہوتے ہوئے کوئی نہ کوئی ایسا کانٹا چھوڑ گیا جو آج تک ناسور بن کر اُس خطے میں بسنے والی نسل انسانی کو نگل رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا تنازعہ جان بوجھ کر کھڑا کر دیا گیا اور وعدے اور اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پٹھا ن کوٹ کو پاکستان سے آخری دن علیحدہ کرتے ہوئے بھارت کے حوالے کر دیا تاکہ کشمیر تک اسے آنے جانے میں آسانی رہے۔ کشمیر کے اسی تنازعے پر جو انگریز بہادر پیدا کر گیا ہے‘ اب تک دونوں ملکوں کے درمیان چار جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ سری لنکا ( اس وقت کا سیلون) میں چائے کے با غات میں کام کرنے کیلئے جنوبی ہندوستان سے تامل کو لا کر آباد کیا گیا‘ جس پر بعد میں سری لنکا میں پندرہ سال تک لڑائی ہوتی رہی‘ اور مشرق وسطیٰ کی تمام عرب ریاستوں میں کہیں ایران اور امارات کے درمیان خرفقان کے سمندر میں ایک جزیرے کی ملکیت کا جھگڑا‘ کہیں عراق اور کویت اور سب سے بڑھ کر فلسطین کے ساتھ اسرائیل کا ناسور‘ یہ سب انگریز کی مہربانی سے ہے۔ اسی طرح میانمار (برما) کے روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام اچانک نہیں ہوا بلکہ یہ سفاکیت گزشتہ پچاس سالوں سے چلی آ رہی ہے۔ روہنگیا انیسویں صدی کے وسط سے کچھ پہلے میانمار (برما) میں دوسری برٹش کالونیوں کی طرح بنگال سے مزدوری کیلئے پہنچے تھے اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ یہ بنگالی میانمار کی جنوبی ساحلی پٹی اراکان پر صدیوں سے آباد چلے آ رہے ہیں لیکن یہ چونکہ اپنی سیاہ جلد اور مسلمان ہونے کی نسبت سے الگ تھلگ نظر آتے ہیں اس لئے میانمار کی حکومت نے ان سب کو نکال باہر کرنے کا پختہ ارادہ کر رکھا ہے اور وہ روہنگیا مسلمانوں کو کوڑا کرکٹ سمجھتے ہوئے سمندر میں پھینکنا چاہتی ہے۔ اگر جزائر انڈیمان کے سمندر میں بغیر پانی، خوراک اور آسمان سے آگ برساتی ہوئی سورج کی گرمی سے بے ہوش سات ہزار ننگ دھڑنگ انسانی جسموں سے لدی ہوئی وہ کشتی دنیا کے سامنے نہ آتی تو شاید میانمار کے آٹھ لاکھ سے زائد روہنگیامسلمان بچوں اور مرد و خواتین کی جلی اور سربریدہ کٹی پھٹی ہوئی لاشوں سے مغرب اور امریکہ کا ضمیر ہلکی سی جھر جھری بھی نہ لیتا جو سوات کی ایک بیٹی پر بے ربط سی چلائی جانے والی گولی سے اس طرح بے چین ہوا پھرتا ہے کہ ابھی تک سنبھلنے میں ہی نہیں آرہا ؎
ایک روئی سی دھی پنجاب (اب سوات) دی۔۔۔ تے تساں لکھ لکھ مارے وین۔۔۔
اج لکھاں روہنگیاں روندیاں تے اقوام عالم نوں کہن
ملالہ پر چلائی جانے والی گولی کا ہمیں بھی دکھ ہے لیکن امریکہ کی باجگزاراقوام متحدہ کو میانمار میں روہنگیا میں سفاکیت اور نسل کشی کیوں دکھائی نہیں دے رہی؟ اور میانمار کے ساتھ بیٹھا بھارت منہ میں گھنگھنیاں ڈالے ہوئے چپ کیوں ہے؟ وہ شاید یہی سوچ کر خوش ہوا جاتا ہے کہ اسے کیا۔۔۔ مار ے تو مسلمان ہی جا رہے ہیں۔ حالانکہ ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ بھارت اگر ہلکا سا بھی اشارہ کر دے تو ان دہشت گرد مونکس کی جرأت ہی نہیں کہ وہ اپنا سر اونچا کر سکیں۔ اس سے تو پھر یہی سمجھا جائے گا کہ روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام بھارت کی شہہ پر کیا جا رہا ہے جس کیلئے اس پر ان دہشت گردوں کو اسلحہ اور سرمایہ کی فراہمی کا بھی شک کیا جا رہا ہے۔ جب تک میانمار میں فوجی حکومت رہی‘ روہنگیا محفوظ تھے بس کہیں کہیں اور کبھی کبھار ان کے خلاف کوئی واردات ہو جا تی تھی لیکن
جیسے ہی وہاں فوجی حکومت کا خاتمہ ہوا‘ ان بے چاروں پر قیامت ٹوٹنے لگی اور ان کا وسیع پیمانے پر قتل عام شروع ہو گیا ۔
اب اس میں کسی بھی قسم کا شک و شبہ نہیں رہا کہ دنیا میں مہاتمابدھ کے پیروکار بھی ناپید ہو تے جا رہے ہیں۔ اپنے کاروبار کیلئے ان کا نام ضرور استعمال کیا جاتا ہے لیکن ان کی تعلیمات کی طرف دیکھا بھی نہیں جا رہا بلکہ اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ دہشت گردی کی باگ ڈور بھی انMonks کے ہاتھوں میں آ گئی ہے جو جگہ جگہ نسل انسانی کے اجتماعی قتل عام کو اپنا دین اور دھرم سمجھ رہے ہیں۔ شاید ان پر بھی اب بھارت کی راشٹریہ سیوک سنگ کی تعلیمات کا رنگ چڑھ چکا ہے بلکہ اب تو بہت سے ریسرچ سکالر سوال کررہے ہیں کہ یہ اچانک آ کہاں سے گئے ہیں؟ ۔ دلائی لامہ کے پیروکار بھارت کے ہمیشہ سے ممنون ہیں کیونکہ ان کے مذہبی پیشوا کو بھارت نے انتہائی بلند مقام اور مرتبہ دے رکھا ہے‘ اس لیے ان کی بھارت کیلئے عزت و احترام اپنی جگہ لیکن ایک سوال بار بار سر اٹھا رہا ہے کہ ان اراکان مسلمانوں سے نفرت اور ان کی نسل کشی کو ن کرا رہا ہے ؟ دلائی لامہ کے پیرو کار یا بھارت؟
دکھ مسلم دنیا کی بے حسی پر بھی ہے۔ شکوہ کھربوں ڈالر کی ملکیت کے حامل عرب حکمرانوں سے بھی ہے جو امریکہ سے109 بلین ڈالر کا اسلحہ تو خرید رہے ہیں لیکن ان روہنگیا مسلمانوں کیلئے ایک بلین ڈالر نہیں نکال سکتے۔ ایک ملالہ پر پورا یورپ اور امریکہ چیخ اٹھا لیکن اب تک ایک لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر ہر سو خاموشی ہے۔ نہ جانے کیوں؟۔۔۔ روئی سی دھی سوات دی۔۔۔۔ تساں لکھ لکھ مارے وین!!