سرتاج عزیز بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کی 25 اگست کو اسلام آباد آمد کے بے تابی سے منتظر تھے لیکن اچانک فیصلہ ہوا کہ اب پاکستان کے سرتاج عزیز 23 اگست کو نئی دہلی جا رہے ہیں‘ جہاں پاکستان اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیروںکی بات چیت ہو گی‘ جس کے بارے میں بھارتی میڈیا مسلسل یہی کہے جا رہا ہے کہ ان دونوں حضرات کی بات چیت صرف دہشت گردی کے بارے میں ہو گی جس کا فرضی منظر کچھ ایسے ہو گا کہ سرتاج عزیز ایک کاغذ سامنے رکھتے ہوئے کہیں گے کہ یہ دیکھیں آپ نے ہمیں مارا ہے تو جواب میں اجیت ڈوول ایک کاغذ باہر نکالتے ہوئے کہیں گے کہ نہیں آپ نے ہمیں مارا ہے۔ یہ دیکھو منصوبہ جس میں آپ لوگ ہمیں مارنے کا سوچ رہے ہو۔ اس طرح دونوں جانب سے کاغذات اور تصویروں کے ڈھیر میز پر اکٹھے ہو جائیں گے۔ یہ ڈھیر اتنا اونچا ہو جائے گا کہ دونوں کو ایک دوسرے کا چہرہ اور اس پر ابھرنے والے تاثرات دیکھنے میں بھی مشکل ہو گی۔ جب خاصا وقت گزر جائے گا تو پھر ان کاغذات کو سنبھالنے کیلئے ان کے وفود کے ارکان آگے بڑھیں گے اور اس طرح یہ ملاقات اپنے انجام کو پہنچ جائے گی ۔۔۔ ۔۔ آج سے ایک سال قبل دونوں ملکوں کے فارن سیکرٹریوں کی اسی طرح کی ایک ملاقات اسلام آباد میں بھی ہونے جا رہی تھی جس کیلئے بھر پور تیاریاں کی گئیں اور مسلم لیگ نواز کی نئی نئی حکومت پھولے نہیں سما رہی تھی کہ ان کی کامیاب خارجہ پالیسی سے دونوں ملکوں کے درمیان دوستی اور امن کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ سب کو یقین تھا کہ بھارت کے سیکرٹری خارجہ جب
25 اگست کو اسلام آباد پہنچ کر پاکستان کے سیکرٹری خارجہ سے ملاقات کریں گے تو نریندر مودی کی جانب سے دی گئی اتھارٹی کو استعمال کرتے ہوئے پاک بھارت دوستی کو مضبوط کرنے کیلئے بہت سے انقلابی فیصلے ہوںگے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس ملاقات سے کوئی دو ہفتے پہلے مسلم لیگ نواز کے ایک مشیر دفتر خارجہ کے کمیٹی روم میں بیٹھ کر اعلیٰ افسران کو وزیر اعظم کی بھارت کے متعلق نئی پالیسیوں پر بریفنگ دیتے ہوئے بھارتی وفد سے گفتگو کے اطوار سکھا تے رہے جس پر فارن آفس کے لوگ سمجھنا شروع ہو گئے کہ بھارت اور پاکستان کے آپس میں تمام دیرینہ تصفیہ طلب مسائل اسی ایک ملاقات میں ہی طے پا جائیں گے۔ ان میں سے وہ سینئر اہلکار‘ جو دنیا کے اہم ممالک میں سفارتکاری کا تجربہ رکھتے تھے اور اپنی سروس کے دوران بھارت کی چالاکیوں اور فریب دہی سے اچھی طرح واقف تھے‘ دل ہی دل مشیر خارجہ کی سادگی یا لا علمی پر مسکرا کر رہ جاتے لیکن نئے لوگوں کا کہنا تھا کہ موصوف چونکہ امریکہ میں موجو دہ حکومت کے انتہائی قابل اعتماد سفارتی نمائندے کے طور پر کام کر چکے ہیں اس لئے یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں بالکل درست ہے اور بھارت کے بارے میں ان کے خیالات وزیر اعظم کے ذاتی تعلقات اور معلومات کی بنیاد پر ہیں‘ اس لئے اس ملاقات میں اہم پیش رفت ہو گی۔ وہ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ خصوصی مشیر برائے خارجہ امور اس
قسم کی معلومات اور خوش فہمیاں اپنے طور پر نہیں بتا سکتا‘ ضرور کچھ نہ کچھ بریک تھرو ہونے والا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ نریندر مودی نے بھارت کے عام انتخابات میں کامیابی ملنے کے بعد سائوتھ ایشین ممالک کو 24 مئی2014ء کو اپنی تقریب حلف برداری میں مدعو کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کو بھی شرکت کا دعوت نامہ ارسال کیا‘ تو وہ ایک مثبت پیش رفت تھی۔ نریندر مودی کے اس عمل سے عالمی رائے عامہ خیال کر رہی تھی کہ اس سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں گرمجوشی آئے گی اور وہ کشمیر سمیت تمام ایشوز کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
لیکن اسلام آباد میں دفتر خارجہ کی سب تیاریاں دھری کی دھری رہ گئیں۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ کے شاندار استقبال کیلئے بچھائے جانے ریڈ کارپٹ کی مانگ کی سرخی بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے ایک بیان سے اجڑ کر رہ گئی اور نئی دہلی سے اعلان جاری ہو گیا کہ بھارت کے سیکرٹری خارجہ جو پچیس اگست 2014ء کو اپنے وفد کے ساتھ اسلام آباد پہنچ رہے تھے‘ ان کا یہ دورہ منسوخ کر دیا گیا ہے اور اس کیلئے کسی نئی تاریخ کا اعلان بھی نہیں کیا گیا۔ اس کے لیے یہ عذر تراشا گیا کہ بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبد الباسط نے دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریوں کی بات چیت سے پہلے کشمیر کی حریت کانفرنس کے لیڈران سے ملاقات کیوں کی ہے؟ یہ اعتراض کرتے ہوئے کیا بھارت سرکار اس طے شدہ طریقہ کار سے بے خبر تھی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے بارے میں جب بھی اعلیٰ سطحی رابطے ہوں گے تو اس سے پہلے وہ کشمیری قیا دت کو اعتماد میں لیں گے؟ یہ اس لیے ضروری ہے کہ کشمیری لیڈردونوں ملکوں کے درمیان اس دیرینہ تنازع میں مرکزی کردار رکھتے ہیں۔ شملہ معاہدے کی روشنی میں ان کی رضامندی کے بغیر کشمیر کے بارے میں کیا گیا کوئی بھی فیصلہ یا ایجنڈا کسی قسم کی وقعت نہیں رکھتا۔ بھارت کے اس بے معنی عذر پر دنیا بھر کا میڈیا اور سفارتی حلقے حیران رہ گئے اور انہیں یقین ہو گیا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ اپنا معاندانہ رویہ ختم کرنا تو کجا‘ کم بھی نہیں کرے گا ۔بھارت کے اس اعلان سے پاکستان کے وہ حلقے‘ جو امن کی بھاشا بولنے میں پیش پیش رہتے ہیں‘ کچھ کہنے کے بجائے دوسروں کے سامنے آنے سے بھی کترانے لگے۔
ایک سال بعداب پھر پاکستان اوربھارت کی قومی سلامتی کے مشیر وںکی پچیس اگست کو اسلام آباد میں ملاقات متوقع ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس دفعہ بھی پاکستان کے بھارت میں ہائی کمشنر عبد الباسط نئی دہلی میں حریت لیڈران سے کوئی دو ہفتے ہوئے ملاقات کر چکے ہیں‘ لیکن ابھی تک بھارت کی جانب سے اس پر کسی قسم کا اعتراض سامنے نہیں آیا۔ ہو سکتا ہے کہ بھارت اس دفعہ دنیا کو دکھانے کیلئے آخری وقت تک رسمی ملاقات سے احتراز نہ کرے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس ملاقات کا ایجنڈا ان کا ہی طے کردہ ہے جس میں کشمیر کا کوئی ذکر نہیں ہو گا بلکہ اس میں صرف دہشت گردی پر بات ہو گی۔یہ بات دنیا بھر کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ بھارتی حکومت خود پاکستانی ہائی کمشنر سے کشمیری لیڈران کی ملاقات کرانے میں ذاتی دلچسپی لیتی رہی ہے؛ چنانچہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ گزشتہ سال 25 اگست کو اسلام آباد میں خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر ہونے والی ملاقات کو منسوخ کرنے کیلئے پاکستانی ہائی کمشنر کی مقبوضہ کشمیر کے حریت لیڈران سے ملاقات پر اعتراض کیوں؟ اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ اس وقت شاید ان کے پاس مذاکرات روکنے کا اس کے سوا اور کوئی بہانہ نہیں تھا۔ اس گھٹیا قسم کے اعتراض پر دنیا بھر کے سفارتی حلقوں کا یہی کہنا تھا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ مخاصمت اور دشمنی کے سوا کوئی اور تعلق رکھنے کا خواہشمند ہی نہیں ہے۔ بھارت کے سابق آرمی چیف جنرل جے جے سنگھ کی زبان سے شاید اسی لئے یہ سچ نکل آیا تھا کہ ''ہم اپنی سیاسی حکومت سے یہی کہتے ہیں کہ پاکستان کو '' انگیج رکھو‘‘ اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ان کی ہر حکومت پاکستان کو گزشتہ 68 برسوں سے انگیج رکھے ہوئے ہے۔