جب ہر جانب سے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو ان کی شاندار کارکردگی پر مبارکبادوں کے پیغامات کی بھر مار ہو رہی ہو تو پھر ہمارے جیسے لوگوں کی کیا مجال کہ ڈار صاحب کے بارے میں کوئی غلط قسم کا فتویٰ دے سکیں یا انہیں مبارکباد دینے والوں پر کسی قسم کا اعتراض کر سکیں۔ جب ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ ہمارے ملک کے کامیاب ترین وزیر خزانہ کی بہترین اور انقلابی پالیسیوں کی وجہ سے اس ملک میں پہلی دفعہ مہنگائی اس قدر کم ہو گئی ہے کہ قیمتیں آج سے بارہ سال پہلے کی سطح پر آ گئی ہیں اور قیمتوں میں کمی کا یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں بلکہ حکومت کے بر وقت اور سخت قسم کے معاشی اقدامات کی وجہ سے جاری و ساری ہے تو یہ کون ہوتے ہیں اس کو جھٹلانے والے۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے قومی اسمبلی کے ایوان اور اپنے ایک بیان میں اسحاق ڈار صاحب کو ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اٹھارہ ارب ڈالر تک لے جانے کو نا قابل یقین کارنامہ قرار دیتے ہوئے اور دلی مبارکباد دیتے ہوئے انہیں ملک کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ کا بھی حق دار قرار دے دیا ہے۔ مسلم لیگ نواز کی ساری اعلیٰ قیادت نے اسے پارٹی کی جانب سے انتخابات سے پہلے عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کی جانب ایک بڑا قدم قرار دیا ہے۔ اس کا اظہار پاکستان کے تمام نجی ٹی وی چینلز پر سیا سی مبا حثوں اور تجزیوں میں بھی کیا گیا‘ لیکن ابھی جب میں یہ مضمون لکھنے جا رہا تھا تو تمام اخبارات میں ایک عجیب اور نا قابل یقین خبر سامنے آ گئی۔ اس خبر میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں چینی کی قیمت70 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔ مجھے تو اس خبر میں صداقت نظر نہیں آ رہی لیکن جب ملک کے ہر اخبار اور تمام ٹی وی اینکروں کی زبان سے اسی خبر کا تذکرہ سناتو بادل نخواستہ اس پر یقین کرنا ہی پڑا‘ اکثریت کی خبر کے سامنے سوائے چپ چاپ رہنے کے اور کوئی راستہ جو نہیں بچتا۔لیکن آج جب ٹماٹراور سبزی لینے کیلئے مارکیٹ جا نا ہوا تو ٹما ٹر ایک سو روپے کلو، مٹر دو سو روپے کلو اور ٹینڈے ایک سو روپے کلو خریدتے ہوئے جناب اسحاق ڈار صاحب کو ملنے والے پاکستان کے سب سے بڑے سول ایوارڈ کی خوشیاں دھری کی دھری رہ گئیں۔ دبئی میں آئی ایم ایف کے حکام کے ساتھ مزید قرضے کے حصول کیلئے اپنی کامیاب گفتگو کے بعد ہمارے وزیر خزانہ نے خوش خبری دی ہے کہ مہنگائی کی شرح پہلی دفعہ1.8 فیصد کم ہوئی ہے‘ لیکن یہ کیسی کمی ہے کہ پاکستان کی الیکٹرونکس مارکیٹ میں اے سی، فریزر اور فریج وغیرہ پہلے سے بھی زیا دہ قیمتوں پر بیچے جا رہے ہیں اور عوام کی سواری موٹر سائیکل‘ جو اب پلاسٹک سے تیار کی جا رہی ہے‘ کی قیمتیں مشرف دور سے بیس ہزار روپے زائد وصول کی جا رہی ہیں؟اگر کسی چیز کی قیمت کم ہوئی ہے تو ہماری وزارت خزانہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس کا اخبارات اور ٹی وی پر باقاعدہ اعلان کریں اور ان جگہوں کا نام بھی بتا دیں جہاں‘ یہ اشیا سستی قیمتوں پر دستیاب ہورہی ہیں۔
عوام کو بریکنگ نیوز کے ساتھ یہ تو بتایا دیا گیا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہمارے زر مبا دلہ کے ذخائر اٹھارہ ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں لیکن یہ کیوں نہیں بتا یا جارہاکہ جنرل پرویز مشرف نے جب اقتدار چھوڑا تو پاکستان پر دنیا بھر کے واجب االادا قرضوں کی کل رقم 1500 بلین روپے تھی جو پیپلز پارٹی کی حکومت کے پانچ برسوں میں 14000 بلین روپے تک پہنچا دی گئی؟ اور جب پی پی پی کی حکومت سے مسلم لیگ نواز نے میاں محمد نواز شریف کی قیا دت میں انتخاب میں ''کامیابی‘‘ ملنے کے بعد اقتدار سنبھالا تو ان کی انتہائی تجربہ کار ٹیم نے جون2013ء میں مسند اقتدار پر اپنی انتظامی اور معاشی اصلا حات اور انقلابی اقدامات کے ذریعے صرف دو سال اور دو ماہ میں یہ قرضہ 18,800 روپے تک کیسے پہنچا دیا؟ اور یہ تو ابھی ان کی کامیابیوں کی ابتدا ہے پانچ سال پورے کرنے کے بعد جو کچھ ہو چکا ہو گا اس کا سوچتے ہی دل کانپنے لگتا ہے۔ اور یہ سب کچھ اس کے با وجود ہوا کہ جنرل مشرف اور پی پی پی کے دور میں تیل کی قیمتیں عالمی منڈی میں اور پاکستان میں آسمانوںکو چھو رہی تھیں جبکہ اس وقت تیل کی قیمتیں انتہائی نچلی سطح پر پہنچ چکی ہیں اور اسی ہفتے فرنس آئل‘ جس سے بجلی پیدا کی جا رہی ہے‘ کی قیمتوں میں پندرہ سو روپے فی ٹن سے زیا دہ کمی واقع ہوچکی ہے۔ کیا حکمران بتانا پسند فرمائیں گے کہ انہوں نے صرف گزشتہ ایک سال میں ورلڈ بینک، آئی ایم ایف ، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دوسرے ممالک سے کتنا قرضہ لیا ہے اور یہ کس شرح سود پر حاصل کیا گیا ہے؟ اس کی تمام تفصیلات ان اداروں کی ویب سائٹ پر ہر کوئی دیکھ سکتا ہے۔
ابھی جو تھوڑا سا ریکارڈ مع ثبوت کے وزیر خزانہ کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے‘ یہ کوئی سنی سنائی بات نہیں بلکہ نظر آنے والی اس سچائی پر مبنی ہے کہ جب اسحاق ڈار صاحب 1999ء تک ہمارے ملک عزیز کے وزیر خزانہ تھے تو اس وقت پاکستان کی کل اکانومی75 بلین ڈالر تھی جو جنرل مشرف نے2007ء میں160 بلین ڈالر تک پہنچا دی۔ اسحاق ڈار صاحب کے سابقہ دور میں بیرونی سرمایہ کاری‘ جو صرف ایک بلین ڈالر تھی‘ مشرف حکومت نے 2007ء میں8 بلین ڈالر تک پہنچا دی اور ٹیکسٹائل ایکسپورٹ‘ جو5.5 بلین تھی۔ جنرل مشرف دور میں8 بلین تک جا پہنچی اور اپٹما نے جو رپورٹ جاری کی‘ وہ سب کیلئے چونکا دینے والی ہے۔
کسی بھی ملک کی ترقی کا راز اس کی نو جوان نسل کیلئے مہیا کیے گئے تعلیمی معیار پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر تعلیم کے میدان میں جنرل مشرف کا موجو دہ حکومت سے موازنہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ 1999ء میں ملک بھر میں کل31 یونیورسٹیاں تھیں‘ جو2007ء میں مشرف حکومت نے52 تک بڑھا دیں‘ جن میں ایئر یونیورسٹی، انسٹیٹیوٹ آف سپیس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد ، سردار بہادر خان یونیورسٹی کوئٹہ، یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بنوں، یونیورسٹی آف ہزارہ، مالا کند یونیورسٹی چکدرہ، قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت، یونیورسٹی آف گجرات، ورچوئل یونیورسٹی لاہور، سرحد یونیورسٹی پشاور، نیشنل لاء یونیورسٹی، میڈیا یونیورسٹی، یونیورسٹی آف ایجوکیشن،لسبیلہ یونیورسٹی آف میرین سائنس، بلوچستان یونیورسٹی آف آئی ٹی اینڈ مینجمنٹ اور 2006ء میں قائم کی جانے والی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد شامل ہیں۔۔۔ سوچئے جنرل مشرف کے بعد آٹھ برسوں میں کتنی یونیورسٹیاں قائم کی گئیں ہیں؟
محترم وزیر خزانہ صاحب! آپ نے7 اگست کو دبئی میں آئی ایم ایف کے وفد سے اپنے مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ٹیکس کولیکشن میں اس سال پندرہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جناب والا‘ آپ کے کل اندرونی قرضے جو1.9 ٹریلین روپے تھے وہ مالی سال2013-14ء میں بڑھ کر18.23 ٹریلین روپے تک کیسے پہنچ گئے ہیں۔۔۔دو دن پہلے کی ایک خبر کے مطا بق آپ ایک بار پھر آئی ایم ایف کے کہنے پر پی آئی اے، کراچی سٹیل اور ملک کے چار بڑے اداروں کی نج کاری کرنے کے علا وہ یورو بانڈ کی فروخت کیلئے پر تول رہے ہیں محترم وزیر خزانہ گزشتہ سال 2 بلین ڈالر کے جو ڈالر ڈومینیٹڈ یورو بانڈز فروخت کئے گئے تھے‘ اس نے وطنِ عزیز پاکستان کو198 بلین روپے کا مقروض کر کے رکھ دیا ہے۔۔۔شکریہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب!!