لیفٹیننٹ جنرل ہر بخش سنگھ‘ جو1965ء کی پاک بھارت جنگ میں کمانڈر ویسٹرن کمانڈ تھے‘ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ دوران جنگ ایک دن مجھے انڈین آرمی چیف جنرل چوہدری کی جانب سے انتہائی خفیہ پیغام موصول ہوا کہ اپنی فوجوں کو واپس دریائے بیاس کے ا س طرف لے آئو۔ یہ پیغام سن کر میں حیران رہ گیا۔ چند لمحوں کیلئے تو مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا سن رہا ہوں۔ مجھے ایسے لگا جیسے یہ الفاظ بھارت کی چیف کمانڈ کے نہیں بلکہ دشمن کی کوئی چال ہے لیکن کچھ لمحوں بعد تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہ تھا کہ میں جنرل چوہدری سے ہی مخاطب ہوں۔ جنرل چوہدری کا یہ حکم سن کر میں گہری سوچ میں کھو گیا کہ بھارت کی فوجی اور سیاسی قیادت کو یہ احساس ہی نہیں کہ اگر میں بحیثیت کمانڈر ویسٹرن کمانڈ‘ ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی فوجیں لاہور اور کھیم کرن سے پیچھے لے آتا ہوں تو اس کا صاف مطلب ہو گا کہ ہم سکھوں کے مقدس ترین گولڈن ٹمپل کو پاکستان کی فوجوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے بڑی مشکل سے جنرل چوہدری کو قائل کیا کہ ایسا کرنا خطرناک ہو گا اور اس سے دوسرے محاذوں پر لڑنے والی بھارتی فوج کا مورال تباہ ہو جائے گا۔ جنرل ہر بخش سنگھ لکھتے ہیں کہ 1984ء میں اسی بھارت‘ جس کیلئے بیاس تک کا علاقہ دشمن کیلئے خالی کرنے کی بجائے جان کی بازی لگاتے ہوئے سینکڑوں سکھ جوان اور افسر قربان ہوئے‘ کے ہندو برہمنوں نے سکھوں کے اسی مقدس ترین گولڈن ٹمپل کو اپنی فوج کے بوٹوں تلے روندڈالا۔ وہ لکھتے ہیں کہ آج میرے سمیت درجنوں ریٹائر ہونے والے سکھ فوجی افسر اور جوان سوچتے ہیں کہ اگر65ء میں جی ایچ کیو کا حکم مانتے ہوئے دریائے بیاس سے پیچھے آ جاتے تو یقینا پاکستان گولڈن ٹمپل کاہم سے بھی زیا دہ احترام کرتا اور19 سال بعد بھارتی فوج کی طرف سے گولڈن ٹمپل کی بے حرمتی کی نوبت ہی نہ آتی۔ ان کا کہنا ہے کہ سکھ قوم اور فوج مستقبل میں ہونے والی پاک بھارت جنگ میں حالات دیکھنے کے بعد کوئی اہم فیصلہ ضرور کرے گی۔
پروفیسر گورجیت سنگھ نے LISA کے زیر اہتمام ایک سیمینار سے خطاب میں حاضرین سے پوچھا تھا ''کیا اسرائیل بیت المقدس کے اندر جنگی ریڈار نصب کر سکتا ہے؟ کیا عیسائی اپنے ویٹی کن سٹی میں اپنے پوپ کی رہائش گاہ اور دفتر سے ملحقہ کسی بھی جگہ پرکوئی حساس نوعیت کا جنگی اڈہ بنائیں گے؟۔کیا ہندوستان بھر میں کسی بھی جگہ پر موجود ہندو مذہب کے رام اور سیتا اور دوسرے بھگوانوں اور بڑے مندروں کے اندر یا ملحقہ جگہوں پر ریڈار اسٹیشن قائم کئے گئے ہیں؟‘‘ دنیا بھر سے آئے ہوئے حاضرین کا ایک ہی جواب تھا کہ ایسا کہیں بھی نہیں ہے۔ جس پر پروفیسر گورجیت سنگھ نے بھارت کی برہمن لیڈر شپ سے مخاطب ہوتے ہوئے پوچھا '' پھر کل اور آج کے سکھ پوچھتے ہیں کہ آپ نے ستمبر1965ء میں امرتسر میں سکھوں کی سب سے مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل سے ملحقہ جگہ پر اہم ترین فضائی ریڈار اسٹیشن کیوں بنایاتھا؟‘‘۔کھچا کھچ بھرے ہوئے ہال میں سناٹا چھا گیا۔
لندن کے سائوتھ ہال میں میری بہت سے سکھ نوجوانوں اور ان کے بوڑھے والدین سے اکثر بات چیت رہتی تھی۔ وہ لاہور اور پاکستان میں اپنی عبادت گاہوں اور چھوڑی جانے والی رہائش گاہوں کا بڑی عقیدت سے ذکر کیا کرتے تھے۔ میں نے پروفیسر گورجیت سنگھ کی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے ایک سکھ نوجوان سے کہا کہ پاکستان ننکانہ صاحب یا حسن ابدال میں پنجہ صاحب کے ساتھ اپنے ریڈار سٹیشن نصب کرسکتا تھا لیکن ہم نے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ سکھوں کی عبادت گاہوں کو ہماری وجہ سے کوئی نقصان نہ پہنچے‘ جبکہ بھارت نے آپ سکھوں کے مقدس ترین مقام پر فضائی ریڈار اسٹیشن بنا کر پاکستان کے خلاف کارروائی شروع کر دی اور اس کے پیچھے ان برہمنوں کے دو مقاصد تھے۔ اول یہ کہ پاکستان کی ایئر فورس کے ہاتھوں اس ریڈار کو تباہ کروا کے سکھ فوجیوں اورسکھوں کو پاکستان اور بھارت میں موجود مسلمانوں کے خلاف مزید بھڑکایا جائے اور دوسرا وہ یہ بھی جانتے تھے کہ گولڈ ن ٹمپل مسلمانوں کیلئے بھی سکھوں ہی کی طرح قابل احترام ہے اس لئے وہ اسے تباہ کرنے کی کوشش نہیں کریں گے اور اس طرح یہاں سے پاکستانی ایئر فورس کی موومنٹ پر نظر رکھی جاتی رہے گی۔ جبکہ اس ریڈار سٹیشن کی وجہ سے پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا تھا۔
جنگ ستمبر کے چھٹے روز گیارہ ستمبر کی سہ پہر تنگ آکر پاکستانی فضائیہ نے امرتسر کے اس ریڈار کو تباہ کرنے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ اس کی وجہ سے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور اس کی تباہی کے سوا پاکستان کے پاس کوئی اور چارۂ کار نہیں تھا۔ فضائی ہیڈ کوارٹر سے اس مشن پر جانے والے سیبر86 کے ہوا بازوں ونگ کمانڈر انور شمیم، سکواڈرن لیڈر منیر احمد، فلائٹ لیفٹیننٹ امتیاز احمد بھٹی اور اور فلائٹ لیفٹیننٹ سیسل چوہدری کو خصوصی طور پر حکم جاری ہوا کہ اگر اس حملے کے دوران تمہیں ذرا سا بھی شبہ ہو کہ اس سے گولڈن ٹمپل کی کسی ایک دیوارپر بھی خراش آ سکتی ہے تو اپنا مشن چھوڑ کر واپس آ جانا۔ ہندوستان اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی نوجوان سکھ نسل آج بھی امرتسر میں موجود اپنے بزرگوں سے اس بات کی تصدیق کر سکتی ہے کہ امرتسر کا فضائی ریڈار سٹیشن جب تباہ ہوا تو امرتسرکا کوئی ایک شہری بھی اس سے ہلاک یا زخمی نہیں ہوا تھااور گولڈن ٹمپل سے ملحقہ گنجان آبادی میں قائم کئے گئے اس بھارتی ریڈار سٹیشن پر حملے کے دوران سکواڈرن لیڈر منیر احمد جو اس ریڈار کو تباہ کرنے کیلئے سب سے پہلے اپنے نشانے پر لپکے‘ اس لئے شہید ہو گئے کہ انہیں شک ہو ا‘ ان کی گولہ باری سے مقدس گولڈن ٹمپل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لمحوں کے اسی شش و پنج نے انہیں بے سدھ کر دیا اور وہ دشمن کی طیارہ شکن گنوں کا نشانہ بن کر زندگی کی بازی ہار گئے۔
مہاتما گاندھی کو جب انتہا پسند ہندو گوڈسے نے قتل کیا تو کیا پورے بھارت میں اس انتہا پسند ہندو تنظیم سے تعلق رکھنے والوں کا قتل عام ہوا؟۔ اس لئے نہیں ہوا کہ سب ہندو تھے لیکن جب نئی دہلی میں نومبر1984ء میں اندرا گاندھی کو اس کے دو مسلح سکھ محافظوں نے قتل کیا تو چاروں جانب سکھوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔ نئی دہلی کی کسی بھی سڑک‘ بازار اور گلی میں نظر آنے والے سکھ کے ساتھ وہی کاٹ پھینکنے کا سلوک کیا گیا جو2002ء میں گودھرا گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا۔ نئی دہلی میں سکھوں کی دکانیں‘ ان کے گھر اور گوردوارے راکھ کے ڈھیر میں بدل دیئے گئے۔ سکھ عورتوں اور بچیوں کی وہ بے حرمتی کی گئی کہ تاریخ آج بھی ان کے ذکر سے کانپ جا تی ہے۔ ہریانہ روڈ پر ہندو جنونیوں نے بچوں سمیت سکھوں کا اس طرح قتل عام کیا کہ یہ سڑک سکھوں کے خون سے دریا کا منظر پیش کرنے لگی تھی۔
بھارت کی سپریم کورٹ میں جب گولڈن ٹمپل پر کئے جانے والے بھارتی فوج کے اس حملے کے خلاف پٹیشن دائر کی گئی تو''It illegally refused to pronounce upon the matter on merit".۔ شاید اس معیار کا انصاف بھارت کے عدالتی اختیار سے باہر ہے۔
آج کا سکھ اب بھارتی برہمنوں کے جھوٹے اور پُرفریب نعروں اور کہانیوں میں آنے کی بجائے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ ضرور سوچے گا کہ برہمن کی پاکستان دشمنی کیلئے ہر دفعہ پنجاب کا زرخیز میدان اور اس کے لوگ ہی کیوں نشانہ بنیں؟