دنیا میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ پچاس کروڑ ڈالر کے قرض پر41 کروڑ ڈالر سود دیا جائے؟ حیران ہونے کی بات نہیں‘ ایسا ہوا ہے اور یہ کارنامہ پاکستان کی مو جودہ حکومت نے ابھی ایک ماہ قبل ہی سر انجام دیا ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو میں مسلم لیگ نواز کے رہنما اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے سابق چیئر مین انور بیگ نے ملک کی موجو دہ معاشی صورت حال اور دن بدن بے تحا شا لئے جانے والے بیرونی قرضوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا '' انہیں شک ہے کہ یہ سب کچھ ایک منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے۔ ملک کو گردن تک قرضوں میں ڈبونے کا حکومت کا ایک ہی مقصد نظر آ رہا ہے کہ جب ہم ان قرضوں پر واجب الاداسو د کیلئے لئے جانے والے قرضے بھی ادا کرنے سے قاصر ہو جائیں گے تو پھر بین الاقوامی ساہوکاروں کی جانب سے ہمیں ایک پیشکش کی جائے گی کہ ان 100ارب ڈالرزکی عدم ادائیگی پر چونکہ آپ کا ملک دیوالیہ قرار ہونے والا ہے لہٰذا آپ 100ارب ڈالر کے بدلے میں اپنا نیو کلیئر پروگرام ہمارے حوالے کرنے کو تیار ہو جائیں ‘‘۔یہ الزام عمران خان یا ڈاکٹر طاہر القاد ری کی جانب سے نہیں آرہا بلکہ ایک ٹی وی چینل پر حکمران جماعت کے ہی ایک نہایت معتبر لیڈر نے لگایا جنہیں مسلم لیگ نواز میں شامل ہی اسی لئے کیا گیا تھا کہ وہ اسلام آبادکے سفارتی حلقوں میں بے پناہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں ۔ سابق سینیٹر انور بیگ نے پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام کے بارے میں خدشات کاا ظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی بنیاد اسلام آباد میں موجود ایک اہم غیر ملکی سفارتی اہلکار کی ان سے اس موضوع پر ہونے والی گفتگو ہے۔ ابھی حال ہی میں بیرونی منڈیوں میں جس طرح مختلف المیعاد بانڈز کی ''نیلامی ‘‘کے ذریعے ڈالر اکٹھے کئے گئے ہیں اس پر عالمی معاشی ماہرین حیران ہو رہے ہیں کہ کیا'' پاکستان میں سب سوئے ہوئے ہیں‘‘۔
کسی بھی ملک کو دو طرح کی صورت حال کا سامنا ہوتا ہے اگر تو اس کے خلاف بیرونی جارحیت ہو تو اسےHostile take overکہیں گے لیکن اگر معاشی تباہ کار یوں سے اندرونی خلفشار جنم لینے لگے تو اس کی وجہMis-management قرار پاتی ہے اور ایسی صورت میں شیئر ہولڈرز پر سب سے بھاری ذمہ داری آ جاتی ہے کیونکہ ان کا حالات کو آگے بڑھ کر نہ سنبھالنا فرائض سے غفلت شمار کیا جاتا ہے اور کل کو مورخ یہی لکھے گا کہ تمام شیئر ہولڈرز نے جان بوجھ کر ''اسے‘‘ تباہی کے گڑھے میں پھینکا تھا۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کیلئے قرضوں کی کوئی نہ کوئی حد ہوتی ہے لیکن ہمارے ملک کی یہ حد نہ جانے کہاں جا کر ختم ہو گی؟۔ اپنی تقدیر کے فیصلے دوسروں کے سپرد کرنے والی قومیں بالآخر ایک آزاد ، با وقاراور خود مختار قوم کی حیثیت سے زندہ رہنے کے حق سے محروم ہو جاتی ہیں۔کیا کسی کو نظر نہیں آرہا کہ گزشتہ تین دہائیوں سے پانی‘ بجلی اور گیس کے نرخ وہ ساہوکار مقرر کر رہا ہے جس کے دیئے جانے والوں قرضوں سے ہمارے ملک کے کاروبار حیات چلائے جا رہے ہیں؟۔
ہمیں دو جانب سے معاشی حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک جانب ہمارے ملک کی بیورو کریسی اور سیا ستدان ملک لوٹ کر کھا رہے ہیں تو دوسری جانب بھارت ہماری سرحدوں پر گولہ باری کی مشقیں کرتے ہوئے بیرونی سرمایہ کار کو انجانے خطرے سے دو چار کئے جا رہا ہے۔ بلوچستان، کراچی اور پاکستان بھر میں بھارت نواز طالبان کی جانب سے گزشتہ دس سالوں میں دہشت گردانہ کارروائیوں کا مقصد یہی تھا کہ پاکستان کو معاشی طور پر اپاہج کر دیا جائے۔ اس کی در آمدات بڑھا کر بر آمدات کو سکیڑ دیا جائے ۔اس کے کارخانوں کی چمنیاں اور مارکیٹیں سنسان کر دی جائیں۔ بے روزگاری کا سمندر کھڑا کر دیا جائے۔ روزمر ہ کے معمولات کیلئے اسے ہر بیرونی دروازے پر بھکاری بنا کر کھڑا کر دیا جائے۔ شکر ہے کہ بیرون ملک پاکستانی دشمن کے اس وار کے آگے ڈھال بن کر کھڑے ہوئے گئے لیکن مقام افسوس ہے کہ ان اوورسیز پاکستانیوں کوووٹ کے حق سے محروم رکھا جا ر ہا ہے۔ جب یہ لوگ کئی سالوں بعد اپنے خاندانوں سے ملنے کیلئے پاکستان آتے ہیں تو ایئر پورٹس پر ان کے
ساتھ جو توہین آمیز سلوک کیا جاتا ہے وہ باعث شرم ہے۔ اور جب یہ لوگ اپنی سالہا سال کی محنتوں سے کمائی گئی دولت پاکستان میں انویسٹ کرنے کا اراد ہ کرتے ہیں تو چند سال بعد ان کی جائیدادوں پر طاقتور لوگ قبضہ کرلیتے ہیں۔ باعث شرم بات یہ ہے کہ وہ بھارت جو ہمارے ایک ایک شہری کے ہاتھ سے اس کا روزگار چھین رہا ہے اسی بھارت کے خزانوں کو پاکستان کا پیٹ پھاڑ پھاڑ کر بھرا جا رہا ہے۔۔۔۔۔ اس ضمن میں آج تک ورلڈ بینک کی 2014 ء کی اس رپورٹ کی کسی کو بھی تردید کرنے کی ہمت نہیں ہوئی جس میں دنیا بھر کو یہ بتا کر حیران کر دیا گیا کہ پاکستان کی موجو دہ حکومت نے اپنے اقتدار کے پہلے ایک سال میں اپنے سب سے بڑے دشمن ملک بھارت کو 4 بلین70 کروڑ ڈالر کی رقم بطورRemittances بھجوائی ہے ۔۔۔سب کے سامنے ہے کہ بھارت نے تو پاکستانیوں کو بھارت کی سرزمین پر قدم رکھنے کی اجا زت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ گلوکار غلام علی کو بھارت سے نکال دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں گوشت کھانے والوں کو مارا جا رہا ہے لیکن ایک ہماری حکومت ہے کہ بھارت کو اپنے ہی ملک سے چار بلین ستر کروڑ ڈالر بھیج رہی ہے۔ آج کے اس دور میں بڑے بڑے ملکوں کو جنگوں سے نہیں بلکہ معاشی دہشت گردی سے زیر نگوں کیا جا رہا ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی طاقت سوویت یونین کی مثال سب کے سامنے ہے جب1989 ء میں
وہ ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ جب آمدن سے زائد اخراجات اوربر آمدات نصف سے بھی رہ جائیں اور سونے پر سہاگہ یہ کہ اپنے زرمبادلہ سے چار گنا زائد قرضوں کا بوجھ گردن پر سوار کر لیا جائے ہو تو پھر اسی طرح کی وجوہ کی بنا پر معاشرے میں ہر روز انفرادی خود کشیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ ہمیں اکثر اندلس سے مضبوط مسلمان حکومتوں کے زوال اور تباہی کے انخلا کی داستانیں سنائی جاتی ہیں۔ بھلا اتنی دور جانے کی کیا ضرورت ہے۔ برصغیر میں مغلیہ سلطنت کے زوال پر ہی نظرڈال لی جائے تو عبرت حاصل کرنے کیلئے یہی کافی ہے۔ جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے ان شہزادوں کی محفلیں اور محلات سجانے کیلئے قرضوں اور عنایات کی بھر مار کر دی اور پھر اپنی فوج کے خچروں کی دولتیوں سے ان مغل شہزادوں کو محلات سے نکال کر ننگے پائوں سڑکوں پر دھکے کھانے پر مجبور کر دیا۔۔۔۔تاریخ کی کتابوں اور دنیا بھر کے اخبارات میں محفوظ ہے کہ جمیکا کے صدر نے قرضہ لینے کی تقریب میں دستاویزات پر دستخط کر نے کے بعد انہیں آئی ایم ایف کے حکام کے حوالے کرتے ہوئے کہا'' اب جمیکا میں ہماری حکومت نہیں رہی بلکہ آپ کی نگران حکومت ہے اور آج سے آپ کی آئی ایم ایف کی منظوری تک میں جمیکا کا نگران صدر ہوں‘‘۔۔۔کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ پچاس کروڑ ڈالر کاقرض 41 کروڑ ڈالر کے سود کے عوض کسی نے حاصل کیا ہو جی ہاں ایسا ہوا ہے اور یہ کارنامہ پاکستان کی موجو دہ حکومت نے ابھی ایک ماہ قبل ہی سر انجام دیا ہے ‘ کیا حکمرانوں کو اپنے ملک کے مستقبل کی بالکل بھی پروا نہیں؟