وہ جسے کل تک ایشیا کی نیلسن میڈیلا کے نام سے پکارا جاتا تھا وہ جو دود ہائیوں تک میانمار کے فوجی جرنیلوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑی رہی، وہ جو ایشیا میں جمہوریت اور شہری آزادیوں کا نشان بن کر چمکتی رہی اور وہ جسے اس کے پرستار نیلسن منڈیلا سے بھی بڑھ کر کسی دیوی کا درجہ دیتے ہیں اور وہ جو نوبل انعام یافتہ بھی ہے،اندر سے ایک عام سی عورت نکلی۔ وہ مذہبی انتہا پسند ثابت ہوئی اور اقتدار کی تلاش کیلئے بھاگنے والی روایتی سیا ستدان ہی نکلی۔ انسانی اور اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈال کر سیکولرازم کا راگ الاپنے والی، ہیومن رائٹس کے نعرے لگانے والی میانمار کی مشہور زمانہ اپوزیشن لیڈر آنگ سان سوچی کو جب ماہِ رواں میں ہونے والے ملکی عام انتخابات کے مراحل طے کر نا پڑے، تو اس نے پہلے ہی قدم پر اعلان کر دیا کہ وہ کسی مسلمان کو اپنی جماعت نیشنل لیگ برائے جمہوریت کا انتخابی ٹکٹ دے کر اپنا امیدوار نہیں بنائے گی۔جب میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام جاری تھا، ان کی عبادت گاہیں جلائی جا رہی تھیں تو بھی نوبل انعام یافتہ سوچی کی مجرمانہ خاموشی قائم رہی جبکہ یہ ایک آفاقی سچائی ہے کہ اگر آپ ظلم دیکھ کر کم از کم اس کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھاتے تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ آپ بھی اس میں شریک ہیں۔ آٹھ میں سے سات اضلاع میں آنگ سان سوچی کامیابی تو حاصل کر چکی ہے، اس کی پارٹی کا نام بھی نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی ہے لیکن جمہوریت کا اولین اصول ہی اس نے اپنے پائوں تلے روند کر رکھ دیا ہے، جس میں تمام انسان برابر سمجھے جاتے ہیں، جس میں شہری آزادیوں کی بندش اور مذہبی تفریق جیسے معاملات انتہائی قابل نفرت
سمجھے جاتے ہیں۔ بی بی سی کے ایک نمائندہ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس کے ساتھی، میڈیا کے لوگ اور بہت سے عالمی نمائندے حیران ہو رہے ہیں کہ وہ عورت جو1990ء سے2000ء تک فوجی جرنیلوں کا ڈٹ کا مقابلہ کرتی رہی، اس نے بدھ بھکشوئیوں کی انتہا پسندی کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔میانمار کی مقامی طلبا تنظیمیں ،بیرونی میڈیا کے ان سوالات کا جواب دینے میں بے بس نظر آ رہی ہیں، جن میں ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آنگ سان سوچی جیسی لبرل لیڈر کی جماعت میں مسلم امیدواروں کا داخلہ ممنوع کیوں رکھا گیا؟ یہ کیسی پارلیمنٹ ہو گی جس میں اقلیتوں کیلئے ایک بھی نشست نہیں ہے وہ مسلمان جو کل تک این ایل ڈی کے شانہ بشانہ جمہوریت کی جنگ لڑتے رہے، آج سان سوچی کی جمہوریت میں اچھوت کیوں بنا دیئے گئے ہیں؟ سیتھو مانگ (مسلمان) کو تو پورا یقین تھا کہ سانگ سوچی اسے اپنی جماعت کی طرف سے امیدوار ضرور بنائے گی۔ وہ ایک مشہور سٹوڈنٹ لیڈر ہونے کی بنا پر سوچی کی قید کے خلاف احتجاج کرنے پر کئی بار جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند رہا۔ وہ2007ء کی انقلابی ریلیوں میں بھی بھر پور شرکت کرتا رہا۔ سیتھو نے اپنے انتخابی حلقے کیلئے رنگون کی ایک مشہور شہری نشست کا انتخاب کیا تھا، جہاں پر مسلمانوں کی اکثریت ہے، لیکن آنگ سان سوچی نے سیتھو کو ٹکٹ دینے سے معذرت کرتے ہوئے اس نشست سے ایک انتہا پسند اور مسلم دشمن بودھ کو اپنا انتخابی ٹکٹ جا ری کر دیا، کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ وہ کسی مسلمان کو اپنی جماعت کی جانب سے امیدوار بنا کر میانمار کی مسلم مخالف آبادی کی نارا ضگی مول نہیں لے سکتی۔سیتھو کا کہنا ہے کہ اس کی نیشنل لیگ برائے جمہوریت کیلئے انجام دی گئی خدمات سے پورا میانمار واقف ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یا تو اس نے ایک نوبل انعام یافتہ پر غلط اعتماد کیا ، یا پھر نوبل انعام دینے والے غلط شخصیت کا انتخاب کر بیٹھے۔ سیتھو نے میانمار کی فوجی حکومتوں کے خلاف سان سوچی کی سیا سی جدو جہد کا ساتھ دیتے ہوئے کئی بار قیدو بند کی سختیاں برادشت کیں، لیکن اب وہ اسے اپنے قریب لانے سے گھبرا رہی ہے، مبا دا انتہا پسند مسلم دشمن تنظیم Ma Ba Tha ناراض ہو جائے ۔ میانمار کی مسلم آبادی
بھی سوچی کی اس روش پر پریشان ہے کہ انتخابی مرا حل شروع ہوتے ہی اس کے مسلم دشمن نظریات سامنے آ گئے ہیں، جس کے بارے میں انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا، کہ جمہوری اور شہری آزادیوں کیلئے طویل قید کاٹنے والی سان سوچی مذہبی انتہا پسندی کے آگے گھٹنے ٹیک دے گی؟ مسلم آبادی اس خوف میں بھی مبتلا ہوتی جا رہی ہے کہ نوبل انعام یافتہ سان سوچی نے اپنا انتہا پسندانہ چہرہ تو انتخابات سے پہلے ہی دکھا دیا تھا، اب اسے اقتدار بھی ملنے والا ہے تو مستقبل میں اس کا مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا رویہ اور سلوک نہ جانے کیسا ہو گا؟مغرب کے ہیومن رائٹس گروپس سان سوچی کے بیانات اور میانمار کی روہنگیا آبادی کے بارے میں اس کے موجودہ اقدامات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔سان سوچی کے اندر چھپی ہوئی اصلیت کا تو اسی وقت اندازہ کر لیناچاہئے تھا جب بدھ بھکشو لیڈر آشن وراتھو نے اقوام متحدہ کی نمائندہ یانگی لی کو گالیاں دی تھیں ''سان سوچی نے یہ سب کچھ سننے کے باوجود اس کی مذمت میں ایک لفظ کہنے کی ہمت نہ کی تھی۔ شاید اسے خطرہ تھا کہ ووٹر ناراض ہو جائیں گے۔آج عوام کے ووٹوں کیلئے اس کی یہ حالت ہے تو کل کو وہ اپنی پالیسیاں مسلط کرانے کیلئے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے انتہا پسند مسلم دشمن ارکان پارلیمنٹ کا دبائو کیسے برداشت کر سکے گی؟‘‘
نوبل انعام یافتہ، جمہوریت اور انسانی حقوق کی چیمپئن سان سوچی نے اپنی پارٹی کی ٹکٹ پر1,151 امیدوار علاقائی اور قومی انتخابات کیلئے نامزد کیے ،لیکن ان میں سے ایک بھی مسلمان نہیں۔جب یہ فہرست منظر نامہ پر آئی تو سب نے دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں کہ یہ سب کیا ہے؟ کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ نوبل انعام یافتہ اور خود کو لبرل، سیکولر اور ترقی پسند کہلوانے والی سوچی کی سوچ اس قدر متعصبانہ بھی ہو سکتی ہے؟۔ ہر سطح کے سیا سی کارکن کو یقین تھا کہ رنگون اور منڈالے کے انتخابی حلقوں کے مسلم اکثریتی علاقوں سے سان سوچی کی نیشنل لیگ سے منسلک کسی مسلمان کو انتخابی امیدوار بنا کر میدان میں اتارا جائے گا لیکن افسوس کہ ایسا نہ کیا گیا ۔
نیشنل لیگ کے مقابل جماعتوں کو پورا یقین تھا کہ ان کے مقابلے میں مسلم اکثریتی ووٹوں والے حلقوں سے سان سوچی لازماً مسلم امیدوار کا انتخاب کرے گی لیکن میڈیا سمیت تمام سیا سی حلقے اور تجزیہ نگاراس وقت حیرت زدہ رہ گئے جب انہوں نے دیکھا کہ نیشنل لیگ کی جانب سے جاری کی گئی فہرست میں مسلمانوں کو یکسرنظر انداز کر دیا گیاہے۔نیشنل لیگ برائے ڈیمو کریسی کے بانی رکن یو تن او بھی اس معاملے میں بے بس دکھائی دیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سیکو لر اور جمہوریت پسند ہیں لیکن مسلمان کو اپنا امیدوار بنا کر ہم کسی قسم کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔سان سوچی کی انتخابات میں کامیابی پر امریکی صدر بارک اوباما نے سوچی کو مبارک باد کا پیغام دیتے ہوئے میانمار کی فوجی قیا دت کو حکم دیا ہے کہ اقتدار کی منتقلی میں کسی بھی قسم کی کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے، جس پر سوچی نے امریکی انتظامیہ کا بھر پور شکریہ ادا کیا ہے، لیکن وہ لوگ جو اس کی بیس سالہ مزاحمتی اور سیاسی جد و جہد میں اس کے ہم رکاب رہے اُسے، ان کا نام سننا بھی گوارہ نہیں !!