"MABC" (space) message & send to 7575

گو شت بکرے کا یا گدھے کا

''اپوزیشن ‘‘کے لیڈر خورشید شاہ، محمود خان اچکزئی اوراعتزاز احسن فرماتے ہیں کہ وہ آئین اور جمہوریت بچانے کیلئے سویلین شریف کا ساتھ دیں گے۔ شائد انہیں یاد نہیں رہا کہ سابق صدر آصف زرداری نے انتخابات کے تیسرے دن لاہور میں فرمایا تھا کہ 2013ء کے یہ انتخابات ریٹرننگ افسران نے کرائے ہیں۔ اعتزاز احسن نے لاہور کے حلقہ این اے124 کے الیکشن بارے وائٹ پیپر چھاپتے ہوئے دھاندلی کے جو ٹھوس ثبوت پیش کئے تھے کیا آئین اور جمہور یت اس کی اجا زت دیتے ہیں؟۔ اگر آپ اپنے وائٹ پیپر میں مسلم لیگ نون کی اس جمہوریت کو بچانے کیلئے حکومت کا ساتھ دیں گے تو یہ تو ایسے ہی ہے کہ گوشت، گوشت ہے چاہے بکرے کا ہو یا گدھے کا؟۔ لاہور کے حلقہ این اے122 کے ضمنی انتخاب بارے ''نئے ووٹوں کے اندراج اور اخراج‘‘ پرتحریک انصاف کا ریکارڈ دیکھنے کے بعد اعتزاز احسن بر ملا کہہ اٹھے تھے کہ اس سے بڑی دھاندلی دنیا میں اب تک دیکھنے میں نہیں آئی۔ کیا یہ آئین اور جمہوریت کے منافی اور عوام کی رائے کی بے حرمتی نہیں؟۔ آئین کے تحت حقیقی نمائندوں کے آزادانہ ، منصفانہ اور شفاف انتخابات لازمی شرط ہے لیکن، اگر عوام کے مینڈیٹ کو چرا لیا جائے، تو پھر ایسے اقتدار ، ایسی وزارت عظمیٰ اور ایسی وزارت اعلیٰ کوکس طرح جائز اور آئینی کہا جا سکتا ہے؟۔ اگر آپ ریاستی طاقت کے ذریعے عوام کو غلام بنالیںجس پر کوئی دوسرا طاقتور گروپ آپ سے اپنے کھیل کو صاف ستھرا رکھنے کا مطالبہ کرے تو یہ غیر آئینی کیسے ہو گیا ؟۔ انداز حکومت ایسا تو نہیں ہوتا۔سوئس اکائونٹس، ریلوے، پاکستان سٹیل، اوگرا، ایل این جی، آئی پی پی پیز وغیرہ‘ ایک لمبی فہرست ہے کس کس کا ذکر کیا جائے؟۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے جون2013 ء میں تیسری دفعہ اقتدار سنبھالا تو پہلی نشری تقریرمیںانتہائی دکھ بھرے لہجے میں کہا تھا'' نیلم جہلم ہائیڈل پاور کے منصوبے کیلئے کل لاگت84 ارب روپے رکھی گئی تھی لیکن آج اس کی لاگت بڑھ کر274 ارب ہو چکی ہے بتائیں میں کیا کروں؟ ۔ جناب وزیر اعظم کی اس تقریر کو ڈھائی سال ہونے کوہیں لیکن نیلم جہلم ابھی بھی مکمل نہیں ہوا اور جون 2013ء میں جس کی تکمیل کیلئے 274 ارب درکار تھے اب وہ لاگت بڑھ کر415 ارب روپے ہو چکی ہے۔ یہ کس قسم کی گڈ گورننس ہے؟۔ عوام کی جیب خالی ہو رہی ہے اور حکمرانوں کی بھر رہی ہے۔ جس سرکاری ادارے میں جائیں وہاں ٹال مٹول کی پالیسی چل رہی ہے۔ لوگوں کے برسوں بلکہ عشروں کے کام رکے ہوئے ہیں۔ کوئی ایسا محکمہ نہیں کہ جس سے جا کر شکایت کی جائے۔ نندی پور، ساہیوال کول، قائد اعظم سولر پارک، گڈانی، قاسم پورٹ کسی سے کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں تو کیا اس کے خلاف آواز اٹھانا یا اس کی نشاندہی کرنا جرم ہے؟۔ ماڈل ٹائون کے چودہ افراد کا قتل کس کے کھاتے میں ڈالا جائے؟۔ کسی بھی ادارے کا چیف ایگزیکٹو اگر بدنظمی، بد انتظامی اور مالیاتی بد دیانتی پر آنکھیں بند کر کے اسے معاشی تباہی کی طرف جاتا دیکھتا رہے‘ ہر گزرتے دن کے ساتھ ادارے کو قرضوں اور فضول خرچیوں کے بوجھ تلے دباتا چلا جائے 
تو اس ادارے کے شیئر ہولڈرز کا رد عمل کیا ہو گا؟۔ اگر آپ کسی جہاز یا کشتی میں سوار ہیں اور آپ کو یہ معلوم ہو جائے کہ جہاز کا کپتان منزل کی سمت سے نا آشنا ہے یا وہ جان بوجھ کر جہاز کو غلط سمت لے جا رہا ہے جہاں یا تو طوفان سے سامنا ہو سکتا ہے یا کسی پوشیدہ چٹان سے ٹکرانے کا امکان ہو تو اس صورت میں جہاز کے سکیورٹی کے عملے کا پاکستان کی غلطی کی نشان دہی کرتا ہے تو کیا آئین کی خلاف ورزی ہو گی؟کیا ایسی صورت میں جہاز کو بچانے کی کوشش نہیں کی جائے گی؟۔ افواج پاکستان کا آئین سے وفا داری کا حلف ان پر فرض عائد کرتا ہے کہ وہ ملک کو اندرونی اور بیرونی کسی بھی قسم کی جارحیت یا بحران سے بچانے کیلئے ہر وقت ہر جگہ میدان عمل میں کودیں گے۔ 
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ بھارت میں فوج سیا ست میں دخل نہیں دیتی۔ واجپائی حکومت کے وزیر دفاع جارج فرنانڈس نے پارلیمنٹ کے ایک اجلاس کے بعد لابی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا '' چین اس وقت بھارت کا دشمن نمبر ایک 
ہے‘‘ اس بیان کو زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ بھارتی فوج کے آرمی چیف جنرل وی پی ملک نے ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر کو اپنے دفتر بلاکر ایک مختصر بیان دیا کہــ ''چین بھارتی فوج کا دشمن نمبر ایک نہیں ہے‘‘۔ شام تک جنرل ملک کا یہ بیان ایک فلیش پوائنٹ کے طور پر چمکنے لگا اور ''دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی حامل بھارتی حکومت کی طرف سے کسی کو جرأت نہ ہو سکی کہ اس کی تردید کر دی جائے یا‘‘ آرمی چیف کو بلا کر اس سے ہتک آمیز طریقے سے استعفیٰ لے لیا جائے‘‘۔ بلکہ دو ہفتوں بعد بھارتی فوج کے کہنے پر جارج فرنانڈس سے وزارت دفاع واپس لے کر اسے ماحولیات کی وزارت کا وزیر بنا دیاگیا۔ایک سکالر نے لکھا تھا کہ فوج اور سیا ست کی علیحدگی کا تصور بھی مغربی اور غیر اسلامی ہے۔فوج بے شک اقتدار پر قبضہ نہ کرے لیکن سیاست سے علیحدگی اس کیلئے ممکن اور مناسب نہیں۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ قوم اور فوج علیحدہ علیحدہ کشتیوں میں سوار ہیں تو اس غلط فہمی کے نتیجے میں دونوں(خدانخواستہ) غرق ہو سکتے ہیں ۔ ؎
مچے گا شور بھلے ظلم کی چلے آندھی 
میرا وطن ہے یہ قبرستان تھوڑی ہے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں