فرانس کے شہری مسلم ہوں یا غیر مسلم انہیں اپنے فرانسیسی ہونے پر فخر ہو نا چاہئے کیونکہ اس وقت فرانس میں 6 ملین کے قریب مسلمان آباد ہیں اور یہ مغربی یورپ کے کسی بھی ملک کی آبادی میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ ان چھ ملین میں سے کم و بیش 2 ملین کے قریب مسلمان ایسے ہیں جن کے پاس فرانسیسی شہریت ہے اور یہ وہ مسلمان تارکین وطن ہیں جو 1969-70 سے تیونس، مراکش، الجیریا سے روزگار کی تلاش میں آ کر یہاں آ باد ہونا شروع ہوئے۔ ان تارکین وطن کے علا وہ ایک بڑی تعداد ان جنوبی ایشیائی باشندوں کی بھی ہے جو روزگار کے لیے فرانس پہنچے اور یہ سب فیکٹریوں، ہوٹلوں، سڑکوں اور دوسرے فرانسیسی اداروں میں ہر وہ کام کرتے ہوئے ذرا سا بھی نہ ہچکچائے جنہیں وہاں کی سوسائٹی میں '' بلیو کالر‘‘ جاب کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ فرانس میں آباد ان تارکین وطن نے اپنی محنت سے ثابت کر دیا کہ یہ لوگ اپنا ہر کام ایمانداری اور جانفشانی سے انجام دیتے ہیں؛ چنانچہ انہیں ملازمتوں میں ترجیح دی جانے لگی۔ چالیس پچاس سال قبل روزگار کی تلاش میں فرانس آئے ہوئے ان تارکین وطن کی اس وقت دوسری اور تیسری نسل بھی جوان ہو چکی ہے جس نے اپنے آبائو اجداد کے مقابلے میں یہاں کی بہترین تعلیم حاصل کر رکھی ہے لیکن اب ایک دہائی سے یہ فرانس اور دوسرے یورپی معاشرے میں اجنبی سے بنتے
جا رہے ہیں جس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ فرانسیسی سوسائٹی سے خود کو الگ تھلگ رکھے ہوئے ہیں اور ان کی بہت بڑی اکثریت سیکولر فرانسیسی معاشرے کا حصہ بننے سے انکاری ہے۔ اس قسم کی صورت حال کا سامنا صرف فرانس یا یورپ کے دوسرے ممالک میں ہی نہیں بلکہ امریکہ اور برطانیہ کی سول سوسائٹی میں بھی اکثر دیکھنے میں آ رہی ہے اور یہی وہ سوچ ہے جو ان دونوں سوسائٹیوں کے درمیان فاصلوں کو مزید گہرا کر رہی ہے۔
1960ء اور1970ء کی دہائیوں میں عرب ممالک سے جب ہر ماہ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان یورپ میںروزگار کیلئے پہنچ رہے تھے تو اس وقت تک کسی کے بھی ذہن میں تہذیبوں کی جنگ یا انتہا پسندی کے مقابلے کا تصور تک مو جود نہیں تھا اور قوموں کے درمیان کسی بھی قسم کی معاشرتی یا مذہبی محاذ آرائی یا انتہا پسندی نہیں تھی حالات نے اس وقت کروٹ لینا شروع کی جب فلسطین پر اسرائیل کے وحشیانہ مظالم کے ردِ عمل میں آزادی کی تحریکوں نے جنم لینا شروع کیا اور نوجوان عرب اسرائیل کے خلاف اٹھنا شروع ہوئے۔ یہ سلسلہ بھی جلد ہی کمزور پڑ گیا لیکن امریکہ کے نائن الیون نے سب کچھ تلپٹ کر کے رکھ دیا۔ سکیورٹی کے نام پر مسلم سوسائٹی پر بے جا قسم کی پابندیاں عائدکی جانے لگیں۔ پھر لندن کے7/7 اور یورپ میں ہونے والی دہشت گردی کی پے در پے سنگین کارروائیوں اور اب فرانس میں 13 نومبر کی رات نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے اور یورپ بھر میں شدت سے اسے 'تہذیبوں کی جنگ‘ اوریورپ میں اسلام کے بڑھتے ہوئے غلبے کے نام سے پکارا جانے لگا ہے اور یہ سوچ اس قدرراسخ ہورہی ہے کہ فرانسیسی خود کو ''ہم‘‘ اور تارکین وطن مسلمانوں کو ''وہ‘‘ کہنے لگے ہیں۔ Us اورThem کی اس گردان نے فرانس میں آپس کے باہمی فاصلوں کو بڑھانے کی تمام حدیں عبور کر لی ہیں۔فرانس سمیت پورے یورپ میں یہ تاثر ابھرنا شروع ہو گیا ہے کہ اگر اسے روکا نہ گیا تو کل کو انتہا پسندی ان کے اپنے معاشرے کی نئی نسل کو اپنے ساتھ بہا لے جائے گی۔
نائن الیون کے اندوہناک سانحہ کا جواب دینے کے لیے فوری اشتعال میں آنے کی بجائے اگر سکون اور ہوشمندی سے فیصلے کئے جاتے توآج دنیا کا امن و سکون اس قدر تباہ نہ ہوتا۔۔۔۔ اسی طرح فرانس میں مسلم اور غیر مسلم چپقلش کا آغاز مسلم خواتین کے حجاب سے ہوا، جو اب یورپ کا سب سے بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔۔ نقاب یا حجاب فرانس کی معیشت اور دفاع میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں بن رہا تو یہ معاملہ میڈیا کے ذریعے اس قدر آگے بڑھا نے کی کیا ضرورت تھی کہ فرانسیسی حکام نے نقاب پہنے ہوئے خواتین کو کسی بھی یونیورسٹی، بینک، ہسپتال، ڈاکٹر کے کلینک اور دفاترمیں داخل ہونے سے روک دیا۔ ایک معمولی سی بات پر یورپ میںتہذیبوں کی جنگ کا آغاز ہو گیا نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ سکولوں میں بھی حجاب یا اس سے ملتے جلتے لباس پہننے والوں کو داخلے سے محروم کیا جانے لگا ۔یہ معاملہ یہیں پر محدود نہ رہا بلکہ وہ لڑکے اور لڑکیاں جو تعلیم یافتہ تھے ان پر ملازمتوں کے دروازے بند کیے جانے لگے۔ انتہائی تعلیم یافتہ مسلمانوں کو کارخانوں میںاگر مزدور کی جاب مشکل سے مل بھی جاتی تو اس جیسی تعلیم یا کم تجربے کے حامل فرانسیسی کو وہیں پر ہی ایگزیکٹو پوسٹ پر تعینات کیا جانے لگا ۔
دوسری جانب پولیس اور ایجنسیوں کے اختیارات اس قدر بڑھا دیئے گئے کہ مسلمانوں کا اپنے گھروں کے اندر رہنا بھی دوبھر ہونے لگا۔ ان کے فون ریکارڈکئے جانے لگے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ان کے گھروں کے اندر کی جانے والی گفتگو کی ریکارڈنگ بھی شروع کر دی گئی ۔ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو آگ لگانے میں یورپی میڈیا بھی سب سے پیش پیش رہتا ہے اور اس نے آزادیٔ اظہار کے نام پر اول فول لکھنااپنا معمول بنایا ہوا ہے۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ایسا ہاتھ ہے جو ان سب کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال میں لا رہا ہے اور جو ایک تیر سے دو دو شکار کر تا ہے۔ پیرس میں چارلی ہیبڈو کا معاملہ سب کے سامنے ہے، جس کے ذمہ دار الجیریا کے دو بھائیوں کے غم و غصے کی بھینٹ چڑھ گئے اور اس واقعہ نے فرانس سمیت پورے یورپ میں تفریق کو اور گہرا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مسلم تارکین وطن کی دوسری اور تیسری نسل جو فرانس میں ہی پیدا ہوئی، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے پر جب وہاں اجنبی سی قرار دی جانے لگی، ان سے ان کی شناخت چھین لی جانے لگی تو فرسٹریشن کا شکار اس نئی نسل کے بہت سے نوجوان شام میں جا کر لڑنا شروع ہو گئے اور فرانسیسی حکومت نے خود تسلیم کیا کہ اب تک پانچ سو سے زائد فرانسیسی شام میں جا کر داعش کا ساتھ دے رہے ہیں ۔