عام آدمی کا سچ خزاں رسیدہ پتوں کی طرح ہوتا ہے جسے ہر طاقتور اپنے پائوں تلے کچلتے ہوئے گزر جاتا ہے اور پھر ہر گزرتا ہوا شخص انہی چرمر پتوں کو روندتا رہتا ہے لیکن ایک دن جیت سچ کی ہوتی ہے چاہے وہ طارق کھوسہ جیسے طاقتور کی تفتیش ہو یا میرے جیسے کسی عام اور کمزور سے آدمی کی تحقیق!۔۔۔ طارق صاحب کو یاد ہو گا کہ26 نومبر2008ء کے ممبئی حملوں کی ایک فرد جرم 11,280صفحات پر مشتمل تھی جسے تین ماہ بعد 25 فروری 2009ء کو ممبئی کرائمز برانچ نے عدالت میں پیش کیا۔ ادھر پاکستان میں ایک فرد جرم سابق ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ کی ہے جو سات پوائنٹس پر مشتمل ہے جسے انہوں نے ایک انگریزی اخبار میں تین اگست2015ء کو لشکر طیبہ اور پاکستان کے نان سٹیٹ ایکٹرز کے خلاف پیش کیا۔اگر آپ ممبئی کرائمز برانچ کی فرد جرم دیکھیں تو اس میں ممبئی حملہ آوروں پر الزام ہے کہ انہوں نے منگلا Reservoir میں تربیت حاصل کی تھی جبکہ طارق صاحب کے مطا بق ان دہشت گردوںنے ٹھٹھہ کے قریب سمندر میں تربیت حاصل کی ؟۔
1:۔ جج مدن تہلیانی نے 1522 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلہ میں اجمل قصاب کی شیوا جی ٹر مینس پر26/11 کی تصویر بنانے والے ممبئی مرر کے فوٹو گرافر ایس ڈی سوزاکی بے انتہا تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اُس کی بنائی ہوئی اس تصویر کی مدد سے بھارت کو مجرم تک پہنچنے میں آسانی ہوئی۔۔ ممبئی مرر کے اس فوٹو گرافر کی اجمل قصاب کی لی گئی تصویر ہی اگر استغاثہ کی جان ہے تو سب سے پہلے موقعہ واردات کی اس مبینہ تصویر کے اصلی یا نقلی ہونے کی بات کر لی جائے کیونکہ اجمل قصاب کی یہی وہ تصویر ہے جو26/11 کی رات اور اگلے دن دنیا بھر کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر چھائی رہی ۔
A) ( ۔شیوا جی سٹیشن پر تعینات فوڈ سٹاف مینجر ششی کمار سنگھ نے اپنی گواہی کے دوران پولیس کو چشم دید بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلح حملہ آور جب شیوا جی اسٹیشن پہنچے تو وہ زور زور سے چلا رہے تھے لیکن ان کی کوئی بات سمجھ میں اس لیے نہیں آ رہی تھی کہ انہوں نے اپنے چہروں پر سیاہ رنگ کے نقاب چڑھائے ہوئے تھے ۔۔۔(B)۔ ٹائمز آف انڈیا پونا نے اپنی 29 نومبر کی اشاعت میں صفحہ5 پر اجمل قصاب کی ایک تصویر شائع کی تھی جو بالکل سامنے، 30سے 40 فٹ سے لی گئی تھی۔ اس تصویر کو پورے بھارت کے اخبارات نےkill کر دیا۔ بھارتی میڈیا کے کسی ایک اخبار نے آج تک اس تصویر کی ملکیت کا دعویٰ نہیں کیا۔۔۔شائد اس لیے کہ اس تصویر کو دیکھنے کے بعد لوگ سوچنے لگے تھے کہ دہشت گردوں نے اتنے قریب سے تصویر اتارنے والے کو زندہ کیسے جانے دیا؟۔ اب اگر ایک لمحے کے لیئے ممبئی مرر کے ڈی سوزا کی تصویر بارے استغاثہ کی کہانی کو سچ مان لیا جائے تو اس سوال کا جواب کون دے گا کہ مراٹھی اخبار مہاراشٹر ٹائمز نے ممبئی حملہ کی اگلی صبح27نومبر کے اخبار میں لکھا تھا کہ یہ تصویر ہمارے فوٹو گرافر سری رام ورنیکا نے اتاری ہے لیکن یہی تصویر 27 نومبر کو ہی، مہاراشٹر ٹائمز کے زبردست حریف مراٹھی اخبار لکمت ممبئی میں کیسے شائع ہو گئی؟۔ ((C عدالت اور ممبئی کرائمز برانچ نے ڈی سوزا کی کھینچی ہوئی تصویر کو ہی مکمل گواہی مانتے ہوئے اجمل قصاب کو سزا موت دی، لیکن جج مدن تہلیانی کی عدالت یا بھارتی حکومت دنیا بھر کی رائے عامہ کو کیسے مطمئن کرے گی ؟۔ ''Tujha ithe kay ahey? -2 یہ الفاظ جن کا مطلب ہے''تم یہاں کام کرتے ہو؟ نہیں میں یہاں اپنی بیمار بیوی کے لئے آیا ہوں ‘‘ ۔۔ ٹھیٹھ مراٹھی زبان میں کی گئی وہ گفتگو ہے جو دو حملہ آوروں اور CAMA HOSPITALکے جنریٹر آپریٹر چندر کانت تیکھے کے درمیان ہوئی ۔ چندر کانت نے یہ بیان پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں کو دیتے ہوئے کہا کہ دو حملہ آوروں نے مجھ سے مراٹھی زبان میںیہ سوالات کئے۔ چندر کانت کے اس بیان کی تصدیق ممبئی حملہ کی بریفنگ کے لئے مقرر حکومتی ترجمان بھارت کی سول سروس کے سینئر افسر بھوشن گجراتی نے 28/11 کو ملکی اور غیر ملکی میڈیا کے سامنے بھی کی تھی اور اس گفتگو کا ریکارڈ دنیا بھر کے میڈیا کے پاس موجود ہے ۔ کرائمز برانچ کی جانب سے عدالت میں پیش کی گئی فرد جرم کے مطا بقCAMA HOSPITAL میں موجود انہی دو حملہ آوروں اجمل قصاب او ر ابو اسماعیل نے ہی ایڈیشنل کمشنر پولیس اشوک کامتے اور انسداد دہشت گردی فورس کے چیف ہیمنت کر کرے کو قتل کیا تھا۔۔۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اجمل قصاب کو مراٹھی زبان پر عبور کیسے تھا؟۔ ممبئی کرائمز برانچ کی طرف سے اجمل قصاب کے اعترافی بیان پر مبنی استغاثہ میں،جسے مشہور امریکی ہفت روزہ ٹائم نے اپنے10 مارچ 2009ء کے شمارے میں''ON THE TRAIL OF TERROR''
کے عنوان سے شائع کیا تھا، اجمل قصاب کے مراٹھی زبان سیکھنے یا سکھانے کا ذکر تک نہیں ہے؟۔پھر اس سوال کا جواب کون دے گا کہ ہیمنت کرکرے اور اشوک کامتے کے علا وہ شیواجی اسٹیشن پر56 افراد کے قاتل مراٹھی زبان پر عبور رکھنے والے یہ دو مبینہ حملہ آور کون تھے؟ 3۔26/11کے بمبئی حملے سے8دن پہلے 18/11کو امریکی سی آئی اے نے بھارتی حکومت اور ''را‘‘کو خبردار کیا تھا کہ ایک نامعلوم کشتی میں سوار کچھ لوگ بھارتی سمندری حدود میں دیکھے جارہے ہیں۔ امریکی سی آئی اے کی طرف سے یہ اطلاع ملتے ہی بھارتی را نے فوری طور پراگلے ہی دن19/11 کو بھارت کی انٹیلی جنس بیورو کو اس کی اطلاع کر دی اور آئی بی کے جائنٹ ڈائریکٹر پربھاکر الوک نے بھارتی سمندری حدود میں موجود اس کشتی کی تمام تفصیلات 20نومبر کو پرنسپل ڈائریکٹر نیول انٹیلی جنس کے ذریعے بھارتی بحریہ اور کوسٹ گارڈ کو بھجوا دیں لیکن حیران کن طور پر بمبئی پولیس اور مہاراشٹر کی صوبائی حکومت کو اس سے مکمل بے خبر رکھا گیا۔پرنسپل ڈائریکٹر نیول انٹیلی جنس نے بمبئی کی سمندری حدود کی نگران بھارتی بحریہ کی ویسٹرن کمانڈ کو بھی یہ اہم ترین اطلاع نہ دی اور اجمل قصاب کے مقدمہ میں ایک اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ امریکی سی آئی اے کی اس اہم ترین اور انتہائی خطرناک رپورٹ کو بھارتی بحریہ کے علاوہ ممبئی پولیس اور مہاراشٹر حکومت سے کیوں چھپایا گیا؟۔کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں تھی کہ اس طرح مشکوک کشتی کی یہ خفیہ اطلاع ممبئی دہشت گردی فورس کے چیف ہیمنت کرکرے تک بھی پہنچ جاتی ۔
4۔ بھارت کے انٹیلی جنس بیورو کی طرف سے بمبئی کی طرف بڑھتی ہوئی نا معلوم افراد کی اس مشکوک کشتی کی اطلاع ملنے پر21نومبر کو بھارتی کوسٹ گارڈزنے دور دور تک سمندری حدود کی چھان بین کی لیکن انہیں امریکی سی آئی اے کی بتائی گئی مشکوک کشتی کی کہیں بھی جھلک تک نظر نہ آئی ۔ بھارتی کوسٹ گارڈز نے جائنٹ ڈائریکٹر آئی بی پربھاکر الوک کو لکھا کہ ہمیں کوئی کشتی نظر نہیں آئی اس سلسلے میں ہمیں مزید معلومات مہیا کی جائیں تاکہ ہم اس تک پہنچ سکیں لیکن آئی بی نے اس خط کو گول کر دیا۔
5۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ21نومبر کو را نے کیبنٹ سیکرٹریٹ کی وساطت سے بھارتی آئی بی کو ایک انتہائی خفیہ نوٹ بھیجا جس میں35مشکوک موبائل سم کارڈز کی ایک فہرست منسلک کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان موبائل نمبرز کو مسلسل مانیٹر کیا جائے لیکن بھارت کی انٹیلی جنس بیورو نے را اور کیبنٹ سیکرٹریٹ کی اس انتہائی خفیہ رپورٹ کو مکمل نظر انداز کر دیا ۔۔جبکہ آئی بی عام مخبروں کی اطلاع پر بھی ہزاروں موبائل اور فون مانیٹر کرنے میں بدنام ہے 6۔ آئی بی جو ممبئی میں ہونے والے معمولی واقعات کی بھی رپورٹنگ کرتی ہے اسے 26/11 تک یہ کیوں معلوم نہ ہو سکا کہ ممبئی پولیس کی طرف سے پچھلے چالیس دنوں سے ممبئی ساحل کے ساتھ ساتھ پٹرولنگ کرنے والی پولیس کو واپس بلا لیاگیا ہے۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ آئی بی کو علم تھا تو پھر ایک اور اہم ترین سوال ہے کہ امریکی سی آئی اے کی اس اطلاع کے بعد مزید نفری کے ساتھ چوبیس گھنٹے الرٹ ساحلی پٹرولنگ دوبارہ شروع کرنے کا حکم کیوں نہیں دیا گیا؟ ۔۔۔ کیا چیف جسٹس بھارت معلوم کریں گے کہ مشکوک کشتی کی نگرانی کرنے کے لئے ممبئی کی ساحلی نگرانی کرنے والی موبائل پولیس فورس withdraw کرنے کا حکم کس نے کب اور کیوں دیا؟۔ (جاری)
7:۔ممبئی کے شیوا جی ریلوے سٹیشن پر کل38 کیمرے نصب ہیں جن سے اسٹیشن کے ہر حصے کے تمام مناظر اور اس کے تمام داخلی دروازوں کی مکمل منظر کشی ہوتی ہے، اب سوال یہ ہے کہ وہاں نصب کیمروں نے اجمل امیر قصاب اور اسماعیل خان کی شیوا جی ٹرمینس میں موجودگی کی فلم کیوں نہیں بنائی؟۔ وہاں نصب 16CCٹی وی کیمروں کی فلمیںکہاں ہیں؟۔ پچیس نومبر تک درست کام کرنے والے ان سولہ کیمروں نے 26/11کے دن ہی کام کرنا کیوں چھوڑا؟۔ حملہ آور تو رات9 بجے کے بعد وہاں پہنچے سارا دن یہ کیمرے کیا کرتے رہے؟۔ کیونکہ یہی وہ سولہ کیمرے تھے جن کی حدود میں52 افراد کو قتل کیا گیا ان سولہ کیمروں کی مدد سے ہی حملہ آوروں کی شناخت اور فائرنگ کی نشاندہی ہونی تھی۔