دنیا بھر میں جب مائوں کا دن منایا جا تا ہے تو اپنی ماں کی تصویر کی جانب دیکھتے ہوئے سوال کرتا ہوںکہ ماں کی محبت ایک دن پر محیط ہوسکتی ہے؟۔ یہ سن کر ماں ہمیشہ کی طرح مسکراکر کہتی ہے : خدا کا روپ ‘تپتی دھوپ میں ٹھنڈی چھائوں ‘بے غرض پیار کے بحر بے کنار کا نام ہی تو ماں ہے ۔اُس کی گود میں نرم ولطیف حرارت اور مد ہوشی کی برسات ہو تی ہے ۔ماں جس کے دل کے بارے میں نہ تو کوئی بتا سکتا ہے اور نہ ہی جان سکتا ہے اور نہ ہی کوئی سمجھ سکتا ہے اور سچ یہ ہے کہ ماں خود بھی جاننا چاہے تو نہیں جان سکتی۔ ماں کا دل اﷲ نے نہ جانے کس خاص انداز سے کچھ اس طرح بنایا ہے اوراس کی وسعتیں اتنی بیکراں کر دی ہیں کہ اس میں دونوں جہاں کی محبتیں سمٹ جاتی ہیں۔ ماں کی محبت ایسی ہے جس میں کوئی غرض پوشیدہ نہیں ہوتی۔ شائد اسی لئے اﷲ رب العزت نے حُکم دیا ہے کہ اپنے والدین کے لیے اس طرح دُعا کیا کرو (ترجمہ) ''یارب ! میرے والدین پر رحمت فرما‘ جیسا اُنہوں نے مُجھے بچپن میں پالا‘ پرورش کی۔ بنی اسرائیل :24:17 ۔ماں کے رتبے کی بلندی دیکھئے‘ اﷲ اپنے بندوں سے اپنی محبت کو ماں کی محبت کے مثل قرار دیتے ہیں۔ انسان ،چرند اور پرند کوئی بھی اور کسی بھی مخلوق کوماں کو بچے کی پیدائش کی پہلی گھڑی سے دیکھ بھال کرتے ہو ئے دیکھیں تو انسان کی بے بسی اور لاچاری کا احساس ہوتا ہے۔
مائوںکا تعلق اﷲ کی ان صفات سے ہے جو بڑا ہی پیار کرنے والا،محبتیں لٹانے والا ہے اس احساس سے گندھی شفیق اور مہربان مائیں جو اپنے اندر چاہتوں کا سمندر لئے رہتی ہیں جب بچھڑ تی ہیں تو گھروں سے باہر رہنے اور دیر سے گھر آنے پر رتوں کے بدلنے سے موسموں کے آنے جانے سے دنوں کے الٹ پھیر سے زمانے کے تغیر تبدل سے بہت کچھ بدل جاتا ہو گا مگر ماں کی جدائی کا گھائو نہ تو بھرتا ہے اور نہ ہی حالات و واقعات کی کروٹیں ماں کی جدائی کے صدمے سے توجہ ہٹا سکتی ہیں۔یہ دنیا بڑی خوبصورت اور بڑی دلفریب ہے زاہد و عابد بھی اس کی رعنائیوں میں کھو جاتے ہیں مگر یہ سب کچھ ماںکا نعم البدل نہیں بن سکتا۔ایک پیدائشی اندھا جو دنیا کی کسی شے کو نہیں دیکھ سکتا جس سے دنیا کی تمام رنگینیاں سارا حسن و جمال ساری دلکشی چھن چکی ہوتی ہے وہ صرف اپنی ماں کے وجود سے ہی اس دنیا کی رعنائی اور حسن وجمال کا احساس قائم رکھتا ہے ۔ماں جو کبھی بھی اپنی شفقتوں کا صلہ نہیں مانگتی جس گھر میںماں ہو تی ہے اس کا ہر گوشہ مدھ بھری خوشبوئوں سے مہکتا رہتا ہے۔ ماں سارے دکھوںکو سینے سے لگاکر اولاد کو زندگی کی ہر دھوپ اور لو سے محفوظ رکھتی ہے ۔
ماں کوئی بھی ہو اولاد کیلئے نعمت عظیم ہے ۔فرمان رسول اﷲﷺ ہے کہ اگر میں اپنے والدین یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو پا لیتا اور میں نماز میں سورۃ الفاتحہ پڑھ چکا ہوتا تو اس حالت میں اگر میری ماں مجھے آواز دیتیں تو میں نماز چھوڑ کر انہیں فوراً جواب دیتا کہ اماں جی میں حاضر ہوں۔کتنی عظیم ہے ماں اور کتنی عظیم ترین ہوتی ہے ماں کی ممتا۔ خود خدا نے صفا اور مروہ کو ماں کی محبت اور ایثار کی علامت کے طور پر حج ایسی عبادت کاضروری رُکن بنا دیا ورنہ ان دو چھوٹی سی ویران پہاڑیوںمیں کیا تھا؟ سوائے اس کے کہ وہاں ایک متفکر اور پریشان مامتا اپنے معصوم اور پیاس سے تڑپتے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے پانی کے چند قطروں کی تلاش کی خاطر سنگلاخ چوٹیوں اور شدید گرمی میں ادھر ادھر آگے پیچھے بھاگتی رہی ۔اس کے وہ سات چکر جو اس نے اپنی مامتا کی پیاس بجھانے کیلئے اس بے آب و گیاہ صحرا میں لگائے اﷲ تعالیٰ کو اتنے پسند آئے کہ ان سات چکروں کو قیامت تک حج کا لازمی جُز بنا دیا ۔ صرف اس لئے کہ ماں کی محبت رب کا ہی روپ ہے ‘اسی لیے کہتے ہیں کہ'' وہ قوت جو سارے فیضان کا سر چشمہ ہے کبھی وہ ماں ہے کبھی خدا ‘‘۔میں نے اپنے رب سے پوچھا کہ ماں کیا ہے؟ تو سورہ لقمان میں جواب آیا '' جس نے اپنی اولاد کو اپنے پیٹ میں رکھا اور کمزوری پر کمزوری جھیلی اور دو برس تک اپنا دودھ پلایا اور چھڑایا اس پر میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو‘‘۔ ماں کائنات کا ایک راز ہے اسے بیان کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا خوشبو کو مٹھی میں بند کرنا یا کسی کو ہوا کا رنگ دکھانا۔ ماں انتقال کی گھڑی تک بیماری اور پیرانہ سالی کے با وجود اولاد کو پوری طاقت
سے اپنی گود میں لے کر بھینچتی ہے ۔ جب اولاد اپنا سر اپنی ماںکی مہربان آغوش میں ڈھیر کر دیتی ہے تووقت گزرنے کا احساس نہ تو ماں کو ہوتا ہے اور نہ ہی اولاد کو ۔ جب نظر اٹھا کردونوں ایک دوسرے کی جانب حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں تو ماں اور بیٹے دونوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوتے ہیں‘ دونوں جان جاتے ہیں کہ یہ آنسوہمیشہ ہمیشہ کی جدائی کے غم کے آنسو ہیں۔ اسی طرح جب میری ماں نے مجھے جوش محبت سے اپنے ساتھ بھینچا تو اس وقت اپنی ماں کے ساتھ میں بھی جان گیا کہ اب ہمارے بچھڑنے کی گھڑیاں قریب ہیں۔ دو دن بعد دائمی جدائی سے چند گھنٹے پہلے حمید لطیف ہسپتال کی پارکنگ میں وہیل چیئر پر بیٹھی اپنی ماں کے پائوں میں بیٹھ کر ان کے ہاتھوں کو چومتے ہوئے مجھے لگا کہ میری دنیا اب مجھ سے دور کہیں بہت دور جا رہی ہے اور میری زبان پرقرآن کی یہ آیت آ گئی '' اے اطمینان والی روح تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی اور میرے خاص بندوں میں داخل ہو اور میری جنت میں چلی جا‘‘۔ چند گھنٹوں بعد ماںکی پاکیزہ روح زندان بدن سے آزاد ہو کر اس عظمت والے کرسی نشین کی بارگاہ میں پہنچ گئی جس کی کرسی کی شان اور پاکیزگی کی وہ عمر بھر رات گئے تک (آیت الکرسی کی) تلاوت کرتی رہتی تھیں اور جس کرسی والے سے وہ اپنی زندگی میں اکثر ہم کلام ہوا کرتیں ۔ماں کے آخری دیدار کیلئے چہرے سے کفن
کی چادر سرکائی تو چہرے کے گرد تقدس کا ہالہ دیکھ کر میری آنکھوں کے خشک ہوئے آنسو ایک بار پھر بہہ نکلے اور اپنی ماں کا پائوں چومنے ان کی پائنتی بیٹھ گیا لیکن پھر سوچ کر رک گیا کہ''کیوں میرے لب سے ہوں جنت کے نشاں آلودہ‘‘۔ اپنی ماں کے کمزور اور شفیق ہاتھ کا لمس ابھی تک یاد ہے ۔گرم پیشانی پر آخری بوسہ یاد ہے اور اب ایک خلا ہے جو پر نہیں ہوتا ایک یاد ہے جو محو نہیں ہوتی۔ میں سچ کہتا ہوں کہ کوئی جنت ماں کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی اپنے بچپن اور لڑکپن میں دیکھا کرتا کہ جب ماں قبلہ رخ بیٹھ کر انہماک سے قرآن پاک پڑھتیںتو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے محنت و مشقت کے تھکے ہوئے اعصاب کو سکون مل گیا ہے ۔تلاوت قران پاک ہلکی اونچی آواز میں شروع کرکے آہستہ آہستہ اتنی دھیمی آواز پر آ جاتیں جیسے وہ قران پاک کی برکات میں داخل ہو کر کہیں دور نکل گئی ہیں لیکن یہ سب کچھ اب مجھ سے چھن چکا ہے ۔ماں! تیری برسی گزر گئی اور نہ جانے کتنی برسیاں گزریں گی لیکن تمہارے جھریوں بھرے کمزور اور مشفق ہاتھوں کا لمس مجھے رہ رہ کر یاد آتار ہے گا: اے ماں !جب میں آنسو لیے تیری لحد پر آتا ہوں تو تجھے میری موجودگی کا احساس تو ہوتا ہوگا۔
اب یہی سو چتا رہتا ہوںکہ شب کی تنہائیوں میں کون آیت الکرسی والے رب سے رو رو کر میرے لیے دعائیں مانگے گا ۔ماں تم بتایا کرتی تھیں اﷲ نے تو اپنے پیغمبر موسیٰ کو ان کی ماں کی وفات کے بعد وارننگ دے دی تھی کہ اب اس دنیا میں تمہارا دعا گو کوئی نہیںرہا۔ماں میں تو گناہ گار انسان ہوں جو اپنی غلطیوں میں گھرا ہوا ہوں۔ماںاپنے رب سے میرے لیے پناہ مانگ لے !!