علامہ اقبالؒ نے افغانستان کے بارے میں کہا تھا:
آسیا یک پیکرِ آب و گِل است
ملتِ افغان در آن پیکر دِل است
از فساد اُو فساد آسیا
در کُشاد اُو کُشاد آسیا
(ایشیا آب و گل کا پیکر ہے اور اس پیکر میں ملت افغان کی حیثیت دل کی ہے۔ اس کے فساد سے پورا ایشیا فساد و اضطراب میں مبتلا ہو جائے گا اور اس کے امن وامان اور سکون سے پورے ایشیا کو امن و سکون ملے گا۔)
اب یہ افغان حکومت، طالبان، چین اور امریکہ پر منحصر ہے کہ وہ افغانستان کو بھارتی خواہش کے مطابق داعش کا محفوظ ٹھکانہ بناتے ہوئے اسے جنگ وجدل کا اکھاڑا بنائے رکھنا چاہتے ہیں یا صدر اشرف غنی اور جنرل راحیل شریف کی خواہش کے مطابق مستقبل میں افغانستان کو دنیا کے نقشے پر ایک پر امن اور ترقی یافتہ ملک کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے اپنے گیارہ سالہ دور میں بھرپورکوشش کی کہ پاکستان اور چین کے علاوہ دوسرے ہمسایہ ممالک کو افغانستان میں بٹھائے ہوئے اپنے دوستوں کی شکار گاہ بنادیا جائے اوراس طرح افغانستان بہت سے ممالک کے مفادات کا اکھاڑا بن کر رہ جائے۔ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب بھی رہا۔ حامد کرزئی نے خاص طور پر بھارت کو پاکستان کے اندر دہشت گردی کا طوفان برپا کرنے کے جو مواقع فراہم کیے ان سے پاکستان کو لگنے والے زخموں کی شدت کم ہونے میں نہیں آ رہی۔ اس وقت افغان صدر
اشرف غنی کو روس اور بھارت کے حامی افسروں کا اس طرح سامنا ہے جیسے سردار دائود کو تھا۔ ان کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ تاریخ پر نظر رکھیں۔ دائود حکومت میں خلق کے ایڈیٹر میر اکبر خیبر کو پر اسرار طریقے سے قتل کروانے کے بعد روسی اور بھارتی ایجنٹ میدان میں نکل آئے تھے۔ اب بھی ہو سکتا ہے کہ چار فریقی مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے افغان سر زمین پر ملا عمر کی وفات جیسا کوئی نیا کھیل برپا کر دیا جائے۔
صدر اشرف غنی خطے میں امن کی آخری امید ہیں۔ یہ امید کسی صورت میں ٹوٹنی نہیں چاہیے۔ اگرچہ انہیں اپنے انتخاب سے اب تک افغانستان میں بھارت کے گہرے روابط کی وجہ سے بہت سی رکاوٹوں اور سازشوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، لیکن وہ اپنے مشن پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اگر انہیں حامدکرزئی کے دور حکومت کا نصف عرصہ بھی کسی قدر سکون سے کام کرنے کا موقع مل گیا تو وہ افغانستان کی ترقی اور خوشحالی کی ایسی بنیاد رکھ جائیں گے کہ اس کی آنے والی نسلیں سکون اور چین سے زندگی بسر کر سکیں گی۔ اس کے لیے ایک ہی شرط ہے کہ وہ ''بھارتی تسلط اور خوف‘‘ کے سحر سے نکل آئیں۔ وگرنہ افغانستان جو پہلے ہی آگ اور بارود کا ڈھیر بن چکا ہے، ایک بار پھر دنیا میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کا مرکز بن جائے گا۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ ایک ہی وقت میں وقوع پذیر ہونے والے دو واقعات نئے افغانستان کی بنیاد رکھنے میں معاون ثابت ہوںگے۔ پہلا 2014 ء میں ہونے والے پر امن اور شفاف انتخابات اور دوسرا امریکہ کی جانب سے عوامی جمہوریہ چین کو افغانستان میں ایک دوست اور امن کے معمار کی حیثیت سے قدم رکھنے کے لیے قبول کرنا۔ 29 دسمبر 2014ء کو افغانستان اور پاکستان کے مابین ہونے والی مفاہمت کے نتیجے میں افغانستان کے لیے چینی حکومت کا کردار تسلیم ہونے سے طالبان، افغان حکومت ، امریکہ اور چین کے مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ اس سے بھارت کے تمام منصوبے خاک میں ملتے نظر آ رہے ہیں۔ سہ فریقی اتحاد کو ناکام بنانے کے لیے بھارت نے حامدکرزئی اور سکیورٹی ایجنسیوں میں اپنے وفاداروں کے ذریعے سازشیں کرنا شروع کر دی ہیں۔ شاید کرزئی کو یہ خوف لاحق ہو رہا ہے کہ اگر اشرف غنی مضبوط ہوگئے تو مستقبل میں اربوں ڈالر کی کرپشن سامنے لا کر اس پر ہاتھ ڈالا جا سکے گا۔ کسی حد تک اس کی ابتدا بھی ہو چکی ہے کیونکہ کئی صوبوں میں اس کے حامی بدعنوان عناصر کی سرکوبی جاری ہے۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا دورہ امریکہ و برطانیہ اور اس کے بعد 27 دسمبر کو افغانستان میں صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو عبد اﷲ عبد اﷲ اور افغانستان میں تعینات امریکی افواج کے سربراہ سے ان کی ملاقاتیں کامیاب اور مفید ثابت ہو رہی ہیں۔ آنے والے وقت میں اس کی افادیت آہستہ آہستہ نظر آتی جائے گی۔ لیکن ایک بڑی کامیابی جو ابھی سے نظر آنے لگی ہے وہ امریکہ اور چین جیسی بڑی طاقتوں کی جانب سے پاکستان کو افغانستان کی ترقی و استحکام کے حوالے سے محور تسلیم کرنا ہے۔کئی برسوں کے بعد امریکہ کی جانب سے اس سچائی اور زمینی حقیقت کو تسلیم کرنا سب کو حیرت زدہ کر رہا ہے۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں اسلام آباد اور کابل کی اہم ترین شخصیات کی شرکت کراس بارڈر دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے کس قدر مفید رہتی ہے، اس کا صحیح معنوں میں اظہار تب ہوگا جب افغانستان کی فوج ملا فضل اﷲ کو مشترکہ دشمن قرار دیتے ہوئے اس کی سر کوبی میں مخلص اور سنجیدہ دکھائی دے گی۔
افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبد اﷲ عبد اﷲ اور افغانستان کے سکیورٹی اور خفیہ اداروں کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ ان کا رجحان ہمیشہ بھارت کی جانب زیادہ رہا ہے۔ افغان فوج کے کچھ افسر بھی بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھانا شعار بنائے ہوئے ہیں۔ لیکن وہ ایسا کرتے ہوئے کیوں بھول جاتے ہیں کہ اگر اس وقت انہوں نے جنرل راحیل شریف اور صدر اشرف غنی کا ساتھ نہ دیا اورامن کے لیے ان کے منتخب کردہ راستے میں روڑے اٹکانے کی کوششیں جاری رکھیں تو ان کا سب سے زیادہ نقصان خود انہی کو ہوگا۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت کا ساتھ دینے اور اس کی تخریبی کارروائیوں کی مدد کرنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ افغانستان میں داعش اور طالبان کا اثر و رسوخ بڑھے گا۔ شمالی اتحاد کے نام پر سیا ست کرنے والے عبد اﷲ عبد اﷲ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ داعش سے سب سے زیادہ خطرہ کس کو ہو سکتا ہے؟ اس خطرے کے باوجود اگرعبد اﷲ عبد اﷲ بھارت کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے افغانستان کے مفادات کو کانٹوں پرگھسیٹنے کی کوشش کریں گے تو پھر ان کے ووٹرز اور حمایتی جان لیں کہ ملا فضل اﷲ داعش کا دوسرا نام بن کر ابھرے گا۔ آج جس بربریت کا مظاہرہ وہ پاکستان کے خلاف کر رہا ہے، کل یہی کچھ وہ افغان عوام کے خلاف کرے گا۔
افغانستان کے تمام گروہ سنجیدگی اور دور اندیشی سے سوچیں تو انہیں یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ اشرف غنی، طالبان، چین اور امریکہ کی سربراہی میں ہونے والے مذاکرات ہی افغانستان میں بسنے والی تمام اقوام اور قبیلوں کی نجات کا باعث بن سکتے ہیں۔ بصورت دیگر داعش کے لیے راہ ہموار کرنے والے عناصر عراق کے بعد افغانستان کو اپنی جولانگاہ بنانے کا تہیہ کر چکے ہیں۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم نے کھلے لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ داعش اسرائیل کی پیرا ملٹری فورس ہے۔ عرب ممالک نہ جانے کیوں خاموش ہیں اور وہ برملا کیوں نہیں کہتے کہ اسرائیل اور بھارت داعش کے افغانستان میں قدم جمانے کے لیے ان کے راستے کی رکاوٹیں صاف کر رہے ہیں۔