ذرا اپنے تصور میں کالا باغ ڈیم کی گزشتہ 35 برسوں سے گھومنے والی اس تصویر کو لانے کی کوشش کریں اور دیکھیں کہ پانی اور بجلی کے اس شاندار منصوبے کی بڑھ چڑھ کر کس کس نے مخالفت کی؟ کس کس نے پاکستان کیلئے اس اہم ترین پانی اور بجلی کے پروجیکٹ کو ایک خوفناک جن کی صورت میں سامنے لانا شروع کر دیا کہ جیسے یہ ڈیم ان سب کو ایک ہی لقمے میں نگل جائے گا۔ ذرا سوچئے کہ خیبر پختونخوا اور سندھ کے کم پڑھے لکھے لوگوں اور دیہات قصبوںکے رہائشیوں کو کس کس نے جھوٹی اور خیالی باتوں سے ڈرا کر کالا باغ ڈیم پر اپنی سیاست چمکائی اور ہمارے دشمن ملک کے ہمارے بارے سوچے گئے منصوبوں کو مکمل کرنے میں مدد کی ۔ذرا سوچئے کہ وہ کون سا ملک ہے جو نہیں چاہتا کہ پاکستان کی فصلوں کو بے تحاشا پانی ملے، جو چاہتا ہے کہ پاکستان کی بنجر اور جنوبی پنجاب میں چولستان جیسی زمینوں کو سر سبز و شاداب ہونے سے روکا جائے، جو نہیں چاہتا کہ خیبر پختونخوا آئے روز کے سیلابوں کی قیامت سے محفوظ ہو جائے؟۔ جو نہیں چاہتا کہ سندھ کا عام مزدور اور ہاری کچے کی بجائے سر سبز شاداب وادیوں میں زندگی گزارے‘ جو نہیں چاہتا کہ دریائے سندھ سارا سال اپنی پوری آب وتاب سے سندھ کی زمینوں کو سیراب کرتا رہے‘ سوچئے کہ وہ کون ہے جو پاکستان کی صنعتی معیشت اور زراعت کا گلا گھونٹنا چاہتا ہے اور ذرا سوچئے کہ وہ کون سے لوگ ہیں جنہیں بھارت کا ایک مرحوم وزیر اعظم اپنے ہاتھوں سے پشاور پہنچ کر نوٹوں کے تھیلے حوالے کرتا ہے؟۔ ذرا سوچئے کہ کون چاہتا ہے کہ پاکستان ہمیشہ اندھیروں میں ڈوبا رہے؟ کون ہے جس کی ایک ہی خواہش ہے کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے پاکستان کی چھوٹی چھوٹی صنعتیں بھی کام کرنے سے محروم کر دی جائیں؟۔۔۔۔ذرا سوچئے کہ کہیں وہی دشمن ایک بار پھر ایک نئے نام سے‘ ایک نئی سیا ست سے‘ نئے ہتھیاروں سے کالا باغ ڈیم کی طرح اب چین اور پاکستان کی اکنامک راہداری پر حملہ آور ہونے کی کوشش تو نہیں کر رہا؟۔ ہمیںاپنے آپ کو پہچاننا ہو گا، اپنے دشمن کو پہچاننا ہو گا، چاہے وہ جس روپ میں بھی آئے، جس آواز میں بھی چلائے۔ہمیں اٹھنا ہو گا، جاگنا ہو گا ،پورے حواس کے ساتھ، پورے اتحاد کے ساتھ کیونکہ ہمارا دشمن جو ہم سے دور نہیں ہمارے سامنے ہے۔ وہ چین پاکستان راہداری اور گوادر کے منصوبے کو آگے بڑھنے کیلئے روکنا چاہتا ہے اس کیلئے اس نے اربوں ڈالر مختص کر دیئے ہیں جو وہ دہشت گردی کیلئے استعمال کر رہا ہے، جن سے وہ اپنے ساتھیوں کو اس راہداری کے راستوں میں عجیب عجیب شکلوں میں کھڑا کر رہا ہے ۔۔۔کسی ایک کو آگے بڑھ کر پنجاب اور مرکز کے حکمرانوں کو بھی بتانا ہو گا کہ حضور اس بیج کی آبیاری نہ کریں جس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ چین کا سب کچھ پنجاب کیلئے ہے اور عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کو بھی وزیر اعظم نواز شریف اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو کھل کر بتانا ہو گا کہ اس منصوبے کا75 فیصد صرف پنجاب کیلئے ہی نہیں ہے بلکہ یہ اکنامک راہداری پورے پاکستان کے لوگوں کیلئے ہے کیونکہ چین کے ہر ادارے کے سربراہ کی تصویر اور افتتاحی منصوبوں میں جب ان کے ساتھ صرف ایک ہی صوبے کے وزیراعلیٰ کھڑے دکھائی دیں گے تو پاکستان کے باقی لوگ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
پاکستان کی تمام سیا سی جماعتوں کو پاکستان کے روشن اور شاندار مستقبل کی بنیاد بننے والےCPEC پر سیاست برائے سیاست سے دور رہنا ہو گا۔حکمرانوں کو پنجاب کے ووٹوں کو اپنی جانب راغب کرنے اور اپنی انتخابی سیاست کیلئے اپنی تصویروں کے ساتھ تشہیری مہم سے گریز کرنا ہو گا کیونکہ اس سے دوسرے صوبوں میں یہی تاثر ابھررہا ہے کہ یہ سب پنجاب کیلئے ہے جسے وہ اپنی ذاتی مشہوری کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ اقتصادی راہداری قدرت کی جانب سے 68 سال بعد ہمارےALL WEATHER دوست عوامی جمہوریہ چین کا پاکستان کیلئے وہ بیش قیمت تحفہ ہے جو پاکستان کے شاندار مستقبل کی ضمانت بنے گا ۔یہ وہ منصوبہ ہے جو ہمیں ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں شامل کردے گا۔
پاک چین اکنامک راہداری کے اس بے مثال منصوبے سے پاکستان میں توانائی کے وسائل کی بھر مار ہو گی جس سے ملکی صنعتی ترقی کا پہیہ تیزی کے ساتھ گھومے گا‘برآمدات بھی بڑھیں گی اور ساتھ ہی پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت بھی اوپر کی جانب اٹھے گی ۔ اس وقت دنیا کے نقشے پر نظر دوڑائیں تو ہمیں بہت سے ایسے ممالک دکھائی دیتے ہیں جن میں سے اگر کچھ چین کی ترقی یا اس کی بڑھتی ہوئی قربتوں اور تجارت کے نت نئے رستوں کے خلاف ہیں تو اس کے ساتھ ہمیں وہ ممالک بھی نظر آتے ہیں جو پاکستان کے وجود کو ہی قبول اور برداشت کرنے کو تیار نہیں ہو رہے اور ایسے ممالک جن کی پاکستان کے ساتھ نفرت اور دشمنی کا معیار اور حد اس طرح کی ہو، وہ اس قسم کے راہداری کے منصوبوںکو کیسے قبول کر سکتے ہیں جو ان کی نظروں میں کانٹوں کی طرح کھٹک رہے ہیں۔ یہ ممالک اپنی جانب سے بھر پور کوششوں میں مصروف ہیں کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ایسی فضا پیدا کر دی جائے جس سے یہ منصوبہ پاکستان کا کالا باغ ڈیم بن کر رہ جائے ۔راہداری کے اس منصوبے کی ایک خاصیت جو بہت سے لوگوں کو برداشت نہیں ہو رہی اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس راہداری سے چین کے جنوب مغربی حصے کا مشرق وسطیٰ، افریقہ اور یورپ تک تجارتی رسائی کا رستہ بہت ہی کم ہو جائے گا اور یہی سہولت پاکستان کو بھی مل جائے گی۔
پاک چین اکنامک راہداری کے اس منصوبے سے چین کی سلک روڈ اکنامک بیلٹ پراجیکٹ(SREB) کی دیرینہ خواہش بھی پوری ہو جائے گی۔ چین پاکستان اکنامک کوریڈور ایک ملٹی ڈائمینشنل منصوبہ ہے جس سے پاکستان اور چین کا سڑکوں اور ریل کے ذریعہ براہ راست رابطہ ہو جائے گا اورجس سے گوادر پورٹ سمیت توانائی کے بہت سے منصوبوں کیلئے چین کی سرمایہ کاری سے مستفید ہوتے ہوئے ملک کوترقی کی جانب قدم بڑھانے کا ایک سنہرا موقع میسر آ ئے گا۔ساتھ ہی سلک روڈ اکنامک بیلٹ پروجیکٹ تک رسائی ہونے سے تجارت اور دوستی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین کی جانب سے کسی بھی میں ملک کیلئے شائد یہ سب سے بڑی سرمایہ کاری ہو گی جو وہ پاکستان میں کرنے جا رہا ہے۔ چین نے اسے'' ون بیلٹ ،ون روڈ‘‘ کا نام دیا ہوا ہے جس کا مقصد ریل، سڑک، تیل اور گیس پائپ لائن اور سمندری رستوں کے ذریعے چین اور جنوبی اورسنٹرل ایشیا تک رسائی ہو گی اس راہداری کا بنیادی اور مرکزی مقصد ایک ایسی راہداری ہے جس سے ریجنل ٹریڈ روٹس کے ذریعے خطے اور اس کے ارد گرد کے حصوں میں چین کا اثر و رسوخ بڑھ سکے گا۔
چین کی طرف سے 46 بلین ڈالر کی جو سرمایہ جاری کی جا رہی ہے اس کا74 فیصد پاکستان میں توانائی کے وسائل پیدا کرنے کیلئے خرچ کیا جائے گا جس میں سے کول مائننگ کیلئے بیس فیصد مختص ہو گا اور13 فیصد سڑکوں کی تعمیر کے کام آئے گا ۔ابھی حال ہی میں اس منصوبے پر صوبوں اور مرکزی حکومت کے درمیان ابھرنے والے اختلافات کی روشنی میں اسلام آباد میں وزیر اعظم کی زیر صدارت جو آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی تھی اس سے دنیا بھر میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ چاروں صوبوں کو اس منصوبے پر اعتراضات ہیں۔ اچھا ہوا کہ اس سے اختلافات کو کم کرنے میں مدد ملی لیکن یہ سلسلہ رکنا نہیں چاہئے کیونکہ حکومت کے وزراء اور اے پی سی میں وزیر اعظم کی دی جانے والی بریفنگ میں زمین و آسمان کا فرق دیکھنے میں آیا ہے...!!