شوکت خانم کینسر ہسپتال اور ریسرچ لیبارٹری لاہور میں مریضوں کی تعداد جب بہت زیا دہ بڑھنا شروع ہو گئی تو ہسپتال کی انتظامیہ نے حکومت پنجاب سے چند مزید منزلوں کی تعمیر کی اجازت مانگی لیکن میاں برادران کی پنجاب حکومت اور اس کے ماتحت ادارے لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے یہ اجا زت دینے سے انکار کر دیا۔ ہسپتال اور کینسر کے موذی مرض میں مبتلا مریضوں کی بڑھتی ہوئی مشکلات اور کم جگہ کی وجہ سے شوکت خانم ہسپتال کی انتظامیہ نے ذاتی طور پر پنجاب حکومت کے پاس جا کر اپنی اور مریضوں کی مشکلات سے آگاہ کیا لیکن ایل ڈی اے نے اپنی مجبوریاں بتاتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ معاملہ ان کے اختیار میں نہیں بلکہ اس کیلئے میاں برادران کی منظوری لازمی ہے جس کیلئے انہوں نے ہمیں سختی سے ہدایات دی ہیں۔ ہم تو خود چاہتے ہیں کہ کینسر کے مریضوں کو سیا ست سے علیحدہ رکھا جائے لیکن ہم حکمرانوں کے سامنے بے بس ہیں کیونکہ ان کے حکم کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
پشاور میں شوکت ہسپتال کی تعمیر کو شروع ہوئے سب جانتے ہیں کہ کتنا عرصہ گذر چکا ہے۔ گزشتہ سال29 دسمبر کو اس کے ایک چھوٹے سے حصے پر کینسر کے مریضوں کا علاج بھی شروع ہو چکا ہے لیکن پانچ سال کی لگا تار کوششوں کے با وجود ابھی تک مرکزی حکومت کے ماتحت اداروں نے پشاور کے اس کینسر ہسپتال کو بجلی اور گیس کی سہولتیں مہیا نہیں کیں کیونکہ اس طرح شائد وہ سمجھتے ہیں پشاور میں بھی اگر اس ہسپتال نے بھر پور طریقے سے کام شروع کر
دیا تو ان کی سیا ست کو اس سے نقصان پہنچ سکتا ہے حالانکہ وہ یہ نہیں سوچتے کہ شوکت خانم ہسپتال پشاور میں داخل مریض اور ان کے لواحقین کو سردیوں اور گرمیوں میں بجلی اور گیس کے بغیر کس قدر تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کروڑوں روپے سے در آمد کی گئی قیمتی ادویات بجلی کی بھر پور سہولیات میسر نہ ہونے سے موسمی سختیوں کی وجہ سے اپنا اثر بھی کھو سکتی ہیں جس کا نقصان کینسر جیسے موذی مرض کے شکار مریضوں کو اور عوام کے چندوں اور زکوٰۃ سے خریدی جانے والی ادویات کو ہو رہا ہے۔۔۔یہ سچ یا تو کینسر کا مریض یا اس کے لواحقین ہی جان سکتے ہیں کہ کیمولگانے کے بعد مریض کو اگر بھر پور ٹھنڈک نہ ملے تو اس کا کیا حال ہوتا ہے۔ افسوس کہ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا مریضوں کے ساتھ اسی قسم کا سلوک کیا جا رہا ہے جیسے سیا ست میں میاں برادران کی جانب سے عمران خان کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ افغانستان اور خیبر پختونخوا کے کینسر میں مبتلا وہ مریض جن کی سہولت اور علاج کیلئے یہ ہسپتال تیار کیا گیا تھا، اس کے مریض اور لواحقین کیمو لگوانے کیلئے لاہور کے ہسپتال کو ترجیح دے رہے ہیں۔اس طرح ان غریب مریضوں کے اخراجات اور لاہور کے ہسپتال پر بوجھ مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ خود سوچئے کہ مریض کے ساتھ آنے والے ایک دو لواحقین کے آنے جانے کے کرائے اور کھانے پینے اور رہائش کے اخراجات کا یہ اضافی بوجھ وفاقی حکومت کی ہٹ دھرمی نہیں تو کیا ہے؟۔
ریحام خان کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ اس وقت میاں برادران کا کھل کر ساتھ دے رہی ہیں۔ یار لوگوں کا ماتھا تو اسی وقت ٹھنکا تھا جب ریحام کی لندن روانگی سے چند منٹ پہلے عمران خان نے انہیں طلاق دینے کا فیصلہ کر لیا تھا کیونکہ عمران کو معلوم ہو چکا تھا کہ لندن میں جس سیمینار میں شرکت اور سوال و جواب کے لیے ریحام خان کو مدعو کیا گیا ہے اور اس سیمینار میں شرکت کیلئے پاکستان سے بھجوائے جانے والے اینکرز اور صحافیوں کی جو فہرست سامنے آئی اُن کی شہرت سب جانتے تھے۔ اس سیمینار کے جو صاحب
میڈیا کی جانب سے وہاں میزبان تھے ان کے بارے میں کسی کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ وہ کس طرح وہاں پہنچائے گئے۔ اگر عمران خان کی جماعت کو 1997ء کی انتخابی مہم یاد ہے تو سیتا وائٹ کے نام سے عمران خان کے ساتھ کیا کیا نہیں کیا گیا؟۔ جس کے جواب میں عمران خان نے میاں صاحبان کو صرف اتنا ہی کہا تھا کہ اپنے شادی سے پہلے کئے گئے گناہوں کے بارے میں اﷲ اور عوام سب سے معافی مانگ چکا ہوں اور شادی کے بعد اگر میں نے یا دونوں میاں صاحبان نے اپنی اپنی بیویوں سے اگر دھوکہ کیا ہے تو اس کیلئے خانہ کعبہ جا کر ہم تینوں قسم اٹھا لیتے ہیں جو جھوٹی قسم اٹھائے گا اس کا معاملہ اﷲ اور اس کے رسول پر چھوڑ دیتے ہیں، وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ اس سے گھبرا کر کچھ دیر کیلئے الزام تراشی کے اس سلسلے کو روک دیا گیا کیونکہ ملک بھر کے میڈیا نے اس پر زبر دست سٹینڈ لے لیا تھا اور ہر کوئی اس انتظار میں تھا کہ یہ تینوں سیا سی رہنما کب خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ پہنچتے ہیں ۔
عمران خان سے میاں برادران کی دلی نفرت کاا ندازہ اس سے بھی کیجئے کہ سردار ثنا اﷲ زہری کی حکومت آتے ہی جب کوئٹہ میں ماس ٹرانزٹ ریل کا منصوبہ سامنے آیا تو وزیر ریلوے نے اسی وقت اس کیلئے جگہ کی فراہمی کے ا حکامات جاری کر دیئے حالانکہ نواز لیگ کی ایک مشہور سینیٹر اس جگہ کیلئے حاصل کی جانے والی زمین پر اپنا حق جتا رہی ہیں لیکن اسی منصوبے کیلئے خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ریلوے سے مسلسل دو سال سے کچھ جگہ مانگ رہی ہے تاکہ پشاور میں عوامی بہبود کے ٹرانزٹ ریل کا یہ منصوبہ شروع ہو سکے لیکن وزیر ریلوے کی جناب سے ٹکا سا جواب دیتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔کیا خیبر پختونخوا میں کسی دوسرے ملک کی حکومت ہے؟ کیا وہاں کے لوگ اس ملک کے شہری نہیں ہیں؟۔ یہ صرف چند پہلو سامنے رکھے گئے ہیں جبکہ نواز لیگ کے پاس ایک بہت بڑا پراجیکٹ ہے جس پر تیزی سے اشتہاروں کی شکل میں کام شروع کیا جا چکا ہے۔ اس لئے تحریک انصاف کوابھی سے اس کا مقابلہ کرنے کیلئے تیاری کر نا ہو گی کیونکہ جس شدت سے ریحام خان کو عمران خان کے خلاف حملہ آور ہونے کی بریفنگ دی جا رہی ہے اس کا کسی کو اندازہ ہی نہیں ہے لیکن جو کچھ مسلم لیگ نواز کا میڈیا سیل عمران خان کے ساتھ کرنے جا رہا ہے، اسے شروع کرنے سے پہلے ایک بار ضرور سوچنا ہو گا کہ اگر اینٹوں کا جواب دوسری جانب سے بھی پتھروں کی صورت میں سامنے آنا شروع ہو گیا تو کیا ہو گا؟۔کیا اس سے بہتر یہ نہ ہو گا کہ سیا ست کو شرافت کی حدود میں ہی رکھنے کی کوشش کریں؟۔کیونکہ زبان اور بیان کیلئے پھر کسی پر پابندی تو نہیں لگائی جا سکے گی۔۔۔گو کہ ایسا کرنے سے روکنے میں انہیں اپنے اتحادیوں پیپلز پارٹی، ولی خان گروپ، فضل الرحمان سمیت کچھ دوسرے گروپوں کو سمجھانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن یہ سب کیلئے بہتر ہو گا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس دفعہ پنجاب، سندھ اور مرکز میں پہلے جیسی ان کی من پسند نگران حکومتیں نہ بن سکیں!!