''گاڑی دھوتے وقت پندرہ منٹ تک پانی کا پائپ استعمال کریں تو تقریباً 150لٹر پانی صرف ہوتا ہے۔ اگر یہی گاڑی دھونے کے لئے بالٹی استعمال کی جائے تو 114 لٹر کی بچت ہو سکتی ہے۔ دانت صاف کرتے وقت اگر نل کھلا رکھا جائے تو تین منٹ میں تقریباً21 لٹر پانی استعمال ہوتا ہے، لیکن اگر نل بند کرکے گلاس استعمال کیا جائے تو بیس لیٹر پانی کی بچت ہوسکتی ہے۔ وضو کرتے وقت اگر تین منٹ نل کھلا رہے تو 35 لٹر پانی صرف ہوتا ہے، لیکن اگر نل کوکم یا وقفے سے کھولا جائے تو اس سے بیس سے تیس لٹر پانی کی بچت ہوگی۔ شیو کرتے ہوئے نل کھلا رہے تو دو منٹ میں چودہ لٹر سے زائد پانی ضائع ہوتا ہے، لیکن اگر مگ استعمال کیا جائے تو دس لٹر پانی ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔ اسی طرح ہاتھ منہ دھوتے ہوئے نل کھلا رکھا جائے تو پندرہ لٹر تک پانی صرف ہوتا ہے، لیکن اگر صابن لگاتے ہوئے نل بند رکھا جائے تو اس سے بارہ لٹر تک پانی بچایا جا سکتا ہے‘‘۔
یہ پبلک سروس میسیج تھا جو واپڈا کی جانب سے عالمی واٹر ڈے کے موقع پر 22 مارچ کو عوام کے لئے جاری کیا گیا۔ اس موقع پر واپڈا کی جانب سے منعقدہ سیمینار میں مجھے بھی دو منٹ میں اپنا پیغام دینے کے لئے کہا گیا۔ مجھ سے پہلے واپڈا کے چیئرمیں ظفر محمود اور ممبر پاور، ممبر واٹر اور ممبر فنانس کے علاوہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر تفصیل سے اپنے خیالات اور پیغامات حاضرین کے گوش گزار کر چکے تھے۔ میرے پاس مزید کچھ کہنے کو نہیں تھا، لیکن مجھے پیغام دینا ہی تھا، سو میں نے''پیاسے کوے‘‘ کی مختصر سی کہانی اور دریائے چناب پر بھارت سے پاکستان کی طرف بہنے والے پانیوں پر بھارت کے تعمیر ہونے والے 182چھوٹے بڑے غیر قانونی ڈیمزکی اطلاع دینے پر ہی اکتفا کی۔ بعد میں جناب بشیر بختیار کے ہونہار شاگرد اور مشہور مزدور لیڈر خورشید احمد نے تقسیم انعامات کی تقریب کے دوران حکومت اور واپڈا سے سوال کیا کہ اگر بھارت اپنے ملک اورعوام کے لئے اتنے ڈیم بنا سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں بنا سکتے؟ قوم یہ سوال اپنے حکمرانوں سے نہ جانے کب سے پوچھ رہی ہے، لیکن لگتا ہے ہمارے حکمرانوں کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ حکمرانوں کی ملک میں پانی کے وسائل بڑھانے سے لاتعلقی اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ اس سے زیا دہ کیا ہو سکتا ہے کہ اس تقریب کے مہمان خصوصی پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ محمد آصف تھے، لیکن انہوں نے وعدہ کرنے کے باوجود پانی کا عالمی دن منانے کے لئے لاہور آنے کے بجائے وزیر اعظم کے ساتھ انتخابی مہم کے لئے آزاد کشمیر جانا زیادہ مناسب سمجھا۔
تاہم چیئرمین واپڈا ظفر محمود نے واپڈا ہائوس میں منعقدہ اس تقریب کو معلوماتی سیمینار میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔ انہوں نے سرکاری ملازم ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے وفاقی وزیرکے تقریب میں نہ آنے کا عذر جس انداز میں پیش کیا وہ یقینا ان کے وزیر کے لئے تو قابل ستائش تھا ہی، لیکن ملک کے کونے کونے سے ہر طبقے کے سکولوںکے بچوںکے سامنے پانی کی کمی اور اس کی اہمیت کو اجا گر کرنے کے لئے مضامین، کارٹونوں، تقریروں اور تصویروںکے مقابلے کرائے،اس سے یقیناً ملک بھرکی نئی نسل کو فکر لاحق ہوگئی ہوگی کہ اگر پانی کے مسئلے پر ہم سب نے صوبائی تعصبات کو دفن کرتے ہوئے ایک ہوکر اس کا کوئی سنجیدہ حل تلاش نہ کیا توکل کو وہ خود اور ان کی آنے والی نسلیں پانی کے ایک ایک قطرے کو ترسیں گی۔ لگتا ہے کہ واپڈا اتھارٹی اور اس کے چیئرمین پانی کی کمی دورکرنے کے لئے سنجیدہ اور مخلص تو ہیں لیکن بے بس بھی ہیں۔
تقریباً دس سال قبل مجھے وقفے وقفے سے بہاولنگر کی ایک دور افتادہ تحصیل فورٹ عباس جانے کا اتفاق ہوتا رہا جہاں سے چولستان کی زندگی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وہاں خواتین اور نو عمر لڑکیاں پانی کی تلاش کے لئے گھڑے اور پیتل کے مٹکے سروں پر رکھ کر سخت گرمی میں بہت دور سے پانی لاتی نظر آئیں۔ وہاں کے باسی بھاکڑا نہر اجڑنے سے خود بھی اجڑ کر رہ گئے۔ اگر سندھ اور بہاولپورکے صحرائوں کی جانب رخ کریں تو پانی پیتے ہوئے لوگ انتہائی احتیاط کرتے ہیں کہ کہیں پانی کا کوئی قطرہ ضائع نہ ہونے پائے۔ سبھی جانتے ہیںکہ قرآن پاک میں اﷲ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ پانی ہی سے ہر چیز کو حیات عطا فرمائی گئی۔
کراچی جیسے شہر جائیں، جسے روشنیوں کا شہر اور پاکستان کا اقتصادی ہب کہا جاتا ہے، وہاں پانی کی کمیابی ایسی ہے کہ خدا کی پناہ! کراچی کے پوش علاقے کلفٹن میں جمیل الدین عالی مرحوم جیسی مشہور و معروف ادبی شخصیت، جو تین ماہ ہوئے جہان فانی سے رحمت و برکت والے اﷲ کے پاس جا چکی ہے، کے ہاں چند دنوں کے لئے جانے کا اتفاق ہوا۔ ابھی اپنا سامان کمرے میں رکھا ہی تھا کہ میزبان نے سب سے پہلے یہ الفاظ کہے: ''پانی صبح 9 بجے اور شام 5 بجے صرف پندرہ منٹ کے لئے آئے گا‘‘۔ انہوں نے باتھ روم میں رکھی ہوئی بالٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاکیدکی کہ پانی کا ایک ایک قطرہ آپ احتیاط سے استعمال کریں۔ ان کے ہاں چند دن رہنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ پانی کیا ہے؟ کراچی کے پوش علا قوں کے رہنے والے کس طرح روزانہ گھریلو استعمال کے لئے بھاری قیمت ادا کر کے پانی کا ٹینکر منگواتے ہیں۔ پورے کراچی کا یہی حال ہے۔ لوگ پانی کے ایک ایک قطرے کے لئے ترستے ہیں اورآپس میں لڑتے ہیں۔کراچی کی ہر آبادی میں دشمنیوںکی بڑھتی ہوئی ایک بڑی وجہ پانی کے حصول کے لئے کی جانے والی زبردستی اور جلدی بھی ہے۔ اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ کراچی کا مسئلہ کیا ہے تو میں یہی کہوں گا کہ پانی اور صرف پانی جس کی طرف کسی نے دھیان دینے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ان میں صاحبان اقتداراور انہیں انتخابات میں ووٹوں سے نوازنے والے دونوں شامل ہیں۔ کراچی اور سندھ میں اقتدار کے مجاور گزشتہ تین دہائیوں سے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرتے چلے آ رہے ہیں۔
یاد رکھیے! کراچی کو مہیا ہونے والا پانی پینے کے لئے نہیں ہوتا، پینے کے لئے ہر گھر،دفتر اور ہوٹل میں بوتل بند پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے‘ مطلب آپ بھی بہتر سمجھتے ہیں۔ افسوس، ہم سب نے من حیث القوم آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ یہ رویہ ہمیں تباہی کے ایسے گڑھے میں پھینک دے گاجس سے نکلنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا!