بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نئی دہلی میں ایک سرکاری تقریب کے مہمان خصوصی کے طور پرتقریر کر رہے تھے کہ اچانک انہوں نے تقریر روک دی۔ سب لوگ ایک دوسرے کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے حیران سے ہوئے کہ وزیر اعظم کو کیا ہوا، یک دم خاموشی اختیار کر لی۔ کوئی ایک منٹ بعد انہوں نے اپنی تقریر دوبارہ شروع کرتے ہوئے کہا: ابھی آپ قریب کی مسجد سے اذان سن رہے ہوںگے، میں نے اس کے احترام میں تقریر روک دی تھی۔ حاضرین نے وزیر اعظم کی زبان سے یہ الفاظ سنے تو بے یقینی کی کیفیت میں دم بخود رہ گئے۔ اے بھگوان! نریندر مودی اور اذان کا احترام! چند لمحوں میں اذان کے احترام میں مودی کی خاموشی بریکنگ نیوز بن کر ٹی وی چینلز پر چمکنے لگی اور بھارت کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک طوفان کی طرح چھا گئی۔ سب حیران تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ لگتا ہے ،کانگریس یا لالو پرشاد یادیو کی جانب سے نریندر مودی کو ہندو ووٹروں کی نظروں سے گرانے کے لئے یہ من گھڑت خبر نشر کی جا رہی ہے۔ لیکن اگلی صبح پاکستانی اخبارات میں بھی یہی خبر پڑھنے کو ملی۔ قارئین! حیران تو آپ بھی ہوئے ہوں گے!
اس کے تین دن بعد اچانک خبر آئی کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی سعودی عرب کا دورہ کرنے کے لئے ریاض پہنچنے والے ہیں۔ پھر ریاض ایئر پورٹ پر مودی کے استقبال کا ایسا منظر دیکھنے کو ملا کہ جس نے بھی دیکھا اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ صدر ایوب خان کے دور کی وہ یادیں تازہ ہوگئیں کہ سعودی فرمانروا خود ایئر پورٹ پر ان کا استقبال کیا کرتے تھے۔ نریندر مودی کے دورہ سعودی عرب کے دوران ایک ایسا دھماکہ ہوا کہ سب حیران رہ گئے۔کیمروں کی چکا چوند میں خادم حرمین شریفین کے ہاتھو ں سے نریندر مودی کے گلے میں سعودی عرب کا سب سے بڑا شاہ فیصل ایوارڈ ڈالا گیا۔ یہ ایوارڈ سعودی عرب کے لئے بہترین خدمات انجام دینے والی شخصیت کو دیا جاتا ہے۔ قارئین محترم! یہ ایوارڈ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی گردن میں سجانے کا منظر دیکھ کر حیران تو آپ بھی ہوئے ہوں گے کہ کہاں مسجد نبوی کا تقدس اور کہاں خانہ کعبہ کی عظمت اور کہاں بابری مسجد کو راکھ کا ڈھیر بنانے والے راشٹریہ سیوک سنگھ کے نریندر مودی کے لئے سعودی عرب کا سب سے بڑا ایوارڈ!
12 اپریل کو آرمی چیف جنرل راحیل شریف گوادر پہنچے جہاں انہوں نے میڈیا سے گفتگو کے دوران اور بلوچستان کی ترقی کے بارے میں ہونے والے سیمینار سے خطاب میںکہا کہ دشمن ملک اور اس کی خفیہ ایجنسیاں پاک چین راہداری کو ناکام بنانے کے لئے مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں۔ ظاہر ہے، ان کا اشارہ بھارت کی جانب تھا جس کے وزیر اعظم کو سعودی عرب نے اپنے سب سے بڑے ایوارڈ سے نوازا۔ گوادر کے اس سیمینار کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں وفاقی حکومت کے کسی ایک رکن نے بھی شرکت نہیں کی، حتی کہ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال جنہیں اس سیمینار میں پاک چین راہداری کے بارے میں خصوصی بریفنگ دینا تھی، وہ بھی غیر حاضر پائے گئے جسے چینی حکومت نے بھی بری طرح محسوس کیا ہوگا۔ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ملٹری آپریشن خصوصی طور پر اس سیمینار میں شریک ہوئے تاکہ چین اور دنیا کو بتایا جائے کہ فوج اس منصوبے کی نگہبان ہے اور رہے گی۔ حکومت کی گوادر میں پاک چین راہداری سے متعلق سیمینار سے غیر حاضری پر حیران تو آپ یقیناً ہوئے ہوں گے۔
27مارچ کو لاہور کے علامہ اقبال ٹائون کے گلشن اقبال پارک میں اتوار کی تعطیل اور ایسٹر کی خوشیاں منانے کے لئے مسیحی برادری کے سیکڑوں بچے اور ان کے ماں باپ رنگ برنگے جھولوں اور سلائیڈز وغیرہ سے دل بہلا رہے تھے کہ یک دم خوفناک دھماکے نے ہر طرف تباہی مچا دی۔ اس خود کش دھماکے میں 80افراد شہید اور200 کے قریب زخمی ہو گئے۔ اس دھماکے کی خون آشام دھمک نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ ہر ایک کی نظر اپنے دیرینہ دشمن کی جانب اٹھی جو پاکستان میں کبھی مذہبی انتہا پسندوں اور کبھی بلوچستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے تباہی پھیلانے کو اپنا دھرم سمجھتا ہے۔ ابھی گلشن اقبال کے شہداء کے کفن بھی میلے نہیں ہوئے تھے کہ میڈیا پر کیرالہ (بھارت) کے مندر میں ہونے والی تباہی کی خبروں نے سب کو ہلا دیا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اس سانحے کی تفصیلات آنا شروع ہوگئیں۔ آخر یہ معلوم ہوا کہ سالانہ میلے کا جشن منانے کے لئے آتش بازی کی جا رہی تھی کہ ایک شعلہ مندر میں رکھے ہوئے آتش بازی کے سامان میں آ گرا جس سے ایک زور دار دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں وہاں آئے ہوئے300 سے زیادہ ہندو یاتری بھسم ہو گئے۔ زخمیوں کی تعداد سات سو سے بھی زیا دہ بتائی گئی۔ یہ ہلاکتیں گلشن اقبال دھماکے کے صرف دس دن بعد ہوئیں۔ اس پرآپ حیران توہوئے ہوں گے لیکن کیا کیا جائے کہ قدرت کے کام بھی نرالے ہوتے ہیں۔ گلشن اقبال میں ہونے والے خود کش دھماکے میں درجنوں قیمتی جانوں کے ضائع ہونے پر نریندر مودی نے وزیر اعظم نواز شریف سے اظہار افسوس کے لئے ٹیلیفون کیا اورکیرالہ کے مندر میں ہندو یاتریوں کی تین سو سے زائد ہلاکتوں پر میاں نوازشریف نے بھی اپنے ہم منصب سے اظہار ہمدردی کے لئے فون کیا۔
6 اپریل کو جیسے ہی پانامہ لیکس کے ذریعے دنیا کے حکمرانوں، سیا ستدانوں اور کاروباری حضرات کی آف شورکمپنیوں کی دھوم مچی تو اگلی صبح آئس لینڈ میں ہزاروں لوگ اپنے وزیر اعظم کے گھر کے باہر جمع ہوگئے۔ ان سب کی زبانوں پر ایک ہی نعرہ تھا کہ ہمارے ملک کا وزیر اعظم ٹیکس چور اور منی لانڈرنگ کرنے والا نہیں ہو سکتا، یہ ہماری اور ہمارے با وقار ملک کی توہین ہے۔ یہ لوگ اس وقت تک وزیر اعظم کے گھر کے باہر موجود رہے جب تک استعفیٰ لے کر اس کو گھر نہیں بھیج دیا۔ مالٹا کے شہریوں نے جب سنا کہ ان کا حکمران ٹیکس چوری میں ملوث ہے تو وہ ہزاروں کی تعداد میں اس کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کا گھیرائو کر لیا کہ یہاں بیٹھا ہوا شخص ہمارے ملک کی عظمت کا نشان ہوتا ہے، کوئی ٹیکس چور اور منی لانڈرنگ کرنے والا نہیں۔ برطانیہ میں تو بات صرف تیس ہزار پونڈ کی نکلی، لیکن برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو اس وقت لینے کے دینے پڑ گئے جب لندن کے شہری10 ڈائوننگ سٹریٹ کے باہر جمع ہونا شروع ہو گئے اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ لیکن جب کرہ ارض پر اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ملک کے حکمران خاندان کے بارے میں پانامہ لیکس سے پتا چلا کہ یہ منی لانڈرنگ اور آف شور کمپنیوں کا مالک ہے تو پاکستان میں کوئی ایک شخص بھی سڑک پر نہیں نکلا، سب سوئے رہے۔ پاکستان میں ہو کے اس عالم پر آپ حیران تو ہوئے ہوں گے، لیکن یقین جانیے مجھے تو کوئی حیرت نہیں ہوئی!