امریکن سیکرٹری آف سٹیٹ ایشٹن کارٹر کے سولہ اپریل کے دورہ بھارت کے دوران بھارت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر کے ساتھ کئے جانے والے لاجسٹک سپورٹ معاہدے‘‘ نے خطے کے ناپائیدار امن پر ایک اور کاری ضرب لگادی ہے اور اس تناظر میں بھارت کے ہمسایہ ممالک ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ انہیں اپنی اور اپنے عوام کی سلامتی کیلئے ہر وہ قدم اٹھانا چاہئے جو اسے بھارت جیسے دشمن کے رحم و کرم کا محتاج ہونے سے محفوظ کر دے کیونکہ جب بھارت اور امریکہ مستقبل کیلئے تشکیل دیئے جانے والے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے ہر حد سے گزرنے سے گریز نہیں کر رہے تو پھر پاکستان سمیت خطے کے دوسرے متا ثرہونے والے ممالک کو بے جا پابندیوں میں جکڑ نا کسی طور بھی گوارا نہیں ہو گا۔پاکستانی حکومت اپنی زبان، آنکھیں اور کان کیوں بند کئے ہوئے ہے۔ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے سفارتی نمائندے دبی دبی زبان میں نہیں بلکہ کھل کر کہہ رہے ہیں کہ بھارت پاکستان کو کسی اپنے تیار کردہ شکنجے میں جکڑنے کیلئے آہستہ آہستہ سب سے علیحدہ کرنے میں مصروف عمل ہے اور اس سلسلے میں وہ کسی بھی قسم کی اخلاقی پابندیوں کو بھی سامنے نہیں رکھ رہا ۔ ایک بد ذات قسم کی چغل خور عورت کی طرح وہ کبھی چین اور پاکستان میں غلط فہمیاں پھیلاتا ہے تو کبھی اوٹ پٹانگ باتوں سے ایران اور سعودی عرب کے کان بھرتا رہتا ہے۔ اس کی شروع سے ہی کوشش رہی ہے کہ پاکستان کے ہر ہمسایہ ملک سے تعلقات کو کشیدہ کرتا رہے ۔ وہ ان گھٹیا ترین کاموں کیلئے دن رات مصروف دکھائی دے رہا ہے۔۔۔۔ایران سے بھارت کی محبت کی نئی
پینگیں سوائے پاکستان اور ایران کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کے اور کچھ نہیں جبکہ ایران کے سب سے بڑے مخالف سعودی عرب سے تو نریندر مودی قابل قدر خدمات کے عوض سعودیہ سلطنت کا سب سے اعلیٰ ایوارڈ حال ہی میں وصول کر چکا ہے۔۔۔۔ پاک چین راہداری منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے بھارتی حکومت کی جانب سے بھارتی فوج کے ایک حاضر سروس میجرجنرل کی سربراہی میں بھارت کی بری، بحری اور فضائی افواج کے افسران پر مشتمل علیحدہ اور نئے سیل کی تشکیل اور اسے بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے ساتھ منسلک کرنے کے بعد ان کو دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کیلئے مہیا کئے جانے والے 300 ملین ڈالر خطے میں امن و آشتی کو بھک سے اڑا دیں گے!
کانگریس حکومت کے سابق وزیر دفاع اے کے انتھونی نے انڈیا اور امریکہ کے درمیان سولہ اپریل کو ہونے والے متنازعہACSA معاہدےAccess and cross serving agreement پر تبصرہ کرتے ہوئے مودی سرکار کو خبردار کیا ہے کہ اس معاہدے سے بھارت کو کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ اس سے امریکہ بھارت کے ارد گرد کے ہمسایہ ممالک کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا، آگے چل کر اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایسے ممالک جو امریکی معاہدے کے تحت بھارت کے نشانے پر آ جائیں گے وہ بھی کھل کر اپنے ممکنہ دشمن کے خلاف اپنے دفاعی اور جارحانہ منصوبوں کو بہت آگے تک لے جانے کی کوششیں مزید تیزکر دیں گے اور انہیں ایسا کرنے میں کسی بھی بین الاقوامی رکاوٹ یا اخلاقی دبائو کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ ان کی ان تیاریوں پر سوال اٹھانے والے ممالک کو بھارت کے امریکہ اور پھر تائیوان کے ساتھ سمندری اور فضائی رسائی کے ان معاہدوں کی مثال دے دی جائے گی۔
سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے2006ء میں اپنے دورئہ بھارت کے دوران جہاں سونیا گاندھی کی کانگریس حکومت کو بہت سی ترغیبات دیں وہاں یہ معاہدہ بھی دونوں ممالک کے ایجنڈے میں شامل تھا لیکن سونیا گاندھی نے اس پر زیا دہ دلچسپی کا اظہار نہ کیا لیکن مودی حکومت آتے ہی امریکہ نے اپنے اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے گذشتہ ماہ ایک ایم او یو پر دستخط کر دیئے ۔۔۔۔امریکہ کی اس معاہدے میں دلچسپی کی پس پردہ جو وجہ بتائی جا رہی ہے اس کے مطا بق اگلے تین سالوںمیں امریکہAsia Pacific Regionمیں اپنی60 فیصد سے بھی زیادہ Marine Force ڈیپلائے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اس سے بھی آگے چلیں تو اقوام عالم سمیت چین اس سچائی سے کیسے بے خبر رہ سکتا ہے کہ بھارت کئی سالوں سے افغان سر زمین پر بیٹھ کر ازبک، چیچن، تاجک، داعش اور ETIM کے دہشت گردوں کو سنکیانگ میں چین کی سلامتی کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ نریندر مودی کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کی عراق اور شام میں داعش کے لیڈران سے ملاقات کسی شادی میں شرکت کا د عوت نامہ دینے کیلئے نہیں بلکہ انہیں یہ ترغیب دینے کیلئے تھی کہ طالبان سے علیحدہ ہونے والے گروپس کو داعش افغانستان کے نام سے تسلیم کرتے ہوئے کام کرنے کی حو صلہ افزائی کی جائے اور اس سلسلے میں بھارت ان کی ہر طرح کی مدد کرنے کیلئے تیار ہے۔ داعش جہاں چاہے گی بھارت اپنے ذرائع سے ان کی مدد کو پہنچے گا۔
کسی بھی دفاعی یا سٹریٹیجک ماہر کے سامنے جیسے ہی امریکہ اور بھارت کے درمیان طے پانے والا حالیہ لاجسٹک سپورٹ معاہدہ آئے گا تو اس کے ذہن میں سب سے پہلا سوال یہی اٹھے گا کہ امریکہ اب متبادل لاجسٹک سپلائی لائنز پر کام کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے تاکہ ایک طرف وہ تیل کی متبادل پائپ لائنوں کی حفاظت کر سکے تو ساتھ ہی چین کی بڑھتی ہوئی سمندری حدود کا راستہ روک سکے۔ اس معاہدے کی سب سے بڑی خوبی یہ بھی ہو گی کہ بھارت اور امریکہ عوامی جمہوریہ چین کی سمندری اور فضائی حدود کی نگرانی کیلئے ہنگامی جنگی منصوبے تیار کر سکیں گے۔ 1962ء میں چین اور بھارت کے درمیان لڑی جانے والی جنگ اور ا س کے بعد سے اب تک بھارت اور چین کی آپس میں وقفے وقفے سے ہونے والی سرحدی جھڑپوں کو سامنے رکھیں تو امریکہ کا یہ لاجسٹک سپورٹ معاہدہ چین سمیت خطے کے دوسرے ممالک کے مستقبل کیلئے کسی طور بھی منا سب نہیں ہو سکتا۔ اس سلسلے میں بھارت کے سابق آرمی چیف اور نریندر مودی کے وزیر جنرل وی کے سنگھ کے اس بیان کو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جس میں اسے پاکستان سے دوستی کی بھاری قیمت چکانے کی دھمکی دی گئی ہے۔ جنرل وی کے سنگھ کے اس پالیسی بیان سے یہ سمجھنا کسی طور بھی غلط نہ ہو گا کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان نت نئے سٹریٹیجک معاہدے عالمی امن کیلئے کسی بڑے خطرے کا باعث بنتے جا رہے ہیں۔ کیا آنے والے سالوں میں امریکہ اس خطے میں جنگ کی تباہ کاریوں کو فروغ دینے کے کام میں مصروف ہو چکا ہے؟۔کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے سولہ اپریل کے اس بھارت امریکہ معاہدے پر چند الفاظ میں جو تبصرہ کیا وہ بھارت کی پارلیمنٹ میں کافی دیر تک گونجے گا۔ CPI نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر اس معاہدے کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کہا'' مودی سرکار جو اپنی طرف سے خطے میںSwing Power State کے خواب دیکھ رہی ہے‘ شائد نہیں جانتی کہ امریکہ کے ساتھ اس معاہدے پر دستخط کرنے کے سے India-a client state بن چکا ہے اور اس میں کسی بھی قسم کا شک و شبہ نہیں کہ مودی سرکار کی اس قسم کی خوش فہمیوں کی وجہ سے بھارت اپنی سالمیت کو دائو پر لگانے کیلئے بری طرح تلا ہوا ہے.....!!