"MABC" (space) message & send to 7575

حیات محمد خان شیر پائو کا قتل

راشٹریہ سیوک سنگھ کی منا سبت سے پاکستان بننے سے کچھ عرصہ پہلے صوبہ سرحد میں بھی ''زلمے پختون‘‘ نامی تنظیم قائم کی گئی تھی جو ریفرنڈم میں مسلم لیگ کے ہاتھوں خان غفار خان کی شکست کے ساتھ ہی بکھر گئی۔ لیکن پھر 23 سال بعد اچانک6 مئی1970ء کے دن عبد الولی خان نے شاہی باغ پشاور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کے دوران'' پختون زلمے‘‘ کے احیا کا اعلان کرتے ہوئے خود کو اس کا سالار اعلیٰ مقرر کر لیا۔ پاکستان میں روس کے خلاف افغان جہاد کے دوران اور اب تک وقفے وقفے سے جاری دہشت گردی کے طریقہ کار کو جاننے کیلئے پاکستان کے میڈیا اور ہماری تمام خفیہ ایجنسیوں اورتفتیشی اداروں کو پختون زلمے کے سابق اہم ترین رکن'' جمعہ خان صوفی‘‘ کی لکھی جانے والی کتاب ''فریب نا تمام‘‘ کے ایک ایک حرف کو غور سے پڑھنا ہو گا اس کے عمیق مطالعے سے فاٹا اور قبائلی علا قوں سمیت افغانستان میں دہشت گردوں اور ان کے لیڈران کے ایک ایک ٹھکانے کی تفصیلات معلوم ہو جائیں گی اور ہم سب کوبھارت سمیت حامد کرزئی، عبد اﷲ عبد اﷲ اور پھر سردار دائود تک کی نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ ہمدردی اور تعلق کی سمجھ آ جائے گی ۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت اور پاکستان کے خلاف اس وقت کی وہ سازش بھی بے نقاب ہو جائے گی جس میں ولی خان نے سردار دائود کو جمعہ خان صوفی کے ذریعے پیغام دیا کہ'' پاکستان کے کچھ پشتون پائلٹ اپنے جیٹ طیارے اغوا کر کے افغانستان اتر جائیں گے لیکن ایسا نہ ہو کہ کہیں وہ(دائود خان) ان کو واپس پاکستان کے حوالے کر دیں‘‘ ۔ سردار دائود نے جب ظاہر شاہ کے دورہ روم کے دوران اس کی حکومت کا تختہ الٹا تواس کے بعد جو کچھ پاکستان میں ہوا وہ پرانی فائلیں بھی دیکھنا ہوں گی۔ دائود کی حکومت میں ولی خان گروپ افغانستان کی سیا ست اور حکومت پرایک طرح سے چھاگیا تھا۔ کیونکہ ولی خان کی طرح سردار دائود خان بھی شروع سے ہی پختونستان کا زبردست حامی تھا۔ باچا خان بھی اس وقت کابل میں تھے لیکن ان کی زندگی میں ہی ان کے فرزند خان عبدالولی خان نے پختون زلمے کے نام سے پختون نوجوانوں کو صوبہ چہار آسیاب کے نزدیک گوریلا تربیت شروع کرادی۔یہ بات ریکارڈ پر موجو دہے کہ پاکستان سے افغانستان آنے والے پشتون نوجوانوں کی مسلح ٹریننگ کے اختتام پر پاسنگ آئوٹ پریڈ میں ولی خان نے ان سے باقاعدہ سلامی لی۔ یہاں سے یہ لوگ پاکستان واپس روانہ کر دیئے گئے ان کے پاس اسلحہ، گولہ بارود، ٹائم بم، گرینیڈ جیسے مہلک ہتھیار تھے۔ پاکستان واپس پہنچتے ہی انہوں نے بینکوں، جی ٹی ایس کی بسوں، پولیس تھانوں ،تانگوں اور ریل کی پٹڑیوں کو بم دھماکوں سے اُڑانا شروع کر دیا۔جب سرحد( کے پی کے) میں ہر طرف افراتفری پھیلنا شروع ہو گئی تو سرداردائود نے جلال آباد شہر میں قبائلی امور کے دفتر کے قریب پریس کلب کی عمارت کو خالی کرا کر اسے پختون زلمے کے کیمپ میں تبدیل کر دیا۔ اس کیمپ کا کمانڈر ہدایت اﷲ عرف باچا اور اعظم خان ہوتی تھے۔کابل سے تخریب کاروں کو ہدایات دینے کیلئے ان سب کو کوڈ نام دے دیئے گئے تھے۔ ولی خان کیلئے باز، اعظم ہوتی کیلئے کھٹا، نادر خان کیلئے میخہ یعنی بھینس وغیرہ وغیرہ اسی طرح دوسروں کیلئے بھی فرضی نام مقرر کر دیئے گئے تھے۔اوپر جو کچھ لکھا گیا ہے وہ افسانہ و کہانی نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف نیپ کی سرحد (کے پی کے)اور بلوچستان میں مسلح بغاوت کی مستند اور دستاویزی داستان ہے۔8 فروری1975 ء کو پشاور یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ کی یونین کی تقریب حلف برداری کے لئے مدعو کئے جانے والے مہمان خصوصی حیات محمد خان شیر پائو کی بم دھماکے سے ہونے والی شہا دت کی اگلی شام انور باچا اور امجد باچا نامی دو نوجوان بُلا خان( حبیب اﷲ خان) اور اس کے بھائی معزاﷲخان کی نگرانی میں افغانستان کی حدود میں داخل ہوتے ہیں۔ انور باچا اور امجد باچا جونہی کھیتوں سے نکل کر چارسدہ جانے والی سڑک پر پہنچے، تو شیر پائو کی بم دھماکے میں ہلاکت کے نتیجے میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کے انتہائی الرٹ ہونے کی وجہ سے زبر دست چیکنگ کی جا رہی تھی۔ اسی چیکنگ میں پولیس ان دو نو جوانوں کو بھی پکڑ کر تھانے لے آئی لیکن ان میں سے ایک نو جوان نے بلا خان تک اپنی حراست کی اطلاع پہنچا دی جس پر وہ فوراً، تھانے پہنچا اور پولیس پر آتے ہی برس پڑا کہ میرے مہمانوں کو بلا وجہ بٹھا رکھا ہے جس پر پولیس نے ان دونوں کو جانے کی اجا زت دے دی جو دراصل شیر پائو کے اصل قاتل تھے۔پولیس تھانے سے یہ لوگ سیدھے مہمند ایجنسی پہنچے اور وہاں سے یہ نوجوان شمالی افغانستان کے علا قے قندوز پہنچا دیئے گئے۔
پشاور پولیس، سپیشل برانچ، انٹیلی جنس بیورو اور آئی ایس آئی کے ریکارڈ میں حیات شیر پائو کے قتل کی ایک ایک تفصیل موجود ہو گی اس لئے اگر ان پرانی فائلوں کو نکال کر ایک بار پھر غور سے اس سانحہ کا پس منظر اور ان قاتلوں کے ما سٹرز کے رابطوں اور سازشوں کو کریدا جائے تو شائد آج کی دہشت گردی کے کچھ سرے ہاتھ لگ جائیں۔ نام اور مقام تو ظاہر ہے کہ اب بدل چکے ہو ں گے لیکن بہت سے نشانات ابھی باقی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اس کا سرا کسی طریقے سے بلوچستان کی آج کی صورت حال سے بھی جا ملے؟۔ شیر پائو کو بم دھماکے سے ہلاک کرنے کا منصوبہ سب سے پہلے سات فروری کو بنایا گیا جب ٹیکنیکل کالج پشاور میں طلباء کی ایک تقریب میں شیر پائونے شرکت کرنا تھی لیکن ہوا یہ کہ اس دن تخریب کاروں کو سٹیج پر افراسیاب خٹک بھی حیات شیر پائو کے ساتھ ہی بیٹھے نظر آئے تو انہوں نے اپنے ہاتھ روک لئے لیکن دوسرے ہی دن اُنہیں کارروائی کا موقعہ مل گیا۔اگلے ہی دن انور اور امجد نامی دو نوجوان جو طلبا کی طرح شیروانیاں پہنے ہوئے تھے انہوں نے اپنا ٹیپ ریکارڈر روسٹرم اور مائیک کے ساتھ بظاہر اس غرض سے رکھ دیا تاکہ اُن کی تقریر ریکارڈ ہو سکے۔ جونہی شیر پائو روسٹرم پر آئے تو ٹیپ ریکارڈر میں ہونے والے ایک زور دار دھماکے نے ان کی جان لے لی اور وہ اس دہشت گردی کی نذر ہو گئے۔ 
چند گھنٹوں بعد پولیس کو دو شیروانیاں مل گئیں جو وہ اتار کر کھیتوں میں پھینک آئے تھے۔ ان شیروانیوں کے کھوج میں پولیس اس درزی تک جا پہنچی جس نے انہیں تیار کیا تھا اور پھر درزی سے ان شیروانیوں کے اصل مالکان انور باچا اور امجد باچا کا پتہ چل گیا۔پاکستان میں ہمارے میڈیا کا ایک بہت بڑا حصہ جس میں انگریزی اخباروں سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے نامور جگادری شامل ہیں الزام دیتے آ رہے ہیں کہ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے افغانستان میں مداخلت کرتی آ رہی ہے۔ یہ الزام اسی طرح کا جھوٹا اور خود ساختہ ہے جتنا شیر پائو کے قتل کے بعد اس بات کی مشہوری تھی کہ شیر پائو کو ذوالفقار علی بھٹو نے بے نظیر کی وجہ سے خود ہی مروا یا ہے؟۔ وہ لوگ جو اس وقت شعور میں تھے انہیں چاروں جانب پھیلائی جانے والی اس کہانی سے یقینا آگاہی ہو گئی ہو گی۔ جس طرح حیات شیر پائو کا قتل خان ولی خان کی سربراہی میں قائم کی گئی'' پختون زلمے‘‘ کی کاروائی ہے اسی طرح لاہور کے واپڈا ہائوس کے باتھ روم میں ہونے بم دھماکے میں بھی اسی تنظیم کے لوگ شامل تھے اور یہ سچائی سپیشل برانچ اور پنجاب پولیس کے پاس محفوظ ہو نی چاہئے؟۔پختون زلمے کے ضلعی عہدیداروں پشاور کے کمانڈر رسول خان،مردان کے انور خان،ضلع سوات کے شیر خان،مانسہرہ نجیب خان، دیر سعید خان، پشاور شہر کے حاجی عدیل خان اور عطا ا ﷲ ضلع بنوں کے نام نمایاں تھے ان میں سے بغدادہ مردان کے امیر اﷲ تخریبی سرگرمیوں میں بہت ہی فعال تھے جسے مردان چھائونی میں دھماکے کی نیت سے داخل ہونے پر بم سمیت گرفتار کر لیا گیا تھااور اسی کتاب میں پاکستانی فوج کے ایک میجر کی شہادت کی تفصیل بھی درج ہے کہ انہیں کے پی کے میں کیسے اور کہاں شہید کیا گیا۔!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں