نریندر مودی کے متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب، ایران اور قطر کے سربراہان سے خصوصی ملاقاتیں جہاں اپنے اندر بہت سی کہانیاں اور راز لئے ہوئے ہیں وہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہو گی کہ یہ سلامتی کونسل کی مستقل نشست کے حصول کی کوششوں اور یقین دہانیوں کا حصہ بھی ہو سکتی ہیں۔ پاکستان جس نے اپنے عربی اور عجمی دوستوں کے لئے اب تک نہ جانے کتنے زخم کھائے ہیں، اب حسرت زدہ نظروں سے ان کی جانب دیکھ رہا ہے، جن کی تیار کی گئی نیاموں میں پاکستانی عوام کے ازلی دشمن نے اپنے زہر سے بھرے ہوئے خنجر اور تلواریں چھپائی ہوئی ہیں۔ اب یہ کہنے اور سمجھنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہئے کہ ایران، پاکستان کی دوستی کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا اور یہ بات طے شدہ لگتی ہے کہ امریکہ نے بھارت، ایران اور افغانستان کی مثلث کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ورنہ پاکستان نے جب ایرانی حکومت کو اعتماد میں لیتے ہوئے اس کی چاہ بار بندر گاہ کی تعمیر کے لئے اپنی خدمات فراہم کرنے کی پیش کش تھی توکوئی وجہ نہیں تھی کہ ایران اسے قبول نہ کرتا۔ اس کالم میں یہ بریکنگ نیوز دینے میں مَیں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ بھارت جب چاہ بہار میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہا تھا، پاکستان نے ایران کو چین اور پاکستان کی جانب سے مشترکہ مدد کی پیش کش کی تھی۔ اگر ایران پاکستان کی یہ پیش کش قبول کر لیتا تو اس میں ایران کا ہی فائدہ تھا، لیکن بھارت کی دوستی اور پیار میں ایران نے اس پیشکش کو سرے سے ہی رد کر دیا۔ ایرانی قیادت اگر سمجھتی ہے کہ چاہ بہار سے پاکستان کو نقصان ہو گا تو یہ درست نہیں کیونکہ اگر چین پاکستان راہداری کا منصوبہ بر وقت مکمل ہو جاتا ہے تو بھارتی منصوبے اپنی موت آپ مر جائیں گے، اس لئے ایران کو ہوش مندی سے کام لیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ ہی چلنا ہوگا۔
بھارت کے مسلم ممالک سے بڑھتے ہوئے روابط اور ایران سے سٹریٹیجک پارٹنر شپ کا اس کے سوا اور کوئی مقصد نہیں کہ پاکستان کو اس کے دوستوں سے ایک ایک کرکے دور کر دیا جائے۔ بد قسمتی سے اس وقت پاکستان کی سیا سی حکومت کا کہیں وجود دکھائی نہیں دے رہا، جس ملک کا وزیر خارجہ ہی نہ ہو اور جو وزیراعظم ملکی معاملات میں دلچسپی لینے کی بجائے سیاسی مخالفین اور اپنی سیاست کے گرد ہی گھومنا پسند کرتا ہو اس سے کسی بہتری کی توقع رکھنا عبث ہے، ورنہ کون نہیں جانتا کہ میاں نواز شریف کے سعودی عرب اور قطر کے حکمرانوں سے ذاتی تعلقات ہیں اور یہ حکمران ان کو ہر طرح کی مالی سہولیات فراہم کرتے رہے ہیں۔ اگر میاں نواز شریف چاہتے تو قطر اور سعودی عرب کے شاہی خاندانوں سے نریندر مودی کی شاہانہ پذیرائی کم کرائی جا سکتی تھی۔ لیکن یہاں سوال پھر یہی سامنے آ جاتا ہے کہ نریندر مودی بھی تو میاں صاحب کے عربی سربراہان کی طرح ذاتی دوست ہیں، وہ کیسے پسند فرمائیں گے کہ ان کا مخلص اور برے وقت میں ساتھ دینے والا ذاتی دوست ناراض ہو جائے! تو کیا وطن عزیز پاکستان آنے والے وقت میں حکمرانوں کی ذاتی دوستیوں کی بھینٹ چڑھنے والا ہے؟ کاش ملک میں کسی
حکمران کا وجود ہوتا، کل وقتی وزیر خارجہ ہوتا تو وہ ایرانی قیادت سے درخواست کرتا، انہیں قائل کرتا کہ چاہ بہار کے لئے پاکستان اور چین کی مدد ایران کے مفاد میں ہے۔ کل تک مرگ بر امریکہ کہنے والے اب امریکہ کے ہی دبائو پر پاکستان کی جانب سے کی جانے والی چین کی اس پیش کش کو ٹھکرا رہے ہیں۔ چین ایران کی اسی طرح مدد کرنے کی شدید خواہش رکھتا ہے جس طرح وہ پاکستان کے راہداری منصوبے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔ چین کی اس بے لوث اور بھر پور خواہش کا ایران کو احترام کرنا چاہیے۔ اب بھی وقت ہے کہ ایران اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔
آج پاکستان خلا میں ہے، پتانہیں چل رہا کہ کون کیا ہے اور کہاں ہے؟ ہرکوئی اس وقت ملک کا چیف ایگزیکٹو بنا ہوا ہے۔ اگر پاکستان میں کوئی حکومتی عہدیدار اس نازک صورت حال کا احساس نہیں کر رہا تو پھر عدلیہ کو نوٹس لینا ہوگا کیونکہ ملکی کاروبار اس طرح نہیں چلا کرتے کہ سب اپنے اپنے کاموں میں الجھے رہیں اور ملک اتھاہ کھائیوں میں گرتا رہے۔ ہر وہ شخصیت جو اس وقت پاکستان کے حال اور مستقبل کے مفادات سے جان بوجھ کر آنکھیں چرا رہی ہے کل کو آرٹیکل6 کے تحت مجرم گردانی جاسکتی ہے۔ خارجہ امور کمیٹی کے اویس لغاری برملا ایک ٹی وی پروگرام میں کہہ چکے ہیں کہ بھارت کی خارجہ پالیسی پاکستان سے کہیں بلند جا رہی ہے اور ہم اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کر رہے، ہمارے سب لوگ سوئے ہوئے ہیں اور بھارت پاکستان کو کونے میں لگانے میں لگا ہوا ہے۔
ملک میں موجود کسی طاقت کو آگے بڑھنا ہوگا، ضروری ہو چکا ہے کہ وہ ایران سے خصوصی درخواست کرے۔ اگر پھر بھی وہ بھارت کا ساتھ دینے پر مصر رہے تو پاکستان کو اپنے دوست عرب ممالک کو باور کرانا ہوگا کہ بھارت اس وقت دو کشتیوں میں پائوں رکھے ہوئے ہے۔۔۔ ایک طرف ایران ہے اور دوسری جانب سعودی عرب ، قطر اور متحدہ عرب امارات جبکہ موخرالذکر دونوں ممالک کے ایران کے ساتھ چند جزیروں کی ملکیت کے تنازعات عروج پر ہیں۔ دوسری جانب بھارت اس وقت امریکہ کی شہہ پر تخلیق کی جانے والی افغانستان ایران مثلث کا اہم رکن بن چکا ہے اور امریکہ کی خواہش ہے کہ افغانستان میں اپنے مفادات کی دیکھ بھال کے لئے اسے اب ایران اور بھارت پر انحصارکرنا ہو گا اور اگر کل کو کسی بھی وقت ایران کا متحدہ عرب امارات یا سعودی عرب کے ساتھ ٹکرائو ہوتا ہے تو اس صورت میں بھارت ایران کا ساتھ دے گا نہ کہ عرب ممالک کا،اس لئے ان عرب سربراہان کو بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ اور یہ کوئی افسانوی بات نہیں بلکہ تمام حقائق کو سامنے رکھ کر کہہ رہا ہوں کہ اگر یہ ممالک پاکستان اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط اور وسعت دیتے ہیں تو اس سے سوائے طویل اور پائدار بہتری کے کوئی اور نتیجہ نہیں نکلے گا۔ عرب ممالک کے تجزیہ کار اور سفارت کار نہ جانے کیوں بھول رہے ہیں کہ بھارت کبھی کسی مسلمان کا دوست نہیں ہو سکتا۔ جو شخص اپنے ملک میں کسی مسلمان کا وجود برداشت نہیں کرتا وہ ایک مسلم ملک کو پھلتا پھولتا ہو اکیسے دیکھ سکے گا۔ کیا اسی نریندر مودی نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے نئی دہلی، گجرات، ممبئی اور بنگلور میں کھڑے ہو کر یہ نہیں کہا تھا کہ یہ مسلمان جہاں سے آئے ہیں وہاں واپس چلے جائیں۔
پاکستان کو اپنے برادر اور ہمسایہ ملک ایران سے ایک بار نہیں بلکہ بار بار درخواست کرنی ہوگی کہ بھارت کی چاہ بہار میں مستقل موجودگی پاکستان کی سکیورٹی کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔کلبھوشن کی گرفتاری سے حاصل ہونے والی معلومات کے بعد یہ اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔ ایران کی روحانی اور مذہبی قیادت سمیت عوام کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ آکٹوپس کی صفت رکھنے والے بھارت کو اپنے ملک کی حساس تنصیبات اور مقامات سے دور رکھے۔
کیا ایرانی قیادت اورعوام بھول چکے ہیں کہ بھارت اور اسرائیل مسلمانوں کے خلاف قدرتی اتحادی ہیں؟ کیا ایران برداشت کرے گا کہ کل کو بھارت اور اسرائیل باہم مل کر چاہ بہار کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کریں؟ کیا ایران سمجھتا ہے کہ کل کو بھارت اس کے مقابلے میں اسرائیلی مفادات کو رد کر سکے گا؟