میجر علی جواد شہید کے والد بریگیڈیئر خادم حسین چنگیزی سوویت جنگ کے دوران کوئٹہ میں افغان مہاجرین کے پہلے کمشنر تھے اور ان افغان مہاجرین میں دشمن پاکستان حامد کرزئی‘ بریگیڈیئر خادم حسین کے مترجم کے فرائض انجام دیا کرتا تھا۔ اس کے پورے خاندان کو پاکستان نے اپنے دامن میں پناہ دی ہوئی تھی ۔آج ستم ظریفی دیکھئے کہ اس احسان کے بدلے میں کرزئی کے لوگوں نے انہی بریگیڈیئر خادم حسین کے بیٹے کا خون پی لیا۔ طورخم سے شام چھ بج کر پینتالیس منٹ پر میجر علی جواد چنگیزی کو شدید زخمی حالت میں سی ایم ایچ لایا گیا تو ان کا خون اس قدر بہہ چکا تھا کہ سب لوگ ان کی زندگی سے تقریباً مایوس ہو چکے تھے‘ لیکن ڈیوٹی پر موجود سٹاف اور ڈاکٹر یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ میجر چنگیزی اس کے باوجود اپنے ہوش میں تھے‘ جبکہ انہیں دو مہلک ترین زخم پہنچے تھے‘ جن میں سے ایک اس گولی کا تھا جو اُن کے کندھے میں پیوست تھی اور دوسرا اینٹی ایئرکرافٹ گن کے برسٹ کا تھا‘ جو ان کے معدے کے پار ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر میجر چنگیزی کی جرأت اور ہمت پر حیران ہو رہا تھا۔ میجر چنگیزی کو جونہی آپریشن تھیٹر میں پہنچایا گیا تو ان کا ڈاکٹر سے جو پہلا سوال تھا‘ اس نے آپریشن تھیٹر میں موجود تمام لوگوں کو حیران کر کے رکھ دیا۔ انہوں نے ڈاکٹر سے پوچھا: ''روزہ افطار ہو گیا ہے کیونکہ میرا بھی روزہ ہے‘‘ جس پر انہیں بتایا گیا: ''سر اس وقت پونے سات ہوئے ہیں اور روزہ افطار ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی ہے‘‘۔
ڈاکٹر کا یہ جواب سننے کے بعد میجر علی چند لمحے خاموش رہنے کے بعد پوچھا: ''میرے زندہ رہنے کی کوئی امید بھی ہے؟‘‘ اس پر ڈاکٹر نے اپنے چہرے پر پیار بھری مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا: سر آپ کو تو کچھ ہوا ہی نہیں جلد ہی آپ بالکل تندرست ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ان کا خون اس قدر ضائع ہو چکا تھا کہ ان کو لگائی جانے والی خون کی بوتلیں ان کے جسم میں داخل ہونے کے بعد دوسری طرف سے باہر نکل جاتی تھیں۔ جیسے ہی مغرب کی اذان کا وقت ہوا تو آپریشن تھیٹر میں کھڑے ہوئے سینئر ڈاکٹر ان سے مخاطب ہوئے: ''جناب افطاری کا وقت ہو چکا ہے‘‘۔ میجر علی جواد چنگیزی نے ڈاکٹر کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کھجور اٹھا کر منہ میں ڈالی اور پھر چند سیکنڈ بعد دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر شہادت کا مرتبہ حاصل کرتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ میجر علی جواد چنگیزی کی طورخم بارڈر پر اس گیٹ کی تنصیب کے دوران افغان اور بھارتی فوجوں کی جانب سے ہونے والی فائرنگ سے شہادت کا عظیم رتبہ پانے کے صلہ میں طورخم کے اس گیٹ کو شہید میجر علی جواد کے نام منسوب کر دیا گیا ہے۔ اب یہ میجر علی جواد شہید گیٹ کے نام سے لکھا اور پکارا جائے گا۔ جس دن افغان گولہ باری نے میجر علی جواد کو شہید اور پاک فوج کے دوسرے جوانوں اور شہریوں کو زخمی کیا‘ اس کے چند گھنٹوں بعد پاکستان کے بدترین دشمن سابق افغان صدر حامد کرزئی لندن میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی رہائش گاہ پر موجود تھے۔ وہیں بیٹھ کر کرزئی نے بیان جاری کیا کہ پاکستان کی فوج کو بھارت کی افغانستان سے دن بدن بڑھتی ہوئی قربت ہضم نہیں ہو رہی۔ اگر کسی میں ہمت ہے تو اس خبر کی تردید کر دے!!
میجر علی جواد شہید کے نام سے منسوب یہ گیٹ جلال آباد سے 76 کلومیٹر، کابل سے 224 کلومیٹر اور قندھار سے 684 کلومیٹرکے فاصلے پر واقع ہے۔ کل تک کے طورخم بارڈر پر پاکستان کی حدود میں مرکزی گیٹ کی تنصیب پر جب دونوں حکومتوں کے درمیان باہمی رضامندی سے یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ
یکم جون سے اس گیٹ کی تعمیر کے بعد طورخم سے صرف ان لوگوں کو ایک دوسرے کی سرزمین پر آنے جانے کی اجازت ہو گی‘ جن کے پاس باقاعدہ شناخت کے کاغذات موجود ہوں گے۔ جہاں یہ مرکزی گیٹ تعمیر کیا جا رہا تھا‘ اس سے بائیں ہاتھ کی جانب‘ تھوڑا آگے تحصیلدار کا دفتر پہلے سے موجود ہے‘ تو اس کا صاف مطلب ہوا کہ معاملہ گیٹ کا نہیں تھا کیونکہ گیٹ تو تحصیلدار کے دفتر سے بھی پیچھے کی جانب تعمیر کیا جا رہا تھا۔ مطلب اس جارحیت کا اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ بھارت افغانستان کے ذریعے پاکستان کو ڈھکا چھپا پیغام دینا چاہتا تھا‘ اور لگتا ہے کہ پیغامات دو تھے اول: بھارت کے کہنے پر افغان فوج کچھ بھی کر سکتی ہے اور دوسرا اب مشرق کے بعد آپ کی مغربی سرحد بھی محفوظ نہیں ہو گی۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کے ذمہ داروں تک ان کا یہ پیغام پہنچ چکا ہے‘ بجائے اس کے پاکستان میں کہ سیاسی تبدیلی کے خلاف پاکستان کی مشرقی سرحدوں سے دبائو بڑھایا جاتا عیار دشمن نریندر مودی نے افغانستان کا انتخاب کرتے ہوئے ''خصوصی پیغام‘‘ بھیجنا پسند کیا کیونکہ دوسری صورت میں اس کے دوستوں کے چہروں نے بے نقاب ہو جانا تھا لیکن شاید وہ نہیں جانتے کہ یہ چہرے اب بھی بے نقاب ہو چکے ہیں کیونکہ ان کے بارے میں میجر جواد شہید کے وارثان اتنے بھی بے خبر نہیں ہیں۔ اب پاکستان کے لئے انتہائی ضروری ہو چکا ہے کہ 2240 کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد پر ہونے والی نقل و حرکت کو کنٹرول کرے‘ جہاں بھی ضروری ہو وہاں گیٹ نصب کئے جائیں اور باڑ لگانے کے لئے اپنے وسائل بھرپور طریقے سے استعمال کرے۔ افغان فوج اور ان کی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے پاکستانی فورسز پر اچانک بھاری ہتھیاروں کا استعمال اپنے اندر بہت سے پیغامات اور اشارے چھپائے ہوئے ہے۔ افغان عوام کو یہ سوچنا ہو گا کہ پاکستان ان کا دشمن نہیں ہو سکتا، پاکستان کے لئے افغانستان کا امن اتنا ہی ضروری ہے جتنا اس کا اپنے لئے۔ جب بھی کوئی افغانی اپنی تاریخ پر نظر ڈالے گا تو یہ سوال اس کے سامنے ضرور اٹھے گا کہ سولہ لاکھ سے زائد افغان روس کے ہاتھوں ہلاک ہوئے، چار لاکھ کے قریب افغانی امریکہ اور نیٹو کی بھینٹ چڑھے تو ان کا دشمن پاکستان کیسے ہو گیا؟ پاکستان ہمیشہ انہیں پناہ دیتا رہا‘ جب ظاہر شاہ کی حکومت تھی تو ہر سال پائوندوں کے بھیس میں ہزاروں لوگ روزگار کے لئے پاکستان اور خصوصی طور پر پنجاب میں داخل ہو جاتے تھے‘ جہاں ان کا ہر طرح خیال رکھا جاتا تھا۔ مجھے اپنا بچپن کیسے بھول سکتا ہے جب یہ لوگ کھانا مانگنے کے لئے گھر گھر آتے تو ہم انہیں دل کھول کر کھانا دیتے تھے۔ پوری سردیوں میں یہ سلسلہ جاری رہتا تھا۔ تو کیا ان افغانوں کی اولاد گوارا کرے گی کہ ان کے ہمیشہ کے میزبانوں پر گولیاں چلائی جائیں یا ان کو بم دھماکوں میں مارنے والوں کو اپنے پاس پناہ دیں؟ وہ پاکستان جس نے انہیں اور ان کی چالیس لاکھ سے زائد مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کو اپنے پاس پناہ دی جس نے ان کی خاطر اپنے ملک کی سلامتی کو دائو پر لگائے رکھا وہ ان کے دشمن کے دوست بنتے اچھے لگیں گے؟