وہ بات بالآخر زبان پر آ ہی گئی جو سی پیک کی کڑواہٹ سے کچھ لوگوں کو بدمزہ کر رہی تھی۔ میاں محمد نواز شریف کے معتمد خاص محمود خان اچکزئی نے اگل ہی دیا کہ ''خیبر پختونخوا کسی اور کا نہیں بلکہ افغانیوں کاہے۔ کسی تعصب اور سیا سی وابستگی کو ایک جانب رکھتے ہوئے میاں نواز شریف کے سیاسی اور قلمی ساتھیوں کی فہرست کی جانب دیکھیں توایک ہی سوچ اور نظریے کے لوگ ملیں گے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جنرل راحیل شریف ان کا نشانہ کیوں بنے ہوئے ہیں؟ افغانستان ٹائمز کو دیا جانے والا محمود خان اچکزئی کا چند روز پہلے کا انٹرویو ہو سکتا ہے کچھ عجیب سا لگ رہا ہو، لیکن یہ ابتدا نہیں بلکہ ان سب کی منزل کی انتہا کی جانب پیش قدمی ہے۔ نواز لیگ کے اراکین اسمبلی اور انعامات سے فیض یاب ہونے والے دوسرے لوگوں کی عقل کے تالے یہ سن کر ہو سکتا ہے کہ کھل گئے ہوں کہ اچکزئی جیسا ان کے لیڈر کا پارلیمنٹ سے غیر ملکی میڈیا تک ہمنوا پختونستان کا شوشہ چھوڑتے ہوئے نہ جانے کونسی جمہوریت بچانے کی کوششیں کر رہا ہے؟۔ عمران خان کے دھرنے کے دوران نیشنل عوامی پارٹی کے سینیٹر حاجی عدیل کا بولا ہوا وہ فقرہ ابھی تک لوگوں کے کانوں میں گونج رہا ہو گا'' پارلیمنٹ میں آتے ہوئے مجھے ایسے لگا کہ بہادر شاہ ظفر کے محل کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے گھیرا ہوا ہے‘‘ ۔یہ وہ ذہن ہے جو فریب نا تمام میں بیان کی گئی افغانی ٹریننگ اور نتیجے میں ان کے ہاتھوں سے بچھائے ہوئے بارودی مواد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جس دن کسی سچے پاکستانی نے بلوچستان میں افغان مہاجرین کو بنا کر دیئے گئے پاکستانی شناختی کارڈز کے ڈیٹا کی پڑتال کی تو کم از کم ایک لاکھ سے بھی زائد جعلی
شناختی کارڈز کی نشاندہی ہو جائے گی اور یہ سب کارڈز محمود خان اچکزئی کی سفارش اور حکم سے تیار کر کے دیئے گئے اور یہ افغان مہاجرین کوئٹہ سمیت پاکستان بھر میں مختلف اسامیوں پر قابض ہیں جن کے تسلسل کی کسی طور بھی اجا زت نہیں ہونی چاہئے۔۔۔افغان مہاجرین کی میزبانی کا بوجھ جو تیس جون کو ختم ہونے والا تھا ایک بار پھر میاں نواز شریف کے حکم خاص سے 31 دسمبر 2017ء تک پاکستان پر ڈال دیا گیاہے جس پر خیبر پختونخواہ حکومت نے سخت احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ بہت ہو چکا ہمارا چھوٹا صوبہ جس کی پولیس اور وسائل انتہائی مختصر ہیں اور جہاں بیس لاکھ سے زائدافغان مہاجرین کی وجہ سے لاء اینڈ آرڈرکا مسئلہ شہریوں کیلئے وبال جان بن چکا ہے اس سے ہمیں نجات دلائی جائے۔
35 برس بیت گئے لیکن افغان حکومت کئی سالوں سے پاکستان کی بار بار کی درخواستوں اوراحتجاج کے با وجود اپنے ہی ملک کے شہریوں کو جنہیں کرزئی ، اشرف غنی اور عبد اﷲ عبد اﷲ جیسے ہی حقوق حاصل ہیں اپنی ہی سر زمین میں واپس آنے کی اجا زت نہیں دے رہی۔ سمجھ نہیں آتی کہ اسے اپنے ہی شہریوں کو قبول کرنے میں کیا عذر ہے؟۔ پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے چالیس لاکھ کے قریب لوگوں کی نقل و حرکت کو چند ماہ کیلئے تو مانیٹر کیا جا سکتا ہے لیکن35 سال کاعرصہ قوموں کے عروج و زوال کا فیصلہ کر دیتا ہے اور اتنے طویل عرصے تک کوئی بہت بڑی فوج بھی اتنی بڑی تعداد کو مہاجر کیمپوں
میں مانیٹر کرنے کیلئے مقرر کر دی جائے تو پھر بھی کامیابی نا ممکن ہے۔۔۔کیونکہ دنیا میں جنگی کیمپوں میں بند قیدی بھی اتنے سالوں تک قید نہیں رکھے جا سکتے۔ پاکستان میں دہشت گردی اور لا اینڈ آرڈر کا ایک بہت بڑا سبب افغانستان میں روس اور امریکہ، دونوں کی جنگیں رہی ہیں اس کے علا وہ اس سے جنم لینے والے اسلحہ منشیات اور دیگر معاشرتی برائیوں کا پہاڑ الگ سے ہے جس نے پاکستان کی معیشت کے ساتھ نئی نسل کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور پاکستان نے یہ سب سے بڑا رسک اقوام عالم کو دہشت گردی سے محفوظ بنانے کیلئے لیا لیکن چالیس سال گزر جانے کے بعد جب آج ان مہاجرین کو اپنے گھروں میں واپس جانے کا کہا جاتاہے تو ایک شور سا مچ جاتا ہے جیسے پاکستان کسی بین الاقوامی قانون کی شدید ترین خلاف ورزی کا مرتکب ہونے لگا ہے ۔۔۔ محمود خان اچکزئی نے اپنے انٹرویو میں دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے سکیورٹی ا دارے افغان مہاجرین کو تنگ کر رہے ہیں اور اگر انہیں روکا نہ گیا تو ہماری برداشت سے باہر ہو گا‘‘۔ (YANRC) کے نام سے قائم تنظیم کے صدر خواجہ بصیر فطری نے بھی اچکزئی کی طرح کابل کے اخبار''پجھووک‘‘ میں اپنے ایک مضمون میں اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہوئے لکھا کہ پاکستان میں وسیع پیمانے پر سکیورٹی اداروں کی جانب سے افغان مہاجرین کو ہراساں کیا جا رہا ہے جس کا سخت نوٹس لیاجا نا چاہئے۔ محمود خان اچکزئی اور خواجہ بصیر فطری اس قسم کے بے بنیاد الزامات لگانے سے قبل اگر ہائی کمیشن برائے اقوام متحدہ کے چارٹر کا غور سے مطالعہ کر تے ہوئے ان حدود قیود کو بھی سامنے رکھ لیتے جن کا کسی بھی ملک میں پناہ لینے والے مہاجرین کو پابند ہونا پڑتا ہے تو شائد انہیں یہ جھوٹ لکھتے ہوئے اپنے بچے کھچے ضمیر کی بے چینی کا بھی کچھ احساس ہونے لگتا اچکزئی اور خواجہ بصیر فطری کو استعمال کرنے والے ممالک کو بھی یو این او کے اس چارٹر کا مطالعہ کر لینا چاہئے۔ کسی بھی ملک کی حدود میں ویزہ جیسے قانونی جواز کے ساتھ داخل ہونے والے ہر غیر ملکی کیلئے اپنے میزبان ملک کے آئین و قوانین کی پاسداری لازمی ہوتی ہے چاہے اس کا قیام عارضی طور پر ہو یا طویل مدت کیلئے۔ دنیا میں کہیں بھی کسی بھی جگہ اگر کسی ہوٹل یا کرائے کے گھر میں قیام کیا جائے تو اس کیلئے بھی انتظامیہ کی جانب سے مقرر کئے گئے قواعد و ضوابط کی پابندی لازمی ہوتی ہے ان میں ہر قسم کے لوگ شامل ہیں حن میں وہ کمیونسٹ بھی ہیں جو بھارت کا جزو لاینفک سمجھے جاتے ہیں ۔
چالیس سال بعد لاکھوں کی تعداد میں یہ افغان مہاجرین اپنے وطن واپس جانے کی بجائے پاکستان کو ہی اپنی مستقل جائے رہائش بنا ئے بیٹھے ہیں اور ان میں سے کئی لاکھ ایسے ہیں جنہوں نے پاکستان کے مہاجر کیمپوں میں جنم لیا اور اب ان کی دوسری تیسری نسل نے یہیں پر جوان ہو نے کے بعد پاکستان کے ہی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوا رکھے ہیں جو جرم ہے اور ایسے جرائم میں ملوث لوگ کسی رعایت کے مستحق قرار نہیں دیئے جا سکتے اور یہی لوگ اس وقت پاکستان کے ہر ادارے میں ملازمتیں کرنے کے علا وہ اس کی ہر مارکیٹ پر جعلی شنا خت کے ذریعے چھائے ہوئے ہیں بلکہ ٹرانسپورٹ جیسے انتہائی حساس وسائل پر یہ لوگ بلا شرکت غیرے قابض دکھائی دے رہے ہیں۔ گوکہ بہت دیر ہو چکی ہے لیکن موجو دہ حالات کے پیش نظر ان پر نظر رکھنی انتہائی ضروری ہے۔ محمود خان اچکزئی سمیت امریکہ اور خواجہ بصیر فطری کے علم میں یہ تو ضرور ہو گا کہ ہر افغان مہاجر کوپی او آر کارڈ جاری کیا جاتا ہے اور انہیں افغانستان،پاکستان اور اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن کے درمیان طے پانے والے سہ فریقی معاہدے کے تحت پندرہ دسمبر2015ء تک پاکستان میں رہنے کی اجا زت دی گئی تھی جسے اب چھ ماہ گزر نے کے بعد نواز شریف حکومت نے کے پی کے حکومت سے مشورہ کئے بغیر مزید ڈیڑھ سال کیلئے 31دسمبر 2017ء تک بڑھا دیا ہے اگر کسی افغان مہاجر کے پاس پی او آر کارڈ نہیں ہے یا وہ جان بوجھ کر یہ کارڈ بنوانے سے گریز کر رہا ہے تو پھر اقوام متحدہ کا وہ کونسا قانون ہے جو حکومت پاکستان کو مجبور کرتا ہے کہ میاں نواز شریف کے مشیر محمود خان اچکزئی کی دھمکی سے ڈرتے ہوئے انہیں افغان مہاجر تسلیم کرے ؟