''اﷲ سبحانہ‘و تعالیٰ جب کسی انسان کو اپنی بارگاہ میں قبولیت کا درجہ دیتے ہیں تو ساتھ ہی اسے اپنی مخلوق سے محبت و احترام کا رستہ عنایت فرما دیتے ہیں‘‘ اﷲ کے حضور اس شخص کیلئے ہی عزت اور احترام ہو گا جو رنگ و نسل ، رتبہ اور مذہب کی پروا کئے بغیر اس کی مخلوق سے محبت اور احترام سے پیش آئے گا۔ ایسے شخص کو دنیا اور آخرت میں وہ مقام دے دیا جاتا ہے کہ زمانے کی لامتناہی سکرین پر نظر آنے والا ہر شخص اس کا نام سن کر عقیدت سے مسکرا دیتاہے ۔ مدر ٹریسا ہو یا عبد الستار ایدھی جب بھی ان کا ذکر ہو گا محبت اور احترام سے ہو گا۔ کس قدر خوش نصیب ہوتے ہیں یہ لوگ جنہیں ان کی زندگی میں ہی بار گاہ الٰہی میںقبولیت کی سند عطا کر دی جاتی ہے ۔ LRBT ہسپتال ہو یا شوکت خانم کینسر ہسپتال، عبد الستار ایدھی فائونڈیشن ہو یا ڈاکٹر ادیب رضوی ایسے لوگوں کی صورتیں جیسے ہی سامنے آتی ہیں تو آنکھیں بے ساختہ ان کے احترام میں جھک جاتی ہیں پاکستان میں نہ جانے کتنے لوگ ہیں جن کا ذکر بہت ہی کم سننے میں آتا ہے لیکن وہ اپنے اندر بنی نوع انسان کی خدمت کا سمندر لئے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی پاکستان کے ایک مایہ ناز ڈاکٹر حسین احمد خاقان ہیں، جو اﷲ کی مخلوق سے اس طرح پیار کرتے نظر آئیں گے کہ جیسے وہ اپنی اولاد او ر اپنے والدین کا خیال رکھ رہے ہوں جنہیں دولت کے ڈھیروں سے نہیں بے آسرا اور مجبور لوگوں کی مسکراہٹ سے پیار ہے جن کی آنکھوں میں روشنی لانے کیلئے وہ اپنے اﷲ سے اس طرح دوا اور دعا کرتے نظر آتے ہیں جیسے ان کی اس دعا کی بار گاہ الٰہی میں قبولیت ہی ان کا مقصد زندگی ہے؟ ۔
اسی دنیا اسی معاشرے میں جہاں کاروبار حیات میں کسی انسان دوست اور غریب پرور کا نظر آنا نا ممکن ہوتا جا رہا ہے، وہیں پر اگر پانچ
سو سے زائد آنکھوں کی روشنی سے محروم بچوں کیلئے بے لوث خدمات کے عوض روشنی ڈھونڈنے والا مسیحا نظر آ جائے تو لوگ مشکل سے ہی یقین کریں گے لیکن شوکت خانم ہسپتال میں آنکھوں کے کینسر میں مبتلا بچوں سے لے کر لاہور جنرل ہسپتال تک ڈاکٹر حسین احمد خاقان جیسے مسیحا کی ان تھک بھاگ دوڑ کا منظر دیکھنے کے بعدمجبور اور لاچار مریض ان کے پاس آ کر بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں کہ ان کاواسطہ کسی بے زار ڈاکٹرسے نہیں، بلکہ مسیحا سے ہے۔ لاہور جنرل ہسپتال کے شعبہ OPHTHALMOLOGY کے ڈاکٹر حسین احمد خاقان جنہیں ان کے رب نے ذوق خدائی سے اس قدر روشناس کرا رکھا ہے کہ وہ کسی انسان کو تکلیف میں دیکھ کر اس طرح تڑپنے لگتے ہیں جیسے اس درد کا واسطہ ان کی روح اور جسم سے ہے ۔
25 مئی کی رات دس بجے ڈیفنس بھٹہ چوک سے آگے فیز8 کے موڑ پر میرے بیٹے کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کے بارے میں ابھی میں کچھ بتانے یا لکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں لیکن ہو سکتا ہے کہ کسی وقت اس سے پردہ اٹھ جانے سے وہ لوگ سامنے آ جائیں جنہوں نے میرے گھر کی دنیا اندھیر کر دی ہے۔ جب ملزم سامنے آئیں گے تو پھر یہ واردات بھی سامنے آ جائے گی ۔۔۔ ۔ لاہور ڈیفنس کے نیشنل ہسپتال کی ایمر جنسی میں جب جان کنی کی حالت میں میرے بیٹے کو لایا گیا تو وہاں پر ڈاکٹر زاہد کمال صدیقی نے اس کی آنکھ کا میجر آپریشن کیا جوتقریباََ چار گھنٹے سے بھی زیا دہ جا ری رہا اور پھر اس سے اگلے دن ڈاکٹر طارق صلاح الدین نیورو سرجن نے بچے کا دوسرا آپریشن کیا، کوئی ایک ہفتہ بعد وہاں سے ڈسچارج ہونے کے بعد اب بیٹے کیلئےVitreo Retinal کی ضرورت تھی جس کیلئے ہم آسٹریلیا یا امریکہ جانے کا سوچ رہے تھے لیکن اﷲ کے ایک نیک بندے نے جو ہماری طرح ایک کالم نگار ہونے کے علا وہ ایک بہت ہی اچھے آنکھوں کے ڈاکٹر بھی ہیں ان سے متعارف کرا دیا جن کی مہربانی اور محبت نے مجھے ڈاکٹر حسین احمد خاقان تک پہنچا دیا، جو ان کے دوست ہونے کے علا وہ روحانی استاد بھی ہیں۔
کہتے ہیں کہ جب انسان بے بس اور لاچار ہو جاتا ہے تو پھر اﷲ خود اس کی مدد کرنے کیلئے اس کا وسیلہ بنتا ہے اور یہ وسیلہ ظاہر ہے کہ کسی انسانی صورت میں ہی ہمارے قریب آتا ہے۔ ہوا یوں کہ جب میں بہت ہی پریشان ہو گیا تو ایک رات اپنے فیس بک پیج پر مجھے جاوید اقبال ملک کی جانب سے فرینڈ لائیک کرنے کی درخواست آئی، میں نے کوئی خاص توجہ نہ دی لیکن سچی بات یہ ہے جب میں اس درخواست کو نظر انداز کر رہا تھا تو مجھے ایسا لگا کہ کچھ غلطی سی ہو گئی ہے لیکن اپنی دوسری پریشانیوں کی وجہ سے جلد ہی دھیان کسی اور جانب ہو گیا،کیونکہ بڑے بڑے سپیشلسٹ ڈاکٹروں او ر سکہ بند لیبارٹریوں کے چکر پر چکر لگانے کیلئے بار بار کسی نہ کسی جگہ جا نا پڑتا تھا، بلکہ کئی دن تو ایسا ہوا کہ صبح سے رات گئے تک مختلف مقامات پر اپنے پرائیویٹ کلینک چلانے والے تین تین پروفیسرز ڈاکٹروں کے ہاں اپنی باری کے انتظار میں گھنٹوں بیٹھنا پڑتا۔جیسا کہ پہلے بتایا ہے اﷲ جب دیکھتا ہے کہ میری مخلوق پیش آنے والی تکلیف کے سامنے بے بس ہو گئی ہے تو پھر وہ خود آگے بڑھ کر اسباب مہیا کرتا ہے اور تیسرے دن جب جاوید ملک صاحب کی فرینڈ شپ کی درخواست پھر سامنے آئی تو میرا ہاتھ اس درخواست کو کلک کرنے کیلئے بے ساختہ اٹھ گیا اور اس طرح جاوید ملک سے میری ہلکی سے آشنائی ہو گئی اور پھر لمحوں بعد ان کی ایک پوسٹ میرے سامنے لہرائی جس میں وہ تین دوستوں کے ساتھ سیلفی بناتے ہوئے نظر آئے اور ان میں ڈاکٹر خاقان کی صورت میں وہ فرشتہ نما انسان بھی تھے جن کے بارے میں ان کے نام کے ساتھ لکھا ہوا تھا کہ World Leading Retinal Vitreo Doctor ‘‘۔
یہ پوسٹ دیکھتے ہی جاوید ملک سے ڈاکٹر خاقان کا نمبر مانگا جو انہوں نے تھوڑی ہی دیر میں بھیج دیا اور پھر میں نے فیس بک کے ذریعے ملنے والے خدائی وسیلے جاوید ملک صاحب کو اپنے بیٹے کے بارے میں تفصیل لکھ دی، جس پر انہوں نے ڈاکٹرخاقان سے بات
کرنے کے بعد مجھے ان سے فون پر رابطہ کرنے کو کہا۔ بہت ہی جھجکتے ہوئے میں نے انہیں فون کیا تو ان کے لہجے کی نرمی اور اپنائیت نے مجھے حوصلہ دیا اور میں نے ان سے اپنے بیٹے کے بارے میں بات کی تو وہ کہنے لگے کہ جاوید مجھے آپ کے بیٹے کے بارے میں بتا چکے ہیں۔ کل جنرل ہسپتال میں میرے پاس لے آئیں۔۔۔اور جب اگلے دن میں جنرل ہسپتال کے آئی وارڈ کیOPD پہنچا تو مریضوں کی تعداد دیکھ کر مجھے ایسا لگا کہ کسی دوردراز دیہی علا قے کے سرکاری پرائمری سکول میں آگیا ہوں، کیونکہ بے ترتیب لباس اور میلے کچیلے بچوں اور ان کے والدین کی بہت بڑی تعداد وہاں موجود تھی اور مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ ان میں سے ہر ایک کو کسی نہ کسی جاوید ملک نے بھیجا ہے کیونکہ ڈاکٹر خاقان ہر مریض کو اس طرح توجہ سے دیکھ رہے تھے لگتا تھا کہ ان کا کوئی بہت ہی قریبی عزیز ہے ۔مجھے حیرانی ہوئی کہ دنیا کے چوٹی کے چند ڈاکٹروں میں سے ایک جسے چین میں ہونے والی ایک کانفرنس میں ایشیا کے سب سے بڑے ایوارڈ سے نوازا گیا‘ جسے دنیا بھر کے ہسپتال منہ مانگے معاوضے پر اپنے پاس بلانے کو منتیں کر رہے ہوں، وہ ان میلے کچیلے اور پسینے کی بد بو سے نچڑے ہوئے پاکستانیوں کے ساتھ کس طرح ہنس کھیل رہے ہیں۔ان سے پوچھا آپ کو اپنے مریضوں اور ان کے لواحقین کے رویئے سے شکوہ بھی ہوا ہے؟ تو ڈاکٹر خاقان ہنس کر کہنے لگے لوگ ہمیشہ شکوہ کرتے ہیںکہ آج کل نیکی کا زمانہ نہیں رہا، دراصل ایسا کہنے والے اپنی نیکیوں یا احسان کا بدلہ چاہتے ہیں، ورنہ جو لوگ صرف اﷲ کی رضا کیلئے نیکی کرتے ہیں ان کیلئے ہر زمانہ نیکی کا ہے‘‘۔۔۔۔!!