وہ تو گزشتہ گیارہ سالوں سے بھارت، زمبابوے، آسٹریلیا، فلپائن اور نائجیریا سمیت مختلف ملکوں کے چودہ قیدیوں کے ہمراہ انڈونیشیا کی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہا تھا۔ اس عرصۂ قید میں تین سال کا وہ عرصہ بھی شامل ہے جس میں مسلم لیگ (ن) حکمران رہی۔ اس لئے کسی کو یہ بتانے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ مسلم لیگ ن کو مرکز میں اقتدار سنبھالے ہوئے تین سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور ان تین سالوں میں انڈونیشیا میں پاکستانی سفارت خانے اور کسی بھی قونصلیٹ کو یہ توفیق نہ ہو سکی کہ وہ پاکستان کے ذوالفقار نامی شہری کے بارے میں حکومت انڈونیشیا سے معلوم کر سکے کہ اسے کیوں اور کس جرم میں قید میں رکھا جا رہا ہے ؟۔ قطع نظراس سے کہ پاکستان کے اس شہری پر کیا الزام لگایا گیا ہے اوراس میں صداقت ہے بھی یا یہ سب کچھ کسی غلط فہمی یا جھوٹ پر مبنی ہے، اپنے کسی بھی شہری کے حقوق کی نگہداشت‘ کسی بھی ملک میں بسنے والے یا وہاں کسی کام کی غرض سے آنے والے پاکستانیوں کی دیکھ بھال سفارت خانوں کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔کیا انڈونیشیا میں پاکستان کے سفارت کاروں، جن کے نام سے اب بڑی بڑی خبریں لگائی جا رہی ہیں‘ نے کبھی بھی کسی بھی وقت کسی بھی ذریعے سے وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ کو ذوالفقار نامی اس پاکستانی شہری اور اس کے جرم کے بارے میں تحریری طور پر آگاہ کرنے کی کوشش کی تھی؟ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو پھر اس کوتاہی کا ذمہ دار کون ہے؟۔ اگر ذوالفقار کا خاندان لاہور کے مال روڈ پر آ کر دھرنا نہ دیتااورپاکستان بھر کا
میڈیا اسے اپنی شہ سرخیوں اور بریکنگ نیوز کی زینت نہ بناتا تو بے گناہ ذوالفقار علی یقینا اب تک انڈونیشیا کی پولیس کے فائرنگ اسکواڈ کی گولیوں کا نشانہ بن چکا ہوتا۔ وہ توخدائے بزرگ و برتر کا کرم ہے کہ یہ معاملہ اس قدر ہائی لائٹ ہوا کہ ہر گھر میں ذوالفقار علی کیلئے دعائیں کی جانے لگیں اور پھر کہا گیا کہ صدر پاکستان ممنون حسین نے اندونیشیا کے سفیر کے ذریعے صدر انڈونیشیا سے رابطہ کرتے ہوئے ان کو ذوالفقار علی کو پھانسی نہ دینے کا خط پہنچایا، جس پر حکومت انڈونیشیا نے ذوالفقار علی کی سزائے موت عین وقت پر ملتوی کر تے ہوئے اس کے مقدمے کی نئے سرے سے تحقیقات اور سماعت کیلئے ایک انکوائری کمیشن تشکیل دے دیاہے۔
جیسے ہی ذوالفقار کی پھانسی کی سزا ملتوی ہونے کی خبر آئی‘ اس کے خاندان کے مرجھائے ہوئے چہرے‘یک لخت کھل اٹھے۔ میڈیا نے ذوالفقار کے گھر کے افراد کو سجدہ شکر بجا لاتے اورحکومت پاکستان اور میڈیا کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے دکھایا۔۔۔وہ خوشی کیوں نہ مناتے؟ ان کے بھائی اور بیٹے، جس کی سزائے موت پر عملدر آمد کو ایک گھنٹہ سے بھی کم وقت رہ گیا تھا‘ انڈونیشی صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے حکم سے ان کی جان بچ گئی تھی۔ پاکستانی شہری ذوالفقار علی کے ساتھ کچھ دوسرے ممالک کے شہریوں کی سزائے موت بھی اندونیشی صدر کے حکم سے ملتوی کر دی گئی ہے ۔ان میں بھارت کے شہر سہارن پور کا 48 سالہ گردیپ سنگھ عرف وشال بھی شامل ہے جس پر2004ء میں انڈونیشیا میں400 گرام ہیروئین سمگل کرنے کا الزام تھا اور اسی گردیپ سنگھ نے ذوالفقار علی نامی پاکستانی شہری پر ہیروئین دینے کا الزام لگایا اور جب2005ء میں اسے پہلے بیس سال قید اور بعد میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تو اس نے جیل میں تسلیم کر لیا کہ ذوالفقار علی پر اس نے اس نیت سے جھوٹا الزام لگایا تھا کہ اس کی سزا میں کمی ہو جائے۔ یورپی یونین، ہیومن رائٹس‘ نریندر مودی انڈونیشی صدر کے فون پر جب گردیپ سنگھ عرف وشال کی سزائے موت ملتوی کر نے کا فیصلہ ہو رہا تھا تو انڈونیشین اٹارنی جنرل نے رائے دی کہ گردیپ سنگھ عرف وشال جس کی سزائے موت کو بھارتی حکومت کے دبائو پر ملتوی کیا جا رہا ہے‘ اسی کی گواہی پر تو پاکستان کے شہری ذوالفقار علی کو سزائے موت سنائی گئی ہے ۔اگر گردیپ سنگھ کی سزائے موت ملتوی کی جاتی ہے تو اس کی گواہی کی زد میںآنے والے کو بھی یہ رعایت ملنی چاہئے۔۔۔۔یہ ہے ذوالفقار علی کی سزائے موت ملتوی کیے جانے کی اصل حقیقت ‘جسے پاکستان کا میڈیا بھی بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے اور یہ سب کچھ پاکستان میں ذوالفقار علی کی سزائے موت کی خبر کے چند منٹوں بعد مسلم لیگ ن کے میڈیا سیل کی ایک ٹویٹ کی صورت میں اس طرح سامنے آنا شروع ہوگیاجس سے ایسا لگا کہ یہ سب چودہ افراد صرف اور صرف انہی کی وجہ سے بچنے میں کامیاب ہوسکے ہیں۔
کیا بھارت سمیت دنیا کے دوسرے پانچ ممالک جن کے شہریوں کی سزائے موت ذوالفقار علی کے ساتھ ملتوی کی گئی ہے‘ وہاں کے وزیر اعظم یا ان کے خاندان کے کسی فرد کی جانب سے کوئی دعویٰ دیکھنے یا سننے کو آیا ہے کہ یہ سب ہماری وجہ سے ہی ممکن ہو سکا ہے؟ جیسے ہی ذوالفقار علی کی سزائے موت ملتوی ہونے کی خبر پاکستان کے میڈیا کی زینت بنی تو چند ہی منٹوں بعد وزیر اعظم ہائوس کے میڈیا سیل کی جانب سے ایک ٹویٹ ہر ٹیلی ویژن چینل پر بریکنگ نیوز بن کر چمکنے لگا جس میں بتایا گیا کہ یہ سب کچھ وزیر اعظم نواز شریف کی کوششوں کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے اور وزیر اعظم ہر وقت عوام کے درد کو محسوس کرتے ہوئے ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر ہی حکومت کے سفارت خانے عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار رہتے ہیں۔شاید اسی لئے چار سو سے بھی زیا دہ مجبور اور لاچار پاکستانی سعودیہ میں دہائیاں دے رہے ہیں کہ کوئی اﷲ کا بندۂ کوئی حکمران آ کر انہیں بچائے لیکن پانچ ماہ سے بھی زیا دہ عرصے سے چیختے چلاتے ہوئے ان غریب مزدور اوور سیز پاکستانیوں کیلئے کوئی ایک قدم بھی نہیں اٹھا رہا ‘ لیکن ذوالفقار کے معاملے پر جاری ٹویٹ کم از کم دو گھنٹے تک تمام ٹی وی چینلز پر ہر چند سیکنڈ بعد مسلسل دکھایا جاتا رہا ہے، جس سے یہی تاثر دیا جاتا رہا کہ یہ سب ہماری وجہ سے ممکن ہوا ہے۔
وزیر اعظم ہائوس کے میڈیا سیل کو شاید پاکستانی سفارت کاروں نے یہ نہیں بتایا کیا کہ انڈونیشیا کی جیلوں میں بند ان چودہ افراد کی سزائے موت کے فیئر ٹرائل کیلئے ایمنٹسی انٹرنیشنل، یورپی یونین اور ہیومن رائٹس نے انڈونیشی وزیر خارجہ اور صدر کو اس پر براہ راست مداخلت کرنے کی اپیل کی تھی اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور سشما سوراج نے انڈونیشی صدر اور وزیر خارجہ سے فون پر بات کرتے ہوئے اپنے شہری گردیپ سنگھ عرف وشال کی سزائے موت ملتوی کرنے کی ان الفاظ میں اپیل کی تھی'' ہم بار بار آپ سے گردیپ سنگھ کے مقدمے کے فیئر ٹرائل کی درخواست کرتے رہے ہیں‘ اس لئے ہمارے کسی بھی شہری کو ناجائز سزائے موت دیئے جانے کو پسند نہیں کریں گے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ گردیپ سنگھ کے معاملے میںسزائے موت پر عملدرآمد سے پہلے تمام قانونی تقاضے پورے کیے جائیں۔