بلوچستان ہائیکورٹ بار کے صدر بلال انور کاسی کو جن دہشت گردوں نے گھر سے ہائیکورٹ جاتے ہوئے فائرنگ کرکے شہید کیا انہیں یقین تھا کہ انہیں زخمی یا شہید دونوں صورتوں میں سول ہسپتال لے جایا جائے گا۔ تفتیشی اداروں کو یہ نکتہ سامنے رکھنا ہو گا کہ بد قسمتی سے انور کاسی شہید کو دہشت گردوں کے پہلے سے سوچے ہوئے پلان کے مطابق سول ہسپتال لے جایا گیا، ورنہ اس قدر کم وقفے میں خود کش بمبار پوری تیاری کے ساتھ وہاں پہنچنے میں کیسے کامیاب ہوا، جہاں وکلا اپنے لیڈرکے شدید زخمی ہونے کی اطلاع ملنے پر بھاری تعداد میں پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔ یہ بات بھی سامنے رکھیں کہ ٹی وی پر جاری ہونے والی رپورٹ کے مطا بق خود کش بمبار نے آٹھ سے نو کلو کی خود کش جیکٹ پہنی ہوئی تھی اور جو تباہی دیکھنے میں آئی اس سے بھی یہی محسوس ہوا کہ اتنی بڑی تباہی کے لیے بہت زیادہ تباہ کن بارودی مواد تیار کیا گیا تھا۔ اس تفتیشی نکتے کو سامنے رکھا جائے کہ کیا یہ سب کسی باقاعدہ پروگرام کا حصہ تو نہیں تھا کیونکہ یہ کوئی راز نہیں کہ سول ہسپتال کوئٹہ میں تو بنیا دی ادویات اور جدید ترین سہولتیں بھی کم کم دستیاب ہوتی ہیں۔ بلوچستان ہائیکورٹ بار کے صدر جیسی اہم شخصیت کوشدید زخمی ہونے پر سی ایم ایچ لے جایا جانا چاہئے تھا جہاں بہترین علاج کے علاوہ سکیورٹی بھی سخت ہوتی ہے۔ دہشت گردوں کے لیے وہاں خود کش بمبار بھیجنا مشکل ہو جاتا۔
اگر گزشتہ پانچ برسوں سے پاکستان کے یوم آزادی کی مناسبت سے ماہ اگست کو سامنے رکھیں تو 'را‘ نے اسی مہینے میں ہی اپنے دہشت گردوں کے ذریعے درجنوں معصوم جانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ 8 اگست 2013ء کا دن سب کو یاد ہوگا جب ایک ڈی ایس پی کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا اور پھر پولیس لائن میں اس کی نماز جنازہ کے دوران دہشت گردوں نے خود کش دھماکہ کر دیا۔ 2014ء کا اگست بھی یاد کیجیے جب دہشت گردوں نے بسوں میں سوار پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کو اتار کر اور قطار میں کھڑا کر کے ان کے جسموں کو کلاشنکوفوں کے برسٹ مار کر چھلنی کر دیا۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کوئٹہ کے دل دوز سانحہ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ''دہشت گردوں نے خیبر پختونخوا میں شکست کھانے کے بعد اب کوئٹہ کا رخ کر لیا ہے‘‘۔ فوج اپنے کسی بھی آپریشن میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک اسے وہاں کی سول آبادی کا بھر پور تعاون حاصل نہ ہو۔ کے پی کے میں فوج کی بھر پور کامیابی وہاں کی پولیس اور انتظامیہ کی مکمل مدد اور تعاون سے ہی ممکن ہوئی۔ وہاں کی حکومت نے کسی بھی مدرسے اور کسی بھی مذہبی گروہ کو آنے والے انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لئے اپنے شفقت بھرے حصار میں نہیں لیا۔ بد قسمتی سے باقی تینوں صوبوں میں وہاں کے حکمرانوں اور ان کے خاندانوں نے اپنی عوامی طاقت بڑھانے، اپنے سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے اور خاندانی بادشاہت کی راہ میں آنے والے سیاسی چیلنچ کو دبانے کے لئے پولیس کو گھر کی لونڈی کی طرح استعمال کیا اور ساتھ ہی کسی نے کسی انتہا پسند فرقے اور مذہبی گروہ کی حمایت بھی جاری رکھی۔ عوام ایسے گروہوں سے بے خبر نہیں بلکہ انہیں اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہیں۔ اگر پنجاب حکومت سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کو ملتان سے اغوا کیے جانے کے بعد فیصل آباد میں ڈیڑھ ماہ تک رکھے جانے کی تحقیقات کرتی تو شاید ملک میں دہشت گردی میں کچھ کمی ہو جاتی۔ یہ کون لوگ تھے اور یہ کون سی جگہ تھی جہاں مغوی کو رکھا گیا؟ اور کیا اغوا کاروں کو کسی حکومتی شخصیت کی بھی پشت پناہی حاصل تھی؟
اسلام آباد میں سارک ممالک کے وزرائے داخلہ کی کانفرنس میں جب چوہدری نثار علی خان نے کشمیر میں آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والوں کو فریڈم فائٹر کہا تو بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ واک آئوٹ کرتے ہوئے واپس بھارت چلے گئے۔ اسی دن دارالحکومت میں بیٹھے ہوئے ایک بھارت نواز اینکر نے ٹی وی چینل پر سوال اٹھایا کہ '' اگر کشمیری فریڈم فائٹر ہیں تو بلوچستان میں آزادی کے لئے جد وجہد کرنے والے دہشت گرد کیسے ہو سکتے ہیں؟‘‘ اس پر نیپرا حرکت میں آئی نہ ملک کا کوئی قانون نافذ کرنے والا ادارہ! کیا اس پروگرام اور پیغام کے ذریعے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی؟ کیا اس اینکر کو کشمیر اور بلوچستان کے بارے میں حقائق کا کوئی علم نہیں؟
یہ کالم لکھتے ہوئے بلوچستان کابینہ کے ایک وزیر سردار حامد اچکزئی کے الفاظ پگھلے ہوئے سیسے کی طرح کانوں میں پڑے کہ ''بلوچستان کا آج کا یہ سانحہ عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہے‘‘۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے مشیر اعلیٰ محمود خان اچکزئی کا بھائی جو خیر سے جمہوریت کے طفیل بلوچستان کی کابینہ میں وزیر کے عہدے پر برا جمان ہے، کس طرح ٹیلی ویژن چینلز پر بھارت اور افغانستان کی وکالت کر رہا ہے۔ ٹی وی چینل کے اینکر اور اچکزئی کی ہرزہ سرائی کے بعد بھارت کو اپنی صفائی میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی کیونکہ ان کے نمائندگان نے پہلے ہی اپنے فرائض ادا کر دیے ہیں۔
کوئٹہ کا یہ دلدوز سانحہ نے جس میں اس وقت تک 71 پاکستانی شہید ہو چکے ہیں ہر محب وطن پاکستانی کو غم و اندوہ کی تیرہ و تار گھاٹی میں اتار دیا ہے۔ دہشت گردوں کے حامیوں کو جمہوریت سے کوئی غرض نہیں۔ دہشت گردوں کی نر سریوں کو بے تحاشا فنڈز مہیا کرنے والی ملکی اور بین الاقوامی طاقتوں کو واضح پیغام دیا جانا چاہیے کہ بس بہت ہو چکا، آپ اپنی وہ امداد اپنے پاس ہی رکھیں جس سے ہمارا ایک فرقہ دوسرے کا گلہ کاٹنا شروع کر دے۔ امریکہ کے وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے نئی دہلی کے ہوائی اڈے سے باہر نکلتے ہوئے میڈیا سے گفتگو کرنے دوران پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ''پاکستان نے اگر ممبئی جیسی کوئی حرکت کی تو ہم بھارت کو پاکستان پر حملہ کرنے سے نہیں روک سکیں گے‘‘۔ اور اس کے چند دن بعد یہی الفاظ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم گورڈن برائون نے بھارت کے تین روزہ دورے کے دوران کہے تھے اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے۔ یہ دونوں طاقتیں وقفے وقفے سے یاد دہانی کراتے رہتی ہیں کہ دیکھو! اگر کوئی تمہاری ٹانگ توڑ دے خاموش رہنا۔۔۔تمہارا سر پھٹ جائے یا کوئی پیٹ پھاڑ دے تب بھی خاموش رہنا۔۔۔کوئی تمہارے بچوں کو مار دے، تمہارے بھائیوں کو ذبح کر دے یا تمہارے گھر والوں کو گولیوں اور بموں سے اڑا دے تو تم خاموش رہنا۔۔۔کسی قسم کی حرکت نہ کرنا۔ اگر تم نے ہمارے دوست کی جانب سے کی جانے والی کسی کارروائی پر اس کے خلاف ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی یا تم نے اس کے گھر کے باہر گھومتے ہوئے اس کے خاندان کے کسی فرد کو ہلکا سا تھپڑ بھی مارا تو پھر ہم اس کا ساتھ دیں گے نہ کہ تمہارا۔ یاد رکھو، ہم تمہیں وارننگ دے رہے ہیں کہ خاموشی سے مار کھاتے جائو، لاشیں دفناتے جائو اور جتنا دل چاہے ماتم کرتے رہو لیکن اس سے آگے اگر ایک قدم بھی بڑھایا تو ہم تمہاری دہشت گردی کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کریں گے۔