"MABC" (space) message & send to 7575

عمران کی ریلی اور پولیس جیپ

جیسے ہی عمران خان اور قادری صاحب کی ریلیوں کے اعلانات ہوئے تو حسب معمول مرکزی حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کے لاہور داخلے کا الرٹ جاری کر دیا گیا ا ور اس بار تو پولیس کے ایک ڈی ایس پی کی جیپ کسی افغانی دہشت گرد کے ہاتھوں چرائے جانے کی ویڈیو ز کی بھر مار کر دی گئی تاکہ ہر ایک کو یقین ہو جائے کہ آج باہر نکلنے والوں کی خیر نہیں، حکومتی حربے اپنی جگہ پر لیکن تحریک انصاف کی تین ستمبر کی ریلی کے روٹ کا شاہدرہ موڑ سے آغاز کرنے کا فیصلہ ہی انتہائی غلط اور نا مناسب تھا اور پھر اس کے چیئر نگ کراس پر اختتام کو حماقت ہی کہا جا سکتا ہے۔
تین ستمبر کے گرم موسم اور حبس کے بارے میں تحریک انصاف کے فیصلہ سازوں کو گوگل اور انٹر نیٹ کے ذریعے یقینا پہلے سے آگاہی ہو نی چاہئے تھی تو پھر اس کے با وجود یہ مشورہ کس نے دیا کہ اس قدر طویل روٹ کا انتخاب کیا جائے جسے اس ریلی میں شریک ہونے والوں میں سے کسی نے بھی اپنے طور بھی درست قرار نہیں دیا کیونکہ جب تحریک انصاف کی یہ ریلی چیئرنگ کراس تک پہنچی تو اس کے شرکاء کی تعداد جس سے عمران خان خطاب کر رہے تھے انتہائی مایوس کن حد تک کم ہو چکی تھی۔ شاہدرہ موڑ جہاں پر باہر سے ریلی میں شریک ہونے والوں کے دو بجے سے ہی پہنچنا شروع ہو گئے تھے، ان کیلئے اگلے دس گھنٹوں تک سست رفتاری سے پیدل چلتے ہوئے ہوئے بھوک اور پیاس برداشت کرنا مشکل سے مشکل تر ہو چکا تھا جبکہ بے پناہ ہجوم کی وجہ سے حبس اور گرم موسم علیحدہ سے قیا مت ڈھا رہے تھے ۔ شاہدرہ تک ریلی میں شرکت کے لئے سیالکوٹ، گوجرانوالہ، نارووال ، فیصل آباد ، شیخوپورہ اور ننکانہ صاحب سے آنے والے قافلے واپس جانا شروع ہو گئے تھے۔ ملتان روڈ سے آنے والے قافلوں کو کینال روڈ سے فیروز پور اور چائنا چوک تک جانے کی اجا زت مل رہی تھی اور یہ سب لوگ قرطبہ چوک سے پیدل چلتے ہوئے ریلی تک پہنچنے پر مجبور تھے۔ 
پنجاب حکومت اور پولیس نے ریلی میں شرکت کیلئے آنے والوں کو موسم کی گرمی اور حبس سے مزید نڈھال کرنے کیلئے ریلی کے کسی بھی مقام سے شامل ہونے کیلئے کم ازکم ایک اور دو کلو میٹر دور بڑے بڑے کنٹینر لگا کر روکنے کا بندو بست کر رکھا تھا۔ مثال کے طور پر شادمان اور جیل روڈسے آنے والے قافلوں کو چائنا چوک پر جہازی سائز کا کنٹینر کھڑا کر کے روکا گیا تھا اور اس کی پابندی اس قدر سخت کر رکھی تھی کہ سروس ہسپتال اور کارڈیالوجی ہسپتال تک جانے والے کسی ایک مریض کی گاڑی حتیٰ کہ ایمبولینس کو بھی گزرنے کی اجا زت نہیں دی جا رہی تھی۔ اب اندازہ کیجئے کہ اس گرمی میں شرکت کیلئے آنے والوں کو چائنا چوک سے بھاٹی گیٹ یا ریگل چوک جانے کیلئے کتنا سفر طے کرنا پڑا ہو گا اور اس پر تحریک انصاف کی انتظامی کمیٹی کی نا اہلی دیکھئے کہ چیئر نگ کراس سے ریگل چوک تک کہیں بھی پینے کے پانی کا بند وبست نظر نہیں آ رہا تھا ۔ اب اگر اپنی تصویریں بنوانے والے اور خود کو عمران خان کے سامنے رونمائی کرانے والے جگہ جگہ پینے کے پانی کا بند وبست کرتے یا پھر انتظامیہ کی جگہ جگہ نا جائز رکا وٹوں کو کم کرانے کی کوشش کرتے تو یہ رونمائی کا شوق پورا کرانے سے کئی گنا زیادہ بہتر ہوتا؟۔ اگر تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی اور پارٹی کے دوسرے ذمہ داران پولیس کے ان ناکوں کی پابندیوں کو نرم کرانے کی کوشش کرتے تو یہ تعداد کہیں زیا دہ ہو جانی تھی کیونکہ ریلی کے شرکاء کی تعداد کے بارے میں جس قسم کے مذاق اس وقت حکومتی وزرا ء کر رہے ہیں ان کے بارے میں عمران خان کا با خبر ہونا لازمی ہے۔
اگر انتظامی کمیٹی میں تحریک کی مقبولیت کو عوام کے سامنے لانے والے مخلص اور سمجھ دار لوگ ہوتے تو اس وقت لاہور کے ہر وارڈ سے الیکشن میں حصہ لینے والے چیئر مین اور کونسلرز کی تعداد اگر 400 کے قریب سمجھ لی جائے اور عمران خان کی جانب سے ان سب کو یہ ہدایات دی جاتیں کہ ہر چیئر مین اور کونسلر اپنے ساتھ پچاس افراد لے کر آئیں گے اور ہر ایم این اے اور صوبائی امیدوار اپنے ساتھ پانچ سو افراد لانے کے پابند ہوں گے تو صرف لاہور اور اس سے ملحقہ اضلاع سے تیس ہزار سے زائد لوگ اس ریلی میں شریک ہونے تھے۔۔۔۔کیا عمران خان آئندہ اپنے کسی بھی لائحہ عمل کیلئے اس تجویز کو اپنے سامنے رکھیں گے؟۔
اب یہ تو عمران خان اور تحریک انصاف کی قیا دت ہی بتا سکتی ہے کہ شاہدرہ چوک سے ریلی کا آغاز کرنے میں کیا مصلحت تھی اور یہ مشورہ کس نے دیا تھا کیونکہ اگر تحریک انصاف نے اپنی اس تین ستمبر کی ریلی کا روٹ شاہدرہ چوک کی بجائے دربار داتا گنج بخشؒ سے ہائیکورٹ چوک تک ہی محدود رکھا ہوتا تو شرکاء کی تعداد کے بارے میں کسی کو انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں ہونی تھی اور اگر داتا دربار سے ریلی کا آغاز نماز مغرب کے فوری بعد کیا ہوتا تو ہزاروں کی تعداد میں وہ لوگ جودوسرے شہروں سے شرکت کیلئے آئے ہوئے تھے، وہ صبح ہونے سے پہلے ریلی کو درمیان میں ہی چھوڑ کر واپس نہ بھاگتے اوروہ وکلاء اور مقامی شہری پانچ گھنٹوں سے بھی زائد ہائیکورٹ چوک پر رات دس گیارہ بجے تک کے طویل انتظار کے بعد گھروں کو واپس جانے کی بجائے اس ریلی کی رونق بنتے اور چیئر نگ کراس، ریگل چوک پر وقفے وقفے سے جمع ہونے والے ہزاروں لوگ گرمی اور پیاس سے تنگ آنے کی بجائے جی پی او چوک کی رونق بنتے۔
شاہدرہ سے پانچ بجے کے قریب روانہ ہونے والے عمران خان کے کنٹینر کو چیئرنگ کراس تک پہنچتے پہنچتے رات کا ڈیڑھ بج چکاتھا۔ اب اندازہ کیجئے کہ اس وقت تک کتنے لوگ موجود رہ سکتے تھے اور میرے سمیت میڈیا کے بہت سے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ ابھی عمران خان کا خطاب جاری تھا کہ ان کی جماعت کے بڑے بڑے لیڈران اپنی بڑی بڑی گاڑیوں میں واپس جا نا شروع ہو گئے ۔ یہ ہے تحریک انصاف کی تنظیم کی ابتر صورت حال اور ساتھ ہی ان کا اپنی قیا دت پر ایمان اور یقین کا معیار کیونکہ یہ بات کہنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ جس کارکن اور عہدیدار کو اپنے قائد کی عزت اور وقار کا احساس نہیں وہ اس جماعت اور گروپ کا نہ تو دل سے وفادار ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی اپنی جماعت سے وابستگی پختہ ہوتی ہے اور یہ وہ بوجھ ہوتا جو کشتیوں کو بیچ منجدھار کے چھوڑ جایا کرتا ہے۔
یہ منا ظر میرے جیسے لوگوں نے ہی نہیں بلکہ میڈیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھے کہ شاہدرہ سے بھاٹی چوک تک ریلی کے شرکاء کی تعداد متا ثر کن رہی، تب بھی کئی اہم لیڈران بڑی بڑی بھر پور ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں بیٹھے قافلے کے ساتھ چل رہے تھے ۔۔۔۔اور کارکن کئی کئی میل پیدل چلتے ہوئے حبس اور گرمی کامقابلہ کرتے ہوئے عمران خان کے ہم رکاب چل رہے تھے۔بہت سے لیڈران ایسے بھی تھے جو عمران کے کنٹینر کے ساتھ کچھ عرصہ کیلئے پیدل اتر کر چلتے اور وقفے وقفے سے کنٹینر پر موجود قیا دت کو ہاتھ ہلاتے اور سیلفیاں بنا کر فیس بک پر اپ لوڈ کرتے ہوئے اپنی حاضریاں دکھا کر ساتھیوں سمیت غائب ہوتے رہے۔۔۔اﷲ کرے کہ عمران خان کی ریلی سے بارہ گھنٹے قبل پولیس کی چوری ہوجانے والی جیپ جلد از جلد برآمد ہو جائے آمین...!! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں