گزشتہ دنوںبلوچستان کی جن دو خبروں کی جانب توجہ مرکوز رہی ان میں سے ایک سردار اکبر بگٹی (مرحوم) کی برسی پر صوبہ بھر میں ہڑتال اور دوسری گوادر سمیت بلوچستان کے مختلف مقامات پر سکیورٹی فورسز اور شہریوں پر دہشت گردوں کے حملے تھے جن میں 9 افراد شہید اور پانچ افراد زخمی ہوئے۔ برسی پر ہڑتال اور حملے کوئٹہ میں 56 وکلا کے قتل عام کے بعد کئے گئے۔ ان حملوں کی ذمہ داری براہمداغ بگٹی اور ہربیار مری کے گٹھ جوڑ نے بڑے فخر سے قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دہشت گردی کی کارروائیاں سردار اکبر بگٹی کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے کئے گئے۔
27 اگست کو بلوچستان اسمبلی نے متفقہ طور پر الطاف حسین کی پاکستان کے بارے میں راشٹریہ شیوک سنگھ کی زبان بولنے کے خلاف مذمتی قرار داد منظور کی لیکن جس چیز کا پاکستان کے ہر فرد کو دکھ ہے، وہ بلوچستان میں 26 اگست کو اکبر بگٹی کی برسی پر کی جانے والی عام ہڑتال ہے۔ یہ ہڑتال اس کے با وجود کی گئی کہ برہمداغ بگٹی اور باہر بیٹھے مری سرداروں نے کوئٹہ میں 30 وکلا سمیت 56 افراد کے بہیمانہ قتل عام کی ذمہ داری قبول کی؛ حالانکہ کلبھوشن یادیو کے اعتراف اور نریندر مودی کی لال قلعہ دہلی میں 15اگست کی تقریر نے ثابت کر دیا کہ براہمداغ بگٹی، مری سردار اور تحریک طالبان پاکستان کا سرپرست بھارت اور را کے سوا کوئی نہیں ہے۔
بلوچستان اسمبلی کی قرارداد سر آنکھوں پر لیکن صوبہ بھر میں بگٹی کی برسی کی آڑ میں ہڑتال کرنے والوں کو کھلی چھٹی دینے سے اس قرارداد کی کوئی وقعت نہیں رہ جاتی کیونکہ اس ہڑتال سے نریندر مودی اور الطاف حسین کے یہ مقاصد پورے ہوئے کہ بلوچ عوام پاکستان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ اگر بلوچ سرداروں سمیت ارکان بلوچستان اسمبلی یہ قرار داد منظور کرنے سے ایک دن پہلے اپنے اپنے حلقوں میں ہڑتال پر اکسانے والوں کے خلاف میدان میں اترتے اور تاجروں، دکانداروں کو باور کراتے کہ ہڑتال کے پیچھے سردار بگٹی کی برسی نہیں بلکہ پس پردہ وکلاکو دہشت گردی کا نشانہ بنانے والے چانکیہ کے چیلوں کا ہاتھ ہے تو یہ ہڑتال یقیناًََ ناکام ہو جاتی۔ اگر ہڑتال جزوی ہوتی تب بھی دہشت گردوںکوبڑا دھچکا لگتا اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے کہ اب انہیں سیاسی اور سماجی مدد حاصل نہیں رہی، لیکن مکمل ہڑتال نے ان کے حوصلے بلند کر دیے۔ ہڑتا کی کامیابی کی ذمہ داری بلوچستان کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ،بلدیاتی اداروںکے ارکان اور سول سوسائٹی پر عائد ہو تی ہے۔
بلوچستان کی مقامی پولیس اور مرکز کی خفیہ اور اطلاعاتی ایجنسیوں کو عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانے اور انہیں قائل کرنے کے لئے بہت پہلے کام کرنا چاہیے تھا لیکن شاید دوسری بہت سی سخت ڈیوٹیوں کی وجہ سے وہ اس طرف دھیان نہیں دے سکے۔ اس پر ہمارے تھنک ٹینکس (اگر ہیں) تو انہیں اس معاملے پر بھر پور توجہ دینی ہوگی کیونکہ اس طرح کی ہڑتالوں سے پاکستان کے دشمن دو مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ بین الاقوامی طور پر بلوچستان کی تحریک کو اجاگر کرنا اور اپنے دہشت گردوں کا مورال بلند کرنے کے ساتھ ساتھ مزید نوجوانوں کو علیحدگی کی تحریک کا حصہ بنانا۔ بلوچستان کے وکلا کی ہڑتال کو 36 روز سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ یہ وکلا بلوچستان کے ماتھے کا جھومر تھے، اس کا حسن تھے۔ آج ہائیکورٹ بار میں قدم رکھیں تو ایسے لگتا ہے کسی نے اس جھومرکو نوچ کر پھینک دیا ہے۔
بہت ہو چکا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بلوچستان کی تمام تاجر تنظیموں اور کاروباری شخصیات اور بچے کھچے وکلا مل بیٹھ کر فیصلہ کرنا کریں کہ وہ بلوچستان سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ کرتے ہوئے صوبے میں مکمل امن و امان قائم کر کے رہیں گے اور ان دہشت گردوں کا خاتمہ کر کے رہیں گے جو آئے روز کے چھوٹے بڑے بم دھماکوں سے اس دھرتی کو دہشت گردوں کی نرسری بنانا چاہتے ہیں۔ 26 اگست کو بلوچستان بھر میں تمام دکانداروں، تاجروں اور کاروباری حضرات کی جانب سے کی جانے والی ہڑتال سے بظاہر دہشت گردوں کو یہ پیغام دے گئی ہے کہ تم لوگ جو کچھ کر رہے ہو ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔ تم اور تمہارے ساتھیوں بلوچستان کے شہریوںکو ہلاک کیا، اس پر ہمیں کوئی افسوس نہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہڑتال کرنے اور کرانے والے تاجر درپردہ وکلا کو قتل کرنے والوں کے ہمدرد اور دوست ثابت ہونے کا تاثر دے رہے تھے۔
یہ ایک بہت ہی تلخ سوال ہو سکتا ہے، شاید یہ بلوچستان کے بھائیوں کو برا لگے کہ اگر بلوچستان لبریشن آرمی جیسی دہشت گرد تنظیموں کے اکسانے پر صوبہ بھر میں ہڑتالیں کی جاتی رہیں تو کیا باہر بیٹھے ہوئے یہ ملک دشمن عناصر دنیاکو یہ باور نہیںکرائیں گے کہ ہمیں ناحق ملک سے نکالنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ہماری اپیل پر کی جانے والی ہڑتالیں دیکھ لو، یہ سب عوام ہمارے ساتھی ہیں۔ بلوچستان کا ہر چھوٹا بڑا تاجر جس کا پاکستان کے بڑے شہروں سے کاروباری رابطہ رہتا ہے، وہ انہیں کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ کیا یہی کہ ان کی ہمدردیاں ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو ملک کی سکیورٹی فورسزکو قتل کرتے ہیں، ان کی ہمدردیاں ان سے ہیں جو پنجابی اور پشتونوں کو بسوں سے اتار کر کلاشنکوفوں سے فائرنگ کر کے قتل کرتے رہتے ہیں اور جو درجنوں وکلاکو قتل اور اپاہج کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ بلوچستان کے تاجروں کو شاید علم نہیں ہو سکاکہ ان کی جانب سے سردار اکبر بگٹی کی برسی پر کی جانے والی ہڑتال نے ایک ایک شہید وکیل کی روح اور ان کے سوگوار خاندانوںکو گہرے زخم پہنچائے ہیں۔
آج مجھے علی احمد کرد اور ڈاکٹر مالک سے بھی پوچھنا ہے کہ حضور والا! اگر آپ فائرنگ اور خود کش حملے کرنے والوں کے ساتھیوں کے کہنے پر ہڑتال نہیں رکوا سکے تو پھر قتل ہونے والے56 وکلا کی میتوں پرآنسو کیوں بہاتے ہو؟