راجہ رنجیت سنگھ کی حکومت تھی‘ اور جیسا کہ سب جانتے ہیں‘ یہ حکومت کیا تھی سکھا شاہی تھی۔ اسی سکھا شاہی دور کا ایک قصہ مشہور ہے کہ راجہ کے آبائی گائوں کا فاقوں کے ہاتھوں بری طرح نڈھال ایک غریب آدمی اپنا واحد بغیر پھٹا لباس پہنے ایک دن رنجیت سنگھ کے دربار میں حاضر ہوا اور اس سے مدد کی درخواست کی۔ راجہ نے‘ جو کسی درباری کے ساتھ مشورے میں مصروف تھا‘ اس کی فریاد سن کر ایک اچٹتی سی نظر اس پر ڈالی اور بولا ''جا دھس جا‘‘۔ وہ غریب فرشی سلام بجا لا کر دربار سے نکلا اور ارد گرد کے کمروں کی جانب دیکھنا شروع ہو گیا۔ جلد ہی اسے ایک کمرے میں ایک خالی کرسی نظر آئی‘ جو دراصل کسی مجسٹریٹ کی تھی۔ مجسٹریٹ کسی کام سے باہر نکلا تھا۔ وہ فوراً اس کرسی پر جا بیٹھا۔ جب اہلکاروں نے اسے بتایا کہ یہ فلاں کی کرسی ہے تو اس نے یہ کہہ کر سب کو چپ کرا دیا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے انہیں حکم دیا ہے کہ ''دھس جا‘‘ اس لئے میں راجہ کے حکم سے یہاں ہوں۔ کس کی مجال تھی کہ راجہ کے پاس جا کر اس سے اس کے حکم کے بارے پوچھتا۔ جب اصلی والا مجسٹریٹ کمرے میں آیا تو کسی اور کو کرسی پر دیکھ کر حیران ہوا۔ اہل کاروں نے اسے راجہ کے حکم سے آگاہ کیا تو وہ خاموشی سے واپس چلا گیا کہ راجہ رنجیت سنگھ کے آگے دم مارنے کی اس کی کیا مجال۔ کافی عرصے بعد ایک دن راجہ رنجیت سنگھ اپنی ریاست کی عدالتوں اور دفتروں کا معائنہ کرتے کرتے اس کمرے میں آیا تو کرسی پر اس شخص کو بیٹھا ہوا دیکھ کر حیران ہوا اور پوچھا: ''اوئے تُوں ایتھے؟‘‘ اس پر غریب شخص نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا: حضور! آپ نے کہا تھا ''دھس جا‘‘ تو میں یہاں دھس گیا ہوں۔ یہ سن کر رنجیت سنگھ نے زبردست قہقہہ لگایا اور پھر بولا: ''چل ہُن ایتھے ہی دھسیا رہو‘‘ (اب تم خود کو پکے سمجھو)۔ 82 سالہ سعیدالزماں صدیقی کو سندھ کا گورنر کیا مقرر گیا‘ ہر جانب ایک طوفان مچ گیا۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی ان کی پیرانہ سالی اور کوئی ان کی آئے روز ناساز رہنے والی طبیعت کے دکھڑے لے بیٹھا‘ لیکن جس بات کا سارے قصے میں ہی ذکر نہیں‘ وہ یہ ہے کہ اس تقرری سے‘ در پردہ ''ہر ایک‘‘ کو پیغام دے دیا گیا ہے کہ ''ساڈے نال رہو گے تے عیش کرو گے‘‘ اور یہ تو کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ ''جمہوریت‘‘ کا ساتھ دیتے والے‘ چاہے وہ جانے والے ہوں یا ان کی جگہ آنے والے‘ زندگی کے ہر موڑ پر‘ چاہے وہ ملک کے اندر رہنا پسند فرمائیں یا ملک سے کہیں باہر‘ سارے مزے کیش کر رہے ہیں۔ ایسی پیرانہ سالی کا شکار گورنر‘ جو چند قدم بھی اپنی مرضی سے نہ اٹھا سکے اور مملکت کا سربراہ‘ جو ایک لفظ بھی اپنی مرضی سے نہ کہہ سکے ''جمہوریت‘‘ کے دور میں ہی دیکھنے اور سننے میں آتا ہے۔ جمہوریت کا حسن اپنے اندر اس قدر کشش رکھتا ہے کہ اس کے جادو میں کھو کر مولانا فضل الرحمان ہوں یا بلاول سمیت خورشید شاہ، اچکزئی ہوں یا اسفند یار ولی خان‘ سندھ کے گورنر کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ ایک ایسا صوبہ‘ جہاں دنیا بھر کی
خطرناک اور دہشت گرد تنظیمیں اپنے پنجے گاڑنے میں مصروف ہوں‘ جہاں دشمن ممالک کے ایجنٹ امن عامہ کو تباہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ‘ وہاں کا آئینی سربراہ ایسے شخص کو مقرر کرنا جو بدقسمتی سے اپنی مرضی اور ہمت سے دو قدم چلنا تو درکنار اپنے ہاتھ میں پکڑائے گئے قلم کو بھی نہ سنبھال سکے‘ بہت سے شکوک و شبہات کو جنم نہیں دیتا؟ ایسی نوازشات پر کسی کم علم کو پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔ وطن عزیز کو اپنی تاریخ میں نوازشات اور احسانات کے بدلے اتارتے ہوئے ابھی نہ جانے کیا کیا کمالات دیکھنے کو ملنے ہیں‘ جس پر تاریخ اپنا فیصلہ کرے گی۔ مقرر کئے گئے صدور یا گورنروں نے اپنے سابق اور موجودہ فرائض کس طرح انجام دیے کہ ان پر انہونی نوازشات کی بارشیں کر دی گئیں۔ کیا انہوں نے انصاف کے ترازو 'میزان‘ کو سنبھال کر رکھا یا اسے اپنی یا کسی کی مرضی اور خوشنودی کے لئے جدھر اس طاقتور نے کہا‘ جھکا دیا؟ کیونکہ کرسیء انصاف پر بیٹھی ہوئی کوئی بھی ہستی کسی بھی جماعت‘ فرقے یا گروہ اور قوم کے سامنے نہیں بلکہ سچائی کے خدا کے سامنے جوبداہ ہو کر رہے گی۔
نئی نسل شاید سندھ میں مقرر کئے گئے نئے گورنر کے شاندار کارناموں سے بے خبر ہو کہ دسمبر 1997ء میں جب ملک کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور ملک کے وزیر اعظم کے درمیان آئین اور قانون کی ایک خلیج پیدا ہونا شروع ہو گئی تو ایک صبح کوئٹہ کے دو رکنی بنچ نے‘ جس کی سربراہی سعیدالزمان صدیقی کر رہے تھے‘ اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ سجاد علی شاہ کی سنیارٹی ماننے سے انکار کرتے ہوئے ان کے خلاف چند منٹ پہلے داخل کی گئی رٹ پٹیشن پر فیصلہ سنا دیا کہ وہ اب چیف جسٹس نہیں رہے... اور یہ فیصلہ افراتفری میں کسی دوسرے فریق کو نوٹس دیئے بغیر اس طرح سنایا گیا کہ متاثرہ شخص کو اس کی کانوں کان تک خبر نہ ہو سکے۔
بارہ اکتوبر کو جنرل مشرف کے سری لنکا سے کراچی آنے والے طیارے کے آپریشن کی نگرانی کرنے والے اس وقت سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس رانا مقبول احمد خان کی جانب دیکھیں تو ریٹائرمنٹ کے بعد گزشتہ کئی برسوں سے انہیں پنجاب کا پراسیکیوٹر جنرل لگایا ہوا ہے اور ایک انہی پر بس نہیں‘ نہ جانے پنجاب اور مرکز میں عدل کے ترازو کے ایک جانب بیٹھ کر شریف برادران کی خدمات انجام دینے والے کتنے بڑے بڑے باریش بزرگ مختلف سرکاری اداروں کی سربراہی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ایک عہدہ ختم ہوتا ہے تو فوراًَ انہیں کسی دوسرے عہدے سے بالکل اسی طرح نواز دیا جاتا ہے۔
جون 2013ء کے بعد اسلام آباد کی مرکزی حکومت نے ملک کے اعلیٰ ترین عہدے جس طرح بانٹے‘ اس سے لگتا ہی نہیں کہ ملک میں کوئی آئینی یا قانونی حکومت ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے یہاں پر شاہ کی زبان سے جو لفظ نکلے وہ حکم بن جاتا ہے اپنے ایک محترم کو پہلے اسلام آباد کا میئر اور پھر سی ڈی اے کا چیئرمین بنا کر دائیں بائیں بیٹھی ہوئی بڑی بڑی منصف گاہوں کو پیغام دے دیا کہ میں جو چاہوں کروں‘ مجھے کوئی روکنے والا نہیں‘ مجھے کوئی بھی ٹوکنے والا نہیں... کیونکہ یہ جمہوریت کا حسن ہے اور جمہوریت کی بات ہوئی ہے تو ابھی کل ہی چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے سائرہ افضل تارڑ کو ایوان میں جنرل مشرف کا یہ کہتے ہوئے نام لینے سے روک دیا کہ ایک فوجی آمر کا یہاں ذکر مت کریں، سنا ہے کہ جمہوریت میں آزادی رائے کا حق بھی ہوتا ہے تو اس حق کو استعمال کرتے ہوئے ربانی صاحب سے پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ کیا اس فوجی آمر کو وردی سمیت دس بار منتخب کرانے کی باتیں کرنے والے شخص کو اپنا ڈپٹی وزیر اعظم قبول کرنا جائز ہے؟