"MABC" (space) message & send to 7575

گرد سے اَٹی اینٹیں

آصف علی زرداری 23 دسمبر کو پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کی بار بار یاترا اور وہاں کے طاقتور حلقوں سے رازو نیاز کے بعد ان کی آمد سے کس قسم کے نئے رنگ کھلتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن نئے آرمی چیف سے فون کال کے ذریعے نام وپیام سے لگتا ہے کہ '' گر د سے اٹی ہوئی اینٹیں بھی صاف ہو چکی ہیں ‘‘۔ زرداری صاحب کی آمد اور پی پی کو مرکز میں پانچ اور سندھ میں حکومت کرتے ہوئے 8 سال سے زائد کا عرصہ ہو نے کو ہے ان سالوں میں پی پی اور عوام نے کیا کھویا اور کیا پایا سب کے سامنے ہے ۔ 
محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کو چند دن باقی ہیں۔۔۔۔لیکن ایک ایسی بات ایک ایسا انٹرویو مجھے کبھی کبھی حیران کر کے رکھ دیتا ہے جو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر تا ہے لیکن پھر ایک چپ سے لگ جاتی ہے ، نہ جانے کیوں ؟۔ بارہ برس قبل دسمبر 2004ء میںجناب زرداری نے فیصلہ کر لیا تھا کہ آنے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کر نے کے باوجود سب جماعتوں پر مشتمل قومی حکومت بنائے گی تو لوگ اس پر یقین نہیں کریں گے۔27 دسمبر کی شام لیاقت باغ راولپنڈی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی پراسرار شہادت پر جنرل مشرف اور آصف علی زرداری کوعلیحدہ علیحدہ محترمہ کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر محترمہ بے نظیر بھٹو زندہ رہتیں تو زرداری صاحب کا اقتدار میں آنا نا ممکن تھا کیونکہ محترمہ کی جانب سے فیصلہ ہو چکا تھا کہ ان کی وزارت عظمیٰ کے دوران وہ کسی طور بھی وزارت عظمیٰ اور وزیر اعظم ہائوس کے معاملات میں شامل نہیں کئے جائیں گے لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو کے اچانک منظرسے ہٹنے کے بعد آصف علی زرداری کیلئے تمام راستے صاف ہو گئے اور پھر میثاق جمہوریت کے '' دوستوں‘‘ کے ذریعے پروپیگنڈا کرایا گیا کہ بی بی کے قتل کی وجہ سے ہی آصف زرداری کو کرسی ملی ہے ۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔12 برس قبل دسمبر2004ء کا انگریزی ماہنامہ ہیرالڈ دیکھیں تواس کے سر ورق پر جناب آصف علی زرداری کی تصویر کے نیچے لکھا ہوا ہے ''PAKISTAN's FAVOURITE JAILBIRD SEEKS A ROLE FOR HIMSELF''َ َ ۔ اب اس انگریزی ماہنامے کے صفحہ51 پر آصف علی زرداری کے بارے میں یہ بھی لکھا ہوا ہے ''Meanwhile specluation is rife that Zardari may become the Prime Minister as the head of a National Government. ۔۔۔ کیا یہ انٹرویو اور اس کے اقتباسات حیران کن نہیں۔۔۔ ۔ایک بات ذہن میں رکھئے کہ ہیرالڈ اسی اخباری گروپ سے تعلق رکھتا ہے جس کے اخبار نے سیرل المیڈا والی مشہور زمانہ ڈان لیکس سٹوری فائل کی ہے۔۔۔۔ کچھ عجیب سا نہیں لگ رہاکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پاکستان واپس آنے سے چار سال قبل جناب زرداری کی زیر قیا دت قومی طرز کی حکومت کی خبریں دی جا رہی تھیں جو محترمہ کی شہا دت کے بعد اس طرح سچ ثابت ہوئیں کہ اس میں نوا زلیگ اور ق لیگ دونوں شامل تھیں؟ دسمبر2004 ء کے ہیرالڈ کو دیئے گئے نٹرویو میں آصف علی زرداری سے پوچھا گیا '' آپ کہہ رہے ہیں کہ پی پی پی اگر دو تہائی اکثریت سے بھی آنے والے انتخابات میں کامیاب ہو تی ہے تو پھر بھی وہ قومی حکومت بنائے گی ۔۔۔آپ یہ فیصلہ کیسے کر رہے ہیں کیا آپ کا یہ فیصلہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور پی پی پی کو منظور ہو گا؟۔۔اب یہ اہم ترین نکتہ بھی اپنے مد نظر رکھئے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے درمیان میثاق جمہوریت مئی2006 ء میں طے پاتا ہے اور یہ انٹرویو اس سے دو سال قبل دیا جا رہا ہے اور جدہ کے سرور پیلس میں ان دونوں سیا سی خاندانوں کی ملاقات کا بھی کہیں دور دور تک تصور نہیں تھا ۔ دسمبر 2004 ہیرالڈ کے صفحہ 56 پر آصف علی زرداری ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں ''WE NEED TO CREATE NATIONAL CONSENSUS IN ORDER TO COPE IN THE POST-9/11 WORLD.IT IS A MONUMENTAL TASK. 
۔۔۔۔ شائد یہی وجہ تھی کہ جب نواز شریف نے جماعت اسلامی ، تحریک انصاف سمیت دوسری جماعتوں کے ساتھ 2008 ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو یہ آصف علی زرداری ہی تھے جنہوں نے نواز شریف کو ان انتخابات میں حصہ لینے پرآمادہ کیا۔۔۔ اس میں تو رتی بھر بھی شک نہیںکہ نومبر2004 ء میں جناب زرداری کی8 سالہ قید سے رہائی پس پردہ ان بین الاقوامی ایجنڈوں کی تکمیل کی یقین دہانیوں کی مرہون منت ہے جن کی گرد کا بھی پاکستانی عوام کی غالب اکثریت کو آج تک علم نہیں؟۔جولائی2006 ء میںجنرل مشرف اورمن موہن سنگھ کی مرضی سے کشمیر پر بیک چینل مذاکرات جب نتیجہ خیز ثابت ہونے لگے تو ''بھارتی اسٹیبلشمنٹ‘‘ نے اسے روکنے کیلئے کانگریس کی حکومت کے ساتھ وہی حربہ استعمال کیا جو وہ آگرہ میں اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ کر چکے تھے انڈین اسٹیبلشمنٹ نے کہا'' کارگل میں بھارتی فوج کو دنیا بھر میں رسوا کرانے والے پاکستانی جرنیل سے کشمیر اور سیاچن پر کوئی تصفیہ نہ کیا جائے کیونکہ اس سے جنرل مشرف ایک بار پھر فاتح بن جائے گا اور بھارتی فوج اس کی فتح کو اپنی تذلیل سمجھے گی جس سے بھارتی فوج کے مورال پر بھی برا اثر پڑے گا‘‘ اس وقت کانگریس کی صدر محترمہ سونیا گاندھی نے اپنی رضامندی ظاہر کرتے ہوئے واضح پیغام دے دیا کہ وہ کشمیر پر تصفیہ کیلئے ان کے تجویز کردہ ایجنڈے سے تو متفق ہے لیکن ان کی جماعت کانگریس کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کی موجودہ فوجی حکومت کی بجائے جمہوری حکومت کے ساتھ بیٹھ کر اس کا اعلان کرنا پسند کرے گی ،یہی وجہ تھی کہ جب آصف علی زرداری بطور صدر پاکستان حلف اٹھا رہے تھے تو حامد کرزئی کو خصوصی طور پر مدعو کیاگیا اور اسی تقریب میں آصف علی زرداری نے حلف لینے کے بعد بطور صدر پاکستان میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا '' بہت جلد کشمیر کا مسئلہ حل ہونے کی خوش خبری دیتا ہوں‘‘( اسی تقریب میں شرکت کرتے ہوئے کرزئی نے میڈیا سے کہا کدھر ہے وہ کمانڈو مشرف۔۔۔یاد رہے کہ جنرل مشرف نے برسلز میں پاکستان پر الزام تراشیوں پر اسے بے نقط سنائی تھیں )۔امریکی اور برطانوی خفیہ ایجنسیوں اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ جو افغان طالبان کے ساتھ مشرف کے نرم رویہ کی وجہ سے پہلے ہی پریشان تھیں انہوں نے فیصلہ کیا کہ کشمیر پر اپنا ایجنڈا نافذ کرنے کیلئے جنرل مشرف کو اب فارغ کر دینا چاہئے لیکن اس کیلئے جنرل ضیا الحق والا طریقہ مناسب نہ سمجھا گیا اور اس کی جگہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد جیسا ایجی ٹیشن والا طریقہ اختیار کرنے کا فیصلہ ہواجس کیلئے انہیں نظام مصطفیٰ جیسے کسی ایسے نعرے، یا ایشو کی تلاش تھی جس پر پاکستانیوں کے جذبات سے کھیلا جا سکے ۔۔۔۔ اس کیلئے سی آئی اے نے ڈالروں کی بولیاںکھولنے کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنے میڈیا مینیجرز کو الرٹ کر دیا اور پھر ہفت روزہ اکانومسٹ ‘‘ نے اپنے صفحہ اول پر MR.MUSHARRAF TIME IS UP لکھتے ہوئے پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کو ''GO AHEAD'' کا اشارہ کر دیا ''اور ان کی مدد کیلئے شوکت عزیزاور جنرل مشرف کے ایک بہت ہی'' قریبی ساتھی اور ہمسائے ‘‘نے باہم عدلیہ آزادی کی تحریک چلا نے کی راہ ہموار کر دی اور پھر تمام میڈیا ہائوسز سر سے پائوں تک جنرل مشرف کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ۔۔۔۔جنرل مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو جب این آر او طے کررہے تھے تو سی آئی اے اور ایم آئی سکس کے ساتھ ساتھ تقدیر کھڑی ہوئی دونوں پر علیحدہ علیحدہ ہنس رہی تھی ۔۔۔۔افسوس یہ دونوں ذہین لیڈر امریکی سی آئی اے کی چالوں کے سامنے مات کھا گئے ایک سیا سی تو دوسرا جسمانی طور پر ...!! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں