کوئی پانچ بج کر بیس منٹ پر الفلاح بینک مال روڈ کی طرف جانے کیلئے جیسے ہی باہر نکلنے لگا تو میراچار سالہ پوتا رایان حیران کن طور پر میرا راستہ روک کر کہنے لگا کہ آپ کو باہر نہیں جانے دوں گا۔ میں ہنستے ہوئے گھر کے بیرونی دروازے کی جانب بڑھا تو وہ میرے سامنے کھڑا ہو گیا تاکہ گزر نہ سکوں ۔میں حیران تھا کہ آج اسے کیا ہوا ہے اس سے پہلے ساتھ جانے کی ضد تو کرتا تھا لیکن اس طرح راستہ بلاک کبھی نہیں کیا تھا، اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ کسی صورت مان ہی نہیں رہا تھا۔ اس نے ضد شروع کر دی کہ گیراج میں اس کے ساتھ فٹ بال کھیلوں مجبوراََ مجھے اس کے ساتھ فٹ بال کھیلنا پڑا۔ پھر اس نے اپنی سائیکل پکڑی اور مجھے ساتھ ساتھ بھاگنے کیلئے آوازیں دینی شروع کر دیں اپنے پوتے کی اس خواہش کے سامنے بھی ہتھیار ڈالنے پڑے جب وہ سائیکل چلا کر تھک گیا تو کہنے لگا کہ اب ہم دوڑ لگائیں گے کوئی د س منٹ تک اس کے حکم پر عمل کرنا پڑا ۔قصہ مختصر کوئی پون گھنٹے کے بعد اس نے مجھے جانے کی بمشکل اجا زت دے دی تو میں چیئرنگ کراس کی جانب چل پڑا جہاں کیمسٹ ایسوسی ایشن کے لوگوں نے ہڑتال اور دھرنے کیلئے آنا تھا ۔
شوکت خانم سے نہر سے ہوتا ہوا جیل روڈ سے لارنس روڈ پر چڑیا گھر کی جانب سے سول لائن کی طرف جانے والی سڑک پر مڑنے لگا تو وارڈنز نے اس سڑک کو بند کیا ہوا تھا اور تین چار ٹریفک وارڈن کسی کو بھی ا س طرف سے گزرنے کی ا جا زت نہیں دے رہے تھے۔ نہ جانے کیا معاملہ تھا اتنا تو پتہ تھا کہ ایک تو وزیر اعلیٰ پنجاب نے چھ بجے کے قریب لاہور کے میئرز اور ڈپٹی میئرز سے 90 شاہراہ قائد اعظم پر خطاب کرنا تھا تو دوسرا کیمسٹ ایسوسی ایشن کے نمائندوں ، دکانداروں اور ادویہ ساز فیکٹریوں والوں کی ہڑتال اور دھرنا تھا۔جیسے ہی گنگا رام سے ہوتا ہوا میں سول لائن کے قریب پہنچا تو وہاں ایک کہرام سا مچا ہوا تھا چاروں جانب چیخ و پکار کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے لارنس روڈ کی عقبی سڑک سے نقی مارکیٹ پہنچا تو پہلی خبر ہی یہ ملی کہ کیپٹن مبین شہید ہو چکے ہیں۔۔۔یہ سنتے ہی ایسا لگا کہ کسی نے میرا دل اپنی مٹھی میں لے کر زور سے بھینچ دیا ہے۔ کافی دیر تک سمجھ ہی نہ آئی کہ یہ کون کہہ رہا ہے اور کیا ہو گیا ہے۔ چاروں جانب پولیس اور لوگوں کی بھاگ دوڑ میں کچھ بھی سجھائی نہیں دے رہا تھا۔
حواس کچھ بحال ہوئے تو دیکھا کہ چیئر نگ کراس کی جانب چیخ و پکار سے ایک قیا مت کا سما ںتھا، لوگ مختلف حصوں میں ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے۔۔۔اور میں سوچ رہا تھا کہ اگر میرا پوتا رایان علی مجھے روکتے ہوئے میرے راستے میں نہ بیٹھ جاتا اور پھر مجھے اپنے ساتھ کھیلنے اور دوڑنے کیلئے نہ روتا تو شائد میرے جسم کے ٹکڑے بھی ادھر ہی کہیں بکھرے ہوئے ہوتے ۔میرے چار سالہ پوتے نے مجھے کبھی بھی اس طرح نہیں روکا تھا اور اگر میں اپنے پروگرام کے مطا بق گھر سے نکلتا تو چیئرنگ کراس پہنچنے کے بعد ہو ہی نہیں سکتا تھاکہ کیپٹن مبین کے پاس نہ پہنچتا یا اگر وہ مجھے اپنے دراز قد ہونے کی وجہ سے دیکھ لیتے تو اپنے پاس اشارے سے نہ بلاتے اور یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ چیئرنگ کراس پر ان کی موجو دگی تک ان کے پاس نہ رہتا۔۔۔۔تو کیا میرا چار سالہ پوتا اس دن میرے لئے فرشتہ بن کر میرے قدموں کو جکڑے بیٹھا تھا؟۔
کیپٹن مبین کی جائے شہا دت سے رات گئے جب بوجھل قدموں سے گھر واپس لوٹا تو بچے بھی پریشان تھے کیونکہ وہ میرے اور کیپٹن مبین شہید کے تعلقات سے واقف تھے۔ پورا گھر سوگوار تھا رات گئے تک ان کی ہی باتیں ہوتی رہیں۔ 2009ء میں میرے بڑے بیٹے علی نور کی کنٹری گالف کلب میں ولیمہ کی تقریب تھی جس میں کیپٹن مبین سمیت اپنے بہت سے دوسرے دوستوں کو مدعو کیا ہوا تھا۔ ولیمہ کی شام ساڑھے آٹھ بجے جیسے ہی ہم گالف کنٹری کلب ہال کے دروازے سے اترے تو کیپٹن مبین تیزی سے میری جانب بڑھے مجھے گلے سے لگاتے ہوئے انہوں نے مبارکباددیتے ہوئے کہا ،بلوچ صاحب میرا آج کراچی جانے کیلئے شام ساڑھے چھ بجے کا ٹکٹ تھا جسے صرف آپ کیلئے میں نے کینسل کروا کر 9 بجے کا ٹکٹ کرایا ہے اور یہاں سے میں سیدھا ایئر پورٹ جا رہا ہوں آپ کا انتظار کرر ہا تھا پلیز میری طرف سے نہ رکنے کی معذرت قبول فرمائیں بے شک مبین یاروں کا یار تھا ۔
کیپٹن مبین کی المناک موت نے ساری رات مجھے سونے نہ دیا ہروقت ان کا مسکراتا ہوا مہربان چہرہ آنکھوں کے سامنے گھومتا رہا میرا پوتا رایان علی نور سویا ہوا تھا اور میں سوچتا رہا کہ خدا کے کام بھی نرالے ہیں اگلے دن صبح اٹھا تو اپنے پوتے کے بارے میں اپنے بچوں کو بتا یا تو وہاں ایک اور ہی داستان کا سامنا کرنا پڑا۔۔۔میرا سب سے چھوٹا بیٹا جو ایک تیل کمپنی میں کام کرتا ہے13 فروری کی شام جیسے ہی ڈرائیور کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی جانب روانہ ہوا جین مندر کے قریب وارڈن نے انہیںروک کر بتایا کہ آپ لٹن روڈ کی جانب سے نہیں جا سکیں گے کیونکہ وہاں پر رکشا والوں کے جلوس اور دھرنے کی وجہ سے پوری سڑک بلاک ہے۔ ڈرائیور نے گاڑی کا رخ مال روڈ کی جانب کر دیا جہاں سے انہیں گورنر ہائوس سے ہوتے ہوئے نہر کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ہسپتال سے شوکت خانم کی جانب پہنچتا تھا ابھی وہ چیئرنگ کراس سے کچھ پیچھے ہی تھے کہ انہیں پتہ چلا کہ گورنر ہائوس سے ٹریفک کو بند کر دیاگیا ہے جس پر وہ چیئرنگ کراس سے اپنی بائیں جانب اسمبلی ہال کی جانب مڑنے لگے تو گاڑی میں بیٹھے ہوئے میرے بیٹے شمروز نے چیئرنگ کراس پر کیپٹن مبین کو لوگوں کے درمیان کھڑے دیکھا جو اس وقت شائد ان ہڑتالیوں سے بات چیت کر رہے تھے، جنہوں نے چوک کو بلاک کیا ہوا تھا ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اتر کر انکل مبین سے سلام دعا کرے لیکن پیچھے سے کچھ گاڑیوں کے بار بار ہارن دینے پر ڈرائیور نے جلدی سے گاڑی کا رخ اپنے بائیں ہاتھ اسمبلی ہال کی جانب موڑ دیااور ابھی وہ اسمبلی ہال کے پاس سے گزر ے ہی تھے کہ ایک زور دار آواز سے ان کی گاڑی ہل کر رہ گئی بڑی مشکل سے انہوں نے گاڑی کو کنٹرول کیا حواس بحال ہونے پر انہوں نے ادھر ادھر دیکھا تو پیچھے آسمان کی جانب اٹھتا ہوا دھویں کا ایک بادل اور ہولناک قسم کی چیخ و پکار تھی تھا جس نے میرے بہت ہی مہربان اور انسان دوست کیپٹن مبین کی جان لے لی۔۔۔۔لیکن ایک بات جو میڈیا اور پولیس اافسران کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ہڑتالی کیمسٹ کے مطا لبات ماننے یا نہ ماننے کا اختیار کیا کیپٹن مبین کے پاس تھا؟۔ کیا مذاکرات کے لئے ذمہ داری کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کو نہیں سونپی جانی چاہیے تھی؟صوبائی وزیر محکمہ صحت کہاں تھے؟ کیا یہ درست ہے کہ وزیر قانون رانا ثنا اﷲ کو ہڑتالیوں سے مذاکرات کیلئے پہنچنا تھا تو پھر کیا وجہ ہوئی کہ پنجاب کے سب سے با خبر اور طاقتور وزیر کی بجائے ٹریفک کے ڈی آئی جی کو مذاکرات کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔۔۔۔کیا حکومتی سطح کے فیصلے اور یقین دہانیاں ایک پولیس افسر کرا سکتا ہے؟