بھارت کی طرح ہمیں بھی اپنی ترجیحات بدلنا ہوںگی۔ بیک فٹ پرکھیلنا دو چار کھلاڑیوںکا طریقہ کار تو ہو سکتا ہے لیکن پوری ٹیم اگر بیک فٹ پر چلی جائے تو انجام بتانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ آپ ایک ایک کرکے دیکھتے جائیے۔۔۔۔5 مارچ کو سابق افغان صدر حامد کرزئی کہتا ہے کہ ہم ڈیورنڈ لائن کو کبھی تسلیم نہیں کریںگے۔ 6 مارچ کو افغانستان کا نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر محمد حنیف اتمار نئی دہلی پہنچتا ہے جہاں وہ اجیت دوول سمیت بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں سے افغانستان کی نیشنل سکیورٹی پر تا حال مشورہ کرنے میں مصروف ہے۔ اپنے اسی دورے کے دوران وہ بھارت کے انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس سٹڈیزکے زیر اہتمام Counter Terrorism Measures کے موضوع پر منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کرے گا۔ اس موقع پر بھارت کے معروف اشاعتی ادارے''روپا پبلشنگ ہائوس‘‘ کی طرف سے شاطر اور تجربہ کار سفارت کار راجیو ڈوگرہ کی ڈیورنڈ لائن پر شائع ہونے والی کتاب کی تقریب رونمائی بھی کی جائے گی جس میں پاکستان پر دبائو بڑھانے کے لئے ڈیورنڈ لائن کو ایک بار پھر عالمی سطح پر متنازع بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کتاب کو مارکیٹ میں لانے سے پہلے، چند خفیہ ہاتھوں کے ذریعے، آپریشن رد الفساد پر غلط فہمیاں پیدا کرنے اور صوبائی نفرت بڑھانے کے لئے پاکستانی میڈیا کے ایک حصے کو استعمال کرتے ہوئے پنجابی پٹھان مسئلہ کھڑا کیا گیا ہے۔ ڈیورنڈ لائن اور پنجابی بہ مقابلہ پٹھان کھیل کا سکرپٹ سامنے رکھیں اور افغانیہ کے نام سے نئی ریاست کے قیام کا تصور مد نظر رکھیں تو معلوم ہوگا کہ اس کا خالق کوئی اور نہیں بلکہ حامد کرزئی کا سب سے قریبی دوست اور وزیر اعظم پاکستان کا سب سے قریبی اور با اعتماد مشیر محمود خان اچکزئی ہے۔ کوئی بھی فاصلہ طے کرنے کے لئے پہلا قدم اٹھانا ضروری ہوتا ہے اور پاکستان دشمن عناصر نے پنجابی پٹھان، ڈیورنڈ لائن اور جلال آباد
سے اٹک اور میانوالی تک افغانیہ کے نام سے نئی ریا ست کے قیام کا مطالبہ کر کے اپنے مذموم مقاصد کی جانب پہلا قدم اٹھا لیا ہے۔
اور پھر 6 اور7 مارچ کو افغانستان سے پاکستانی چوکیوں پر حملے کرائے گئے جن میں دو افسر اور7 جوان شہید جبکہ 15کو زخمی ہوئے۔ حملوں کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2640 کلومیٹر طویل سرحد 1893ء میں برٹش انڈیا کے Mortimer Durand اور افغانستان کے امیر عبدالرحمن خان کے دستخطوں سے طے پائی جسے اب متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔ اگر ہمارے حکمرانوں کو یہ حالات سمجھنے میں کچھ دقت محسوس ہو رہی ہے تو انہیں چاہیے کہ نریندر مودی کا وہ خطاب سامنے رکھ لیں جس میں اس نے کہا تھا: ''بلوچستان،گلگت اور آزاد کشمیر کے لوگ مجھ سے مدد کے لئے رابطے کر رہے ہیں؟
نئی دہلی میںایشین سکیورٹی کانفرنس کے موقع پر راجیو ڈوگرہ کی ڈیورنڈ لائن پر کتاب کو مارکیٹ میں لانا، میڈیا اور وزارت خارجہ کو استعمال کرتے ہوئے اس کا دنیا بھر میں چرچاکرنا، 1949ء کی طرح ایک بار پھر افغانستان کا پاکستان کے کچھ سرحدی علا قوں پر حملے اور ان پر قبضے کی کوششیں کرنے کا مقصد عالمی دبائو بڑھا کر پاکستان کو ڈیورنڈ لائن کے بارے میں ڈائیلاگ کی میز پر لانا ہے جو در اصل بھارت کا خفیہ ایجنڈا ہے۔ گزشتہ روز شائع ہونے و الی اس خبر کو بار بار پڑھیے کہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب داعش، لشکر جھنگوی اور ٹی ٹی پی کے مختلف گروپوں کو اپنے جھنڈے تلے لاتے ہوئے اپنے ٹھکانے مضبوط کر رہی ہے۔ یہ سب بھارت کے پھیلائے ہوئے اس جال کے حصہ ہے جس سے پاکستان کو ڈیورنڈ لائن کے مسئلے پر مذاکرات کے لئے مجبورکیا جائے۔ پاکستان کو یہ غلطی کبھی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ افغانستان کی متعدد حکومتیں ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کر چکی ہیں اور امریکی حکومت بھی کہہ چکی ہے کہ ۔Durand Line is recognized border ۔ خدشات ایسے ہی سر نہیں اٹھاتے۔کچھ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت کے اندر بیٹھے کچھ انتہائی با اثر ''پاکستانی‘‘ جو مشاورت اور ترجمانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں، اپنے کچھ لوگوں کی مدد سے حکومت کو باور کرائیں گے کہ ''بات کرلینے میں کیا حرج ہے‘‘۔ اس سلسلے میں مشکوک سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنی ہوگی۔ یاد رکھیے کہ اگر پاکستان بھارت کے بچھائے ہوئے جال میں ایک بار پھنس گیا تو اسے ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔
افغانستان جسے بھارت کی مکمل فوجی اور مالی مدد حاصل ہے، وہ کچھ بھی کر سکتا ہے، اس سے خیر کی توقع نہیں ہو سکتی کیونکہ 14 اگست1947ء کو جب پاکستان وجود میں آیا تھا تو افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کی اقوام متحدہ میں شمولیت کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ پھر اگلے ہی دن کابل میں پختونستان کے جھنڈے لہرائے، آفریدی قبائل اور ایپی فقیرکے پیروکاروں کو ساتھ ملا کر پاکستانی علاقوں پر حملے کراتے ہوئے پختونستان کی آزادی کی جنگ شروع کرا دی۔ یہ وہ وقت تھا جب قائد اعظمؒ کشمیر میں بھارت سے جنگ میں مصروف تھے۔ پاکستان کی سب سے پہلی سرحدی جھڑپیں افغانستان سے ہوئیں۔ پھر جولائی1949ء کی ایک صبح کابل میں ظاہر شاہ کی زیر نگرانی لویہ جرگہ منعقد ہوا جس کے ذریعے پختونستان کے قیام کی حمایت کا اعلان کیا گیا۔اور پھر31 اگست کو افغانستان میں ''یوم پختونستان‘‘ منانا شروع کر دیا گیا۔
جواہر لال نہرو کے بھر پور وسائل سے 1948-49ء کے دوران افغانستان نے پاکستان کے خلاف پراکسی وار کا آغاز کرتے ہوئے تیراہ ( خیبر ایجنسی) اور رزمک (وزیرستان) میں پختونستان کی حکومت قائم کرتے ہوئے مشہور شخصیت فقیر ایپی کو اس کا صدر مقرر کر دیا۔ اسی پر بس نہیں، ستمبر/ اکتوبر1950ء میں افغان فوج نے اپنے توپخانے کے ذریعے بلوچستان کے علا قے دوباندی پر حملہ کر کے ایک اہم سٹریٹیجک گزرگاہ پر قبضہ کر لیا جس کا مقصد چمن کوئٹہ ریلوے ٹریک کو کاٹنا تھا۔ لیکن پاکستان کی فوج نے فوری طور پر ایکشن لیتے ہوئے اس اہم نوعیت کے حصے کو افغان فوج سے واپس لے لیا۔
30 مارچ 1955ء کو کابل، قندھار اور جلال آباد میں پاکستان کے سفارت خانے اور قونصل خانوں پر حملے کرائے گئے اور ان پر پختونستان کے جھنڈے لہرا دیے گئے۔ ستمبر 1960ء میں افغان فورسز نے باجوڑ پر حملہ کر دیا جسے باجوڑ کے قبائل اور چیراٹ سے فوری طور پر بھیجے گئے فوجی کمانڈوز نے مار بھگایا۔ افغانستان انکار کرتا رہا لیکن اس کا بھانڈہ اس وقت پھوٹ گیا جب 25 جنوری1961ء کو پشاور میں امریکی قونصل خانے کے خفیہ کاغذات ڈی کلاسیفائی ہوئے۔ ان سے پتا چلاکہ افغانستان نے باجوڑ کے بت ملائی ایریا میں پاشا گل کو اسلحہ اور گولہ بارود مہیا کیا تھا تاکہ پاکستان کے اندر گوریلا جنگ شروع کر دی جائے۔ مارچ 1961ء میں پاکستان ایئر فورس نے پاشا گل کے اسلحے کے تمام ذخیروں کو تباہ کر دیا۔ مئی1961ء میں افغانستان نے ہزاروں کی تعداد میں اپنے فوجیوںکو ملیشیا کی وردیوں میں بھیج کر باجو ڑ، خیبر اور جندال پر حملہ کر دیا جسے پاک فوج نے ناکام بنا دیا۔
بھارت، پاکستان پر اپنے مختلف ہتھیاروں سے حملہ آور ہے جن کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں اب اپنی ترجیحات کو بدلنا ہوں گی۔ بقول نریندر مودی اسے بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت کے لوگ مدد کے لئے پکار رہے ہیں توکیا بھارتی پنجاب کے خالصتانی اور گجرات کے دلت تو کب سے پاکستان سے مدد نہیں مانگ رہے؟