کسی بھی چھوٹے بڑے شہر کی مارکیٹ بازار، چوراہے یا روزمرہ ضروریات کی دوکان پر چلے جائیں سبزی ،پھل ،دودھ ،دہی کی دکان پر کھڑے ہوں یا کسی ہوٹل اور میڈیکل سٹور سے نکل رہے ہوں کسی بھی سول جج سے لے کر بڑی عدالت کے باہر موجود ہوں یا کسی سڑک پر چل رہے ہوں پانچ چھ بھکاریوں کا گروہ آپ کے پیچھے پڑ جائے گا اور اگر آپ اپنی فیملی کے ساتھ ہیں تو یہ لوگ اس قدر تنگ کریں گے کہ خدا کی پناہ ۔غالباً اس قدر معافیاں ہم نے اپنے رب سے نہیں مانگی ہوں گی جتنی ان بھکاریوں سے مانگنا پڑتی ہیں۔۔۔ کسی بھی بھکاری کو اپنے سامنے ہاتھ پھیلاتے دیکھ کر قران پاک کا وہ ارشاد یاد آجاتا ہے کہ اپنے دروازے پر آئے ہوئے سائل کو مت جھڑکو۔۔۔اسلئے یہ لوگ جتنا بھی تنگ کریں اس خوف سے خاموش رہتا ہوں کہ اگر انہیں دھتکارا یا سخت زبان اختیار کی تو گناہ گار ہو جائوں گا لیکن یہ بھی یہ تو نہیں ہو سکتا کہ آپ کی جیب میں ہر وقت پانچ دس یا بیس روپے کے وافر نوٹ یا سکے موجود ہوں جوآپ ان سب کو ایک ایک کر کے دیتے جائیں۔ مانگنے والے ایک دو ہوں تو انسان پھر بھی ان کی کچھ نہ کچھ مدد کردیتا ہے لیکن گھر سے کسی بھی مارکیٹ اور واپسی تک بھیک مانگنے والے ان پیشہ ور گداگروں کے لشکر عظیم سے بے سرو سامانی کی حالت میںآپ کیسے نمٹ سکتے ہیں؟
ان مانگنے والوں میںزیادہ تر عمر رسیدہ عورتیں اور بوڑھے ہوتے ہیں تو اپنی گود میںنوزائیدہ بچوں کو اٹھائے ہوئے عورتیں بھی، پانچ دس سال عمر کے بچے اور بچیاں بھی آپ کے دامن کھینچیں توانسان سوچنے لگتا ہے کہ ان کے لیے کیا کرے ؟ کبھی کبھی مجھے احساس ہوتا ہے کہ میری تو معافی کی گنجائش ہی نہیں رہ گئی ہو گی کیونکہ میں اکثر غصے میں آ جاتا ہوں ، جب مانگنے والوں کو لجاجت سے'' معاف کرو‘‘ کہتا ہوں تو یہ اور جان کو آجاتے ہیں۔۔۔آخر انسان ہوں برداشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اور فیملی ساتھ ہونے پر تو یہ اس قدر ذلیل کرتے ہیں کہ انسان کے صبر اور برداشت کے سب پیمانے گویا ابل پڑتے ہیں اور یہ تو کسی کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ طبی ماہرین کی ایک رپورٹ کے مطا بق پاکستان میں اس وقت'' فشار خون‘‘ کے مریضوں کی تعداد کئی کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔
اکثر میرا دل اس خوف سے لرز جاتا ہے کہ نہ جانے اﷲ تعالیٰ ان گدا گروں سے تلخ نوائی پر مجھ سے کس قدر ناراض ہوتا ہو گا ؟۔۔۔۔لیکن ایک سوال میں علمائے کرام اور آپ سب سے ضرور پوچھوں گا کہ کیا اس گناہ میں میرے ساتھ حاکم طبقات اور ریا ست شامل نہیں؟ اس خوف سے میں ایک طرح کا نفسیاتی مریض بنتا جا رہا ہوں کہ ان بھیک مانگنے والوں کے آگے ہاتھ بھی جوڑتا ہوں جس پر چند ایک تو بڑ بڑاتے ہوئے خاموش ہو جاتے ہیں لیکن اکثریت جان کو آ جاتی ہے۔۔۔آخر کیا کریں کہاں جائیں؟۔ ابھی چند روز ہوئے شاہراہ قائد اعظم آنے کیلئے شوکت خانم چوک پہنچے تو سگنل بند ملا جیسے ہی گاڑی روکی تو دیکھتے ہی دیکھتے تین چار خواجہ سرا ،کچھ بوڑھے، بچے اور عورتیں ہر گاڑی کی جانب لپک پڑیں یہ سب بھیک بھکاری زور زور سے گاڑیوں کے شیشے اس طرح بجانا شروع ہو گئے کہ اندر بیٹھے ہوئے بعض لوگاس اچانک یلغار سے باقاعدہ سہم سے گئے۔ میرے پاس کچھ کھلے پیسے تھے ،عزت بچ گئی۔ جیسے ہی اشارہ کھلا جلدی سے گاڑی ان کے نرغے سے نکال کر کھوکھر چوک کی جانب موڑ دی، وہاں بھی خواجہ سرائوں اور بھیک مانگنے والے معذور لوگوں کا ہجوم تھا ان کے علا وہ بہت سی عورتیں اور بچے بھی تھے جو قریب ہی ڈیرے ڈالے ہوئے خانہ بدوش تھے۔یہ لوگ مختلف شفٹوں میں تقریباََ ہر وقت چوکوں میں ڈیرے ڈالے رکھتے ہیں ۔ اشارہ کھلنے پر گاڑی آگے کی ہی تھی کہ یک لخت بریک لگانا پڑی کہ ایک معذور شخص سڑک کے بیچو ں بیچ گھسٹتا ہوا جا رہا تھا ۔گاڑی کے ساتھ مجھے بھی ایک زبردست جھٹکا لگا اور کتنی ہی دیر تک میرے حواس بحال نہ ہوسکے۔
پیچھے سے زور زور سے ہارن بجنا شروع ہو گئے مڑ کر دیکھا توکچھ لوگ منہ میں بڑ بڑاتے ہوئے غصے سے میری جانب اشارے کر رہے تھے۔ شائد وہ مجھے گالیاں دے رہے ہوں گے کیونکہ سگنل ایک بار پھر بند ہو چکا تھا جس کی وجہ وہ مجھے سمجھ رہے تھے۔ دو منٹ کے وقفے کے بعد سگنل گرین ہوا تو خدا خدا کر کے کھوکھر چوک سے ڈاکٹر ہسپتال کی جانب روانہ ہوئے، وہاں پر ٹریفک پہلے سے ہی جام ہونے کی وجہ سے جوں کی طرح رینگ رہی تھی اور وہاں پر بھی سات آٹھ خواجہ سرا بنے ہوئے لڑکوں کا ایک گروپ اور چند بھکاری ہر گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹاتے ہوئے بھیک کا مطالبہ کر رہے تھے ۔میرے پاس دس بیس کے نوٹ ختم ہو چکے تھے لیکن خواجہ سرا تھے کہ ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے اتنے میں ایک نشئی سامنے آ کر گاڑی کے فرنٹ شیشے پر میلے کچیلے پانی کا برش مارنا شروع ہو گیا اسے بار بار ہاتھ کے اشارے سے منع بھی کیا لیکن وہ ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ستم یہ کے شیشے کے دوسری جانب سے خواجہ سرا بناہوا لڑکا تالیاں بجاتے ہوئے عجیب سی حرکتیں کرتا ہوا مانگنے کی ا دا کاری کرتا جا رہا تھا ،میں نے بار بار انہیں جانے کو کہا کیونکہ میرے پاس ان دونوں کو دینے کیلئے کھلے پیسے نہیں تھے لیکن وہ تھے کہ ہٹنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ میرا بلڈ پریشر ہائی ہو گیا ، ان کی حرکات میری برداشت سے باہر ہو گئیں اور میں نے گاڑی کا شیشہ کھول کر انتہائی غصے میں ان کو بے نقط سنانا شروع کر دیں میری تیز آواز سن کر چار پانچ خواجہ سرا بنے ہوئے لڑکے مجھ سے جھگڑنے پر اتر آئے ، جس پر دوسری گاڑیوں میں اپنی فیملیوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں نے باہر نکل کر ان کو وہاں سے بھگایا ۔کل تک بھیک مانگنے کا ایک انداز ہوا کرتا تھا گدا گرکسی کے آگے ہاتھ پھلاتے اگر مل جاتا تو ٹھیک نہ ملتا تو دعائیں دیتے ہوئے آگے بڑھ جاتے لیکن یہ بد تمیز قسم کا ہجوم ضروریات کا سامان لینے کیلئے گھروں سے آئی ہوئی فیملی کی جان کو آجاتا ہے۔۔۔۔کیا اس گناہ میں حاکم وقت یا ریا ست شریک نہیں!!