تحریک انصاف عام انتخابات کیلئے سولو فلائٹ کرے گی یا کسی گروپ اور جماعت کے ساتھ الائنس ؟ اگر تحریک انصاف کسی بھی جماعت سے سیٹ ایڈ جسٹمنٹ یا الائنس نہیں کرتی تو کیا یہ فیصلہ اس کیلئے سود مند رہے گا؟ہو سکتا ہے تحریک انصاف کے سرکردہ لوگ یا ان کی کور کمیٹی میں سے کسی نے اس پر غور کرنے کی کوشش ہی نہ کی ہو لیکن یہ وہ سوال ہے جو اس وقت تحریک انصاف کے ووٹرز اور سپورٹرز کے علا وہ پنجاب بھر کے قومی اور صوبائی حلقوں میں زیر بحث ہے۔۔۔ اس بار مولانا فضل الرحمان پنجاب میںنواز لیگ کے ووٹ توڑنے کیلئے اپنے امیدوار سامنے نہیں لائیں گے بلکہ وہ نواز لیگ کی کامیابی کیلئے اپنا بھر پور کردار ادا کریں گے جس کا مظاہرہ وہ بوریوالہ، جہلم، لاہور این اے122 اور لودھراں کے ضمنی انتخابات میں کر چکے ہیں ابھی حال ہی میں جمعیت العلمائے اسلام کا کنونشن اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں پی پی پی کی مرکزی قیا دت نے بھی اپنا حصہ ڈالا اور یہی وجہ ہے کہ سیہون شریف سمیت شکار پور اور اس کے گرد و نواح میں اب تک چار سے زیا دہ بم دھماکوں میں سینکڑوں ہلاکتوں کے با وجود زرداری صاحب کی ہدایات پر کچھ مدرسوں پر ہاتھ ہولا رکھا جا رہا ہے۔
دوبئی میں اپنے قیام کے دوران سابق صدر آصف علی زرداری نے خیبر پختونخواہ میں مولانا فضل الرحمان کی صوبائی حکومت بنانے کیلئے پی پی پی، جمعیت العلمائے اسلام، اسفند یار ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی سے اپنے مذاکرات مکمل کر لئے ہیں اور ممکن ہے کہ انتخابات کے کسی لمحے میں کے پی کے کی حدود تک نواز لیگ کے ساتھ بھی سیٹ ایڈ جسٹمنٹ ہو جائے اور جیسا کہ پہلے کہا ہے کہ اس چار جماعتی اتحاد پر بات چیت مکمل کر لی گئی ہے اس لئے تحریک انصاف کو ابھی سے یہ صورت حال سامنے رکھنا ہو گی کہ انتخابات میں اس کا مقابلہ کے پی کے میں پانچ جماعتی سیا سی اتحاد سے ہو سکتا ہے اور اس بار عمران خان کے مقابلے میں ایک سابق کرکٹر اور پشتونوں کے ووٹوں کو ساتھ ملانے کیلئے محمود خان اچکزئی کو بھی عمران خان کے خلاف میدان میں اتارے جانے کے امکانات واضح ہیں۔ تحریک انصاف کیلئے نواز لیگ اور پی پی پی کی کسی بھی اتحادی جماعت سے الائنس یا سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا کیونکہ ایسا کرنا تو بہت دور کی بات ہے اس کے متعلق سوچنے سے ہی عمران خان کا گراف بہت حد تک نیچے چلا جائے گا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تحریک انصاف اکیلے ہی نواز لیگ اور پی پی پی کے اندرون خانہ طے پانے والے معاملات کے سامنے انتخابی معرکہ سر کر سکے گی؟۔
عمران خان اور اس کے ساتھیوں کے پاس دو آپشنز ہیں مسلم لیگ ق اور پاکستان عوامی تحریک لیکن عوامی تحریک کے ساتھ ان کے معاملات بگڑ چکے ہیں ڈاکٹر قادری صاحب جو کل تک عمران خان کے ساتھ تھے ایک اطلاع کے مطا بق حق نواز گنڈ اپور کی آصف زرداری سے درون خانہ ہونے والی ملاقاتوں کے نتیجے میں ایک دوسرے سے بہت دور جا چکے ہیں جس کی ابتدا سپریم کورٹ کے باہر کر دی گئی اور یہ امر پاکستان کے حقیقی خیر خواہوں کیلئے انتہائی تکلیف کا باعث ہو گا لیکن ان دُونوں کزنز کے آپس کے حالات سدھرتے ہوئے نظر نہیں آ رہے اس لئے ممکن ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک ہی سوچ کے لوگ ایک دوسرے کا ساتھ نہ دے سکیںاور یہ پاکستان اور اس کی جمہوریت کیلئے اچھا شگون نہیں ہو گا۔عمران خان اور تحریک انصاف کو باور کرنا ہو گا کہ انتخابات میں اس کا مقابلہ انتظامیہ کے ساتھ ہو گا تو دوسری جانب پاکستان کی تمام سیا سی جماعتیں یک جان ہو کر ان کا راستہ روکیں گی اور ان کا ساتھ
دینے کیلئے پاکستان کی طاقتور بیورو کریسی بھی اپنے ہاتھ دکھائے گی کیونکہ ''سٹیٹس کو ‘‘ کا ٹوٹنا ان کیلئے اتنا ہی تباہ کن ہے جتنا ان کے آقائوں کے لیے۔اس لئے تحریک انصاف کو ابھی سے آزاد خود مختار ہی نہیں بلکہ مکمل طور پر غیر جانبدار الیکشن کمیشن کیلئے عوام کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے آواز بلند کرنا ہو گی اس کے پاس سب سے بڑا اخلاقی جواز جوڈیشل کمیشن کی وہ رپورٹ ہے جس میں2013 کے انتخابات میں چالیس کوتاہیوں اور غیر قانونی اقدامات کا حوالہ دیا گیا ہے ۔ اس لئے کسی قسم کی غلطی کئے بغیر عمران خان کو انتخابی اصلاحات کے بغیر انتخابی جال میں پھنسنے سے بچنا ہو گا ۔
پنجاب سے تحریک انصاف اگر نواز لیگ اور باقی جماعتوں کے اتحاد کو چاروں شانے چت کرنا چاہتی ہے تو اسے کم از کم 8 اضلاع اٹک، چکوال، گجرات، منڈی بہائو الدین، قصور، سرگودھا، خوشاب اور بہاولپور میں مسلم لیگ ق سے انتخابی الائنس کرنا پڑے گا اور اگر دونوں جماعتیں ایسا نہیں کرتیں تو ان چھ اضلاع سے مسلم لیگ نواز کی بھر پور کامیابی کو کوئی نہیں روک سکے گا اور اگر تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق ان اضلاع میں الائنس یا سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کر لیتی ہیں تو ان آٹھ اضلاع سے ان کے الائنس کو قومی اور صوبائی اسمبلی کی 80 فیصد سے زائد نشستوں پر کامیابی مل سکتی ہے اور دونوں جماعتوں کی سیا سی قیا دتیں یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ان کے اس الائنس یا سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کے جھٹکے پنجاب کے ان اضلاع سے جڑے ہوئے دوسرے حلقوں میں بھی محسوس کئے جائیں گے۔ اگر مئی 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف کا چکوال، اٹک، قصور ، سرگودھا، خوشاب ، بہاولپوراور گجرات میں انتخابی اتحاد ہوتا تو مسلم لیگ نواز وہاں سے چند ایک نشستیںہی حاصل کر پاتی؟۔ یہی حال اب ڈسٹرکٹ بہاولپور کا ہے اگر یہاں سے تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے سیکرٹری جنرل طارق بشیر چیمہ سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کرتے ہوئے انتخابی میدان میں اترتے ہیں تو اس الائنس کو پورے بہاولپور سے کلین سویپ کرنے سے کوئی بھی نہیں روک سکے گا۔۔۔لیکن اگر یہاں سے مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف ایک دوسرے کے مقابل آتے ہیں تو دونوں کے ہاتھ کچھ نہیںآئے گا ۔
ا س وقت بہاولپور شہر سے تحریک انصاف کے پاس قومی اسمبلی کی نشست کیلئے سمیع ا ﷲ کی شکل میں ہاکی کا تین مرتبہ ورلڈ کپ جیتنے والا فلائنگ ہارس موجود ہے جس کے کردار پر کوئی بھی انگلی نہیں اٹھا سکتا‘ جس نے سیا ست میں آنے سے بھی پہلے غریب لوگوں کیلئے آنکھوں کے علاج کا انتہائی جدید اور خوبصورت ہسپتال قائم کیا ہوا ہے سمیع اﷲ کا ساتھ دینے کیلئے بہاولپور کے صوبائی حلقے سے تحریک انصاف کے1996 سے بانی رکن اور عہدیدار ملک عامر جیسی سدا بہار عوامی شخصیت ہے جن کی شرافت اور ایمانداری مسلمہ ہے اور جنہیں بہاولپور شہر کی ایک ایک گلی کا رستہ معلوم ہے اور جنہیں ایک عام آدمی سے لے کر بڑے سے بڑے لوگ بھی عزت و احترام سے ملتے ہیں۔ اگر سمیع اﷲ اور ملک عامر کا طارق بشیر چیمہ سے الائنس یا سیٹ ایڈ جسٹمنٹ نہیں ہوپاتا تو اس کا فائدہ مسلم لیگ نواز کے سوا کسی کو نہیں ہو گا کیونکہ مسلم لیگ نواز کی مخالفت میں آنے والے ان دونوں جماعتوں کے ووٹ آپس میں تقسیم ہو جائیں گے۔۔۔۔۔تحریک انصاف میں موجود مرکزی خفیہ ادارے اور جاتی امراء سے متعلقہ لوگ ق لیگ سے الائنس کو روکنے کی پوری کوشش کریں گے اور اگر وہ کامیاب رہے تو یہ تحریک انصاف اور عوام کی دوسری شکست ہو گی ۔۔۔!!