گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل پر دکھایا جا رہا تھا کہ مکہ کالونی لاہور کے ایک گھر میں شادی کے سلسلے میں مہندی کی رسم تھی‘ دولہا کے گھر والوں نے اپنے گھر کے سامنے رستہ بند کرکے مہمانوں کو بٹھانے کا انتظام کیا ہوا تھا جس پر کسی نے پولیس کو شکایت کر دی۔ پولیس نے آتے ہی ان کا سارا سامان اٹھا ٹھا کر پھینکنا شروع کر دیا اور اس سلسلے میں چادر اور چار دیواری کا تقدس اس بری طرح پامال کیا گیاکہ لگتا تھا کسی دشمن نے حملہ کرنے کے بعد مال غنیمت سمیٹنا شروع کر دیا ہے۔ پولیس نے اسی پر بس نہیں کی‘ اس لڑکے کو‘ جس نے اگلے دن دولہا بن کر بارات لے کر جانی تھی‘ بھی اس کے 6 رشتہ داروں سمیت گرفتار کر لیا۔۔۔ اب اگر اگلے روز تک دولہا کی ضمانت نہ ہوئی ہو گی تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس لڑکی کے گھر اور والدین پر کیا گزری ہو گی۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے اس بارات کے لئے کوئی ہال وغیرہ بک کرایا ہو گا اگر ایسا نہیں تو انہوں نے اپنے گھر کے قریب کسی جگہ پر بارات کے بیٹھنے اور باراتیوں کے کھانے کا انتظام کیا ہو گا۔ اب وہ ہال کی بکنگ اور کسی بھی کھلی جگہ پر کھانے کا انتظام سب رائیگاں جائے گا۔ نہ جانے اس بچی کے باپ نے یہ سب انتظامات کتنی مشکلوں سے کئے ہوں گے۔ نہ جانے کتنی کتنی دور سے نزدیکی رشتہ دار اور احباب اپنے کام کاج اور ملازمتوں سے اجازت نامے لے کر آئے ہوں گے۔ اس کا اندازہ اس تھانے کی پولیس کو کبھی بھی نہیں ہو سکے گا جب تک اس ایس ایچ او کے ساتھ اسی طرح کا کوئی واقعہ پیش نہ آئے۔ اگر تو دولہا فائرنگ کر رہا تھا۔ ون ڈش کی خلاف ورزی کی جا رہی تھی تو پھر قانون کا حرکت میں آنا جائز ہے۔ ہمارے معاشرے میں تو ہر گھر اپنی غمی یا خوشی کے موقع پر اپنے سامنے والے رستے کو استعمال کرتا ہے۔ اس طرح تو آدھے سے زیادہ پاکستانیوں کو روزانہ گرفتار کرنا پڑے گا۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے تین کھلاڑیوں ناصر جمشید، خالد لطیف اور شاہ زیب خان کے بارے میں پی سی بی کی انضباطی کمیٹی نے کہا ہے کہ یہ تینوں کھلاڑی اس وقت تک کسی قسم کی کرکٹ نہیں کھیل سکیں گے جب تک وہ خود پر لگنے والے میچ فکسنگ اور سٹے بازی کے الزامات سے پوری طرح بری نہیں ہو جاتے۔ پاکستانی کرکٹ حکام کی جانب سے اس سزا کو سنتے ہوئے پہلے تو کچھ عجیب سا لگا لیکن پھر خوشی بھی ہوئی کہ اب خیر سے ہمارے ملک میں بھی قانون اور احتساب کی رسم چل نکلی ہے اور ملکی وقار سے کھیلنے والوں کے خلاف شکنجہ کسا جا رہا ہے۔ اس فیصلے سے یہ ہو گا کہ کسی ایک پراجیکٹ میں گھپلے کرنے والے کسی بڑے سے بڑے افسر یا منظور نظر ٹھیکیدار کی نشاندہی ہونے پر یہ نہیں ہو گا کہ اسے کوئی دوسرا منا فع بخش پراجیکٹ دے دیا جائے گا بلکہ اسے اب قانون کے شکنجے میں لا کر قرار واقعی سزا دی جایا کرے گی۔ اس سلسلے میں دور جانے کی کیا ضرورت ہے خادم اعلیٰ پنجاب کا حوالہ دینا ہی کافی ہے۔ جب وہ کسی شکایت پر‘ خواہ وہ درست ہو یا نہ ہو‘ بڑے سے بڑے افسر کو کھڑے کھڑے معطل کر دیتے ہیں‘ تو ان ملازمین پر کیا گزرتی ہو گی۔ اگر کسی کی ذرا سی غفلت یا چند لاکھ کی بدعنوانی کی شکایت پر معطل کیا جا سکتا ہے۔ اگر کرکٹ پر میچ فکسنگ کے الزامات پر پابندی لگائی جا سکتی ہے تو پھر پاناما جیسے ایشو پر اس قدر فرق کیوں؟ کسی بھی اہلکار کو اس کی سرکاری ملازمت سے اسی لئے معطل کیا جاتا ہے کہ متعلقہ افسر اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اپنے خلاف ہونے والی کسی بھی انکوائری پر اثر انداز نہ ہو سکے‘ لیکن یہاں معاملہ ہی الٹ ہے۔ میرے خیال میں وزیر اعظم کو اس ملک کی سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججوں نے صادق اور امین نہ ہونے پر نا اہل قرار دے دیا اور تین ججوں نے کہا ہے کہ ان پر جو بھی الزامات ہیں‘ تو اس پر ان کو مزید صفائی کا بھرپور موقع ملنا چاہئے۔ اس مقصد کے لئے جے آئی ٹی بنائی گئی تا کہ وہ اپنے اور خاندان کے دوسرے افراد صفائی پیش کر سکیں۔ وہ کھلاڑی جن کے خلاف انکوائری کا عمل ابھی شروع ہونے جا رہا ہے ان پر ہر قسم کی کرکٹ کھیلنے کی پابندی لگا دی جائے اور وزیر اعظم اپنے حاصل اختیارات کو مکمل طور پر استعمال کرتے رہیں کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟۔ شاہ زیب کا کہنا تھا کہ ہمارے خلاف تو یہ کہتے ہوئے فیصلہ صادر کر دیا گیا ہے کہ جب تک ان کے خلاف انکوائری چل رہی ہے یہ کسی بھی قسم کی کرکٹ نہیں کھیل سکیں گے بلکہ ہمیں بلے اور گیند تک کو ہاتھ لگانے سے روکا جا رہا ہے جو ہمارا اوڑھنا بچھوڑنا ہے جبکہ دوسری جانب ملکی سلامتی کے فیصلے تک کرنے کی مکمل چھوٹ دی جا رہی ہے۔ بد دیانتی یا ملکی وحدت کی لوٹ مار کے لئے کسی رقم کی حد کا تعین نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس کے لئے قانون میں ایک معیار اور پیمانہ ہو نا ضروری ہے ابھی تک یہ بات سامنے نہیں آ سکی کہ اس جبری پابندی کا شکار ہونے والے کرکٹ کے ان تینوں کھلاڑیوں کی بکیوں سے سٹے بازی یا میچ فکسنگ کتنے میں طے ہوئی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ جوئے کے لئے رقم کی آفر ایک کروڑ ہو یا پانچ کروڑ کی لیکن کسی کو اس سے غرض نہیں ہونی چاہئے کیونکہ جرم جرم ہوتا ہے چاہے وہ مرغی چوری کا ہو یا انڈے چوری کا۔
ایک جانب ان تینوں کھلاڑیوں پر الزامات ابھی ثابت ہونے تو دور کی بات ہے ان کی انکوائری بھی مکمل نہیں ہوئی کہ فیصلہ دے دیا گیا کہ یہ تینوں لڑکے کرکٹ بورڈ کی با قاعدہ اجازت کے بغیر اس کی حدود میں قدم بھی نہیں رکھ سکتے اور ادھر یہ حال ہے کہ تمام الزامات پر فیصلہ آنے کے باوجود ملک کی سلامتی سے لے کر ہر قسم کے انتظامی معاملات چلائے جا رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ قانون مکڑی کا ایک ایسا جالا ہے جس میں کمزور پھنس جاتے ہیں اور طاقت ور اسے توڑتے روندتے نکل جاتے ہیں اور پھر یہ وہی ہوا نا کہ پہلی قومیں اسی لئے تباہ و برباد ہو گئیں کہ وہ اپنے میں سے کمزور کو سزا اور طاقتور کو بڑی بڑی کرسیوں پر بٹھانا شروع ہو گئیں۔ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ملک میں ایک ہی قانون ہو کسی کو اس کے گورے کالے یا چھوٹے بڑے ہونے کا فائدہ نہ ہو!
پولیس نے آتے ہی ان کا سارا سامان اٹھا ٹھا کر پھینکنا شروع کر دیا اور اس سلسلے میں چادر اور چار دیواری کا تقدس اس بری طرح پامال کیا گیاکہ لگتا تھا کسی دشمن نے حملہ کرنے کے بعد مال غنیمت سمیٹنا شروع کر دیا ہے۔ پولیس نے اسی پر بس نہیں کی‘ اس لڑکے کو‘ جس نے اگلے دن دولہا بن کر بارات لے کر جانی تھی‘ بھی اس کے 6 رشتہ داروں سمیت گرفتار کر لیا۔۔۔ اب اگر اگلے روز تک دولہا کی ضمانت نہ ہوئی ہو گی تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس لڑکی کے گھر اور والدین پر کیا گزری ہو گی۔