کسی نے کہا تھا ''جب نا انصافی حکم بن جائے کوے صوفی بن جائیں اور چیونٹی مال و دولت کی نگران بنا دی جائے تو ویرانی اس سلطنت اور معاشرے کا مقدر بن جایا کرتی ہے‘‘ کچھ اسی قسم کے اتفاقات اس ریا ست میں بھی ہوئے جس کے بادشاہ کو شکار کا بہت شوق تھا ۔وہ ہر ماہ اپنی ملکہ کے ہمراہ کسی دریا یا جنگل کی طرف چل پڑتا اور دل کھول کر ہرن، پرندوں اور مچھلیوں کا شکار کرتا۔ ایک دن بادشاہ کو مچھلی کے شکار کا شوق چرایا تو اس نے موسمی حالات سے با خبر رکھنے والے اپنے مشیر سے کہاکہ ہم اگلے ہفتے ملکہ عالیہ کے ہمراہ مچھلی کے شکار پر جانا چاہتے ہیں کیا ان دنوں وہاں کا موسم شکار کیلئے منا سب رہے گا؟ شاہی مشیر نے کچھ دیر آسمان کی جانب دیکھا اور پھر کاغذ پر حساب کرنے کے بعد بادشاہ سلامت سے عرض کیا حضور والا آپ شوق سے ملکہ عالیہ کے ہمراہ مچھلی کے شکار کیلئے جائیں ان دنوں موسم شکار کیلئے بالکل منا سب رہے گا۔ بادشاہ نے وزیر شکار کو ضرروی تیاری کا حکم جاری کردیا ۔مقررہ دن بادشاہ سلامت ملکہ کے ہمراہ شکار کیلئے محل سے نکلا تو راستے میں ایک کسان اپنے گدھے کے ساتھ بادشاہ کو سلام کرنے کی غرض سے کھڑا تھا ۔بادشاہ کاقافلہ جب قریب آیا اور کسان نے دیکھا کہ بادشاہ سلامت مچھلی کے شکار کیلئے نکلے ہیں تو اس نے بادشاہ سلامت کے محافظوں کو جھک کر آداب بجا لاتے ہوئے کہا : جناب بادشاہ سے کہیں کہ وہ آج شکار کا پروگرام ملتوی کر دیں کیونکہ ابھی کوئی ایک گھنٹے بعد مو سم انتہائی خراب ہونے والا ہے اور خیال ہے کہ طوفانی بارش اور ژالہ باری ہو گی ۔
محافظوں نے جب گدھے والے کسان کی پیشین گوئی اپنے افسران کو بتائی تو سب ہنس پڑے اور جب یہی بات بادشاہ اور ملکہ تک پہنچی تو انہوں نے اس عام سے کسان کی بات کا برا مناتے ہوئے اسے سزا دینے کی بجائے قافلے کو آگے کی جانب بڑھنے کو کہا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ دربار شاہی میں موسمی حالات بتانے والا ان کا مشیر انتہائی تجربہ کار ہے۔ ابھی بادشاہ سلامت نے کوئی ایک کوس فاصلہ ہی طے کیا ہو گا کہ چاروں جانب سے سیاہ بادلوں نے سر نکالنا شروع کر دیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بادل اس طرح برسے کہ نہ تو کچھ دکھائی دے رہا تھا اور نہ ہی سجھائی دے رہا تھا۔ ساتھ ہی بڑے بڑے اولے الگ سے قیامت ڈھا نے لگے۔ بادشاہ اور ملکہ نے فوری طور پر قافلے کی واپسی کا حکم دے دیا لیکن ان کی طبیعت سخت مکدر ہو گئی۔ بادشاہ نے کوتوال کو حکم دیا کہ اس گدھے والے کسان کو ابھی ڈھونڈھ کر لائو کیونکہ وہ یہیں کہیں راستے میں ہی ہو گا۔ کوتوال شہر نے موسم کی خرابی کے با وجود کسان کو تھوڑی ہی دیر میں بادشاہ کے حضور پیش کر دیا۔بادشاہ نے کسان کو کہا کہ میں شاہی محل کے موسمی حالات بتانے والے اپنے مشیر کو ابھی ملازمت سے بر طرف کر رہا ہوں اور اس کی جگہ تمہیں موسمیات کا مشیر تعینات کر رہا ہوں تم فوری طور پر شاہی محل میں موسمی حالات کے شاہی مشیر کا عہدہ سنبھالو ۔بادشاہ نے کسان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا :کیا تم بتا سکتے ہو کہ تم موسم کی کیفیت یا اس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کس طرح معلوم کرتے ہو کیونکہ ہم نے تو تمہیں ایک عام سا کسان سمجھتے ہوئے تمہاری موسمی پیشین گوئی پر کوئی خاص توجہ ہی نہیں دی تھی بلکہ میرے قافلے میں شامل محافظ تو تمہاری بات سن کر غصے میں بھی آ گئے تھے کہ گدھے والے کی اس بے موقع پیشین گوئی سے بادشاہ اور ملکہ عالیہ کا موڈ خراب ہو سکتا ہے۔
کسان نے جب بادشاہ سلامت کا حکم سنا تو اس نے دونوں ہاتھ باندھ کر عرض کرتے ہوئے کہا :حضور والا‘میں اپنے بادشاہ سلامت سے کسی بھی قسم کی غلط بیانی نہیں کر سکتا۔ میرے پاس کسی قسم کا علم نہیں ہے جس سے میں موسم کے حالات بارے پتہ چل سکے۔ بادشاہ کے ہمراہ بیٹھی ہوئی ملکہ نے کسان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سے کہا کہ اگر تمہارے پاس کسی قسم کا علم نہیں ہے تو پھر تم نے ہمیں کس طرح بتا دیا کہ چند گھنٹوں بعد طوفانی بارش اور ژالہ باری شروع ہونے والی ہے؟۔
کسان نے ملکہ عالیہ کو فرشی سلام کرتے ہوئے عرض کیا: موسم کے حالات میں تبدیلی بارے معلومات میں اپنے گدھے سے حاصل کرتا ہوں۔ بادشاہ اور ملکہ نے حیران ہو کر پوچھا کہ گدھے سے تم کس طرح علم حاصل کرتے ہو؟ کسان بولا: حضور جب میرا گدھا اپنے دو نوں کان اوپر اٹھا کر ادھر ادھر اچھلنا شروع کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ موسم گرم ہو گا ہوا بھی نہیں چلے گی اورجب میرا گدھا اپنی اگلی دونوں ٹانگوں سے زمین پر گرد اڑانے لگتا ہے تو میں جان جاتا ہوں کہ آندھی چلنے والی ہے اور جب میرا یہ گدھا اپنے دونوں کان بالکل نیچے جھکا تے ہوئے دیواروں کے ساتھ کھڑا ہونا شروع کر دیتا ہے تو مجھے معلوم ہوجاتا ہے کہ اب بارش ہونے ہی والی ہے، اس لئے حضور والا میرا اپنا تو کوئی علم نہیں میں تو عام سا کسان ہوں۔ بادشاہ اور ملکہ نے ایک دوسرے کی جانب دیکھتے ہوئے کچھ دیر مشورہ کیا داور پھر وزیر دربار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ'' کسان کی بجائے اس کے گدھے کو مشیر کے عہدے پر فائز کر نے کا شاہی فرمان جاری کر دو‘‘۔کسان نے بادشاہ سلامت کے حضور جھکتے ہوئے عرض کیا :جناب والامجھے بھی موسم کا حال بتانے کیلئے مقرر کئے گئے شاہی مشیر گدھے کے ساتھ رہنے کی اجا زت دی جائے کیونکہ گدھا میرے علا وہ کسی کی بات نہیں سمجھتا۔ بادشاہ سلامت نے بخوشی کسان کو شاہی محل کے ایک حصے میں رہنے کی اجا زت دے دی۔
بادشاہ کے حکم سے شاہی مشیر کے عہدے پر فائز کئے جانے والے گدھے کیلئے سجی سجائی چار چار گھوڑوں والی بگھیاں تیار کی گئیں اس کے لیے خوشبودار کھانے پھل اور قیمتی صاف ستھرادانہ اور خوراک مہیا کی جانے لگی۔ اسے اطلس اور کم خواب کے لباس سے سجادیا گیا اور پھر یہ ہوا کہ اس کی دیکھا دیکھی ریا ست کے جتنے بھی گدھے تھے ان کے مالکان نے انہیں بھی روزانہ نہا دھلا کر صاف ستھرا کر کے مختلف جگہوں پر کھڑا کرنا شروع کر دیا ‘جہاں وہ زور وشور سے مشیر اور وزیر بننے کی امید پر بادشاہ کی تعریفوں کے پل باندھنے شروع ہو گئے ۔ جدھر سے بھی بادشاہ کا گذر ہوتا لوگوں نے اپنے گدھوں سمیت ر ستے میں کھڑا ہونا شروع کر دیا کہ شائد بادشاہ کی ان کے گدھے پر نظر پڑ جائے اور اسے بھی شاہی دربار میں کسی اعلیٰ عہدے پر جگہ مل جائے لیکن معاملہ اس وقت بگڑ جاتا جب یہ گدھے ایک دوسرے کو ہٹانے کیلئے دولتیاں جھاڑنا شروع ہوجاتے۔ بادشاہ کا اپنی سلطنت کے امور کی جانب دھیان کم اور گدھوں کی اپنی شان میں کی جانے والی واہ واہ اور تعریفوں کی جانب زیا دہ ہونا شروع ہو گیا نتیجہ یہ نکلا کہ دیکھا دیکھی ہر کوئی خوشامدی بن کر رہ گیا جس سے تمام اہل کار آرام طلب ہونے لگے ان کی توجہ عوام کی حالت زار اور ملکی معاملات کیلئے کم اور لوٹ مار کی طرف زیا دہ ہو تی گئی اور نتیجہ یہ نکلا ریاست سے محبت کرنے والے ا س کیلئے کچھ کرنے والے پیچھے رہ گئے اور گدھا شناسی کے فن میں یکتا اور ماہر خوشا مدی آگے نکل گئے۔