"MABC" (space) message & send to 7575

قطر ی شہزادہ اور ہمارے حکمران

شنگھائی کانفرنس میں شرکت کیلئے میرے ملک کے وزیر اعظم جب قازقستان کی سر زمین پر اترے تو ان کے نائب وزیر خارجہ نے معمول کے مطا بق جہاز کی سیڑھیوں پرمیاں نواز شریف کا استقبال کیا لیکن چند گھنٹوں بعد یہ دیکھ کر دل مسوس کر رہ گیا کہ جیسے ہی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی وہاں پہنچے تو ان کا استقبال با قاعدہ ایک سربراہ مملکت کی طرح کیا گیا۔ قازقستان کی تینوں مسلح افواج کی جانب سے ان کو گارڈ آف آنرپیش کیا گیا، بھارت کے قومی ترانے کی دھنیں بکھیری گئیں ۔ 
قطر کا شہزادہ کہہ رہا ہے کہ پاکستان کی عدالت کے سامنے پیش ہونا شاہی خاندان کے شایانِ شان نہیں جب میرے ملک کا وزیر اعظم پاکستان کی کسی بھی عدالت میں پیش ہو سکتا ہے یا اس عدالت کی تشکیل دی جانے والی تفتیشی ٹیم کے سامنے حاضر ہو سکتا ہے تو قطر کے ایک شہزادے کا استحقاق تو میرے ملک کے وزیراعظم سے بہت ہی کم ہے۔ اس لئے جے آئی ٹی کے ذرائع سے میڈیا میں آنے والی رپورٹس میں دیا جانے والا یہ تاثر مناسب نہیں لگتا کہ جے آئی ٹی کے دو ارکان پر مشتمل ٹیم قطر جا کر شہزادہ حماد بن جاسم الثانی سے ان کے سپریم کورٹ میں پیش کئے جانے والے خط کی روشنی میں تفصیلی ملاقات کرے۔ قطر کے شہزادہ حماد بن جاسم نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں جو خط پیش کیا ہے‘ وہ سپریم کورٹ کے مجبور کرنے پر نہیں بلکہ انہوں نے رضاکارانہ طور پر دیا ہے۔ اس سلسلے میں ان سے کوئی درخواست نہیں کی گئی تھی۔شہزادہ جاسم شائد بدلتے حالات کی نزاکت کو درست طور پر سمجھ نہیں سکے، وہ وقت اور تھا جب انہوں نے ہیلی کاپٹر کیس میں اپنا خط پیش کرتے ہوئے شریف خاندان کی صفائی دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہیلی کاپٹر انہوں نے شریف فیملی کو تحفے میں دیا ہے اس وقت چونکہ اس معاملے میں کسی دوسرے فریق کی جانب سے کوئی سنجیدگی نہیں تھی بلکہ اس کیس کو نمٹانے کیلئے صرف رسمی کارروائی کی جا رہی تھی لیکن اس دفعہ معاملہ ہیلی کاپٹر کیس سے قطعی مختلف ہے اس وقت شاید مک مکا تھا لیکن آج ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا ۔
حماد بن جاسم جب پارک لین فلیٹس کے بارے میں پانامہ لیکس میں اٹھائے گئے قانونی معاملات کو سلجھانے کیلئے سپریم کورٹ آف پاکستان میں پیش کرنے سے پہلے اپنا یہ خط ڈرافٹ کر رہے تھے یا اس خط کو مکمل کرنے کے بعد قطر میں پاکستانی سفیر سے اس کی تصدیق کروا رہے تھے اور تمام قانونی نکات مکمل کرنے کے بعد جب اس خط کو پیش کرنے کیلئے اسے شریف فیملی کے حوالے کر رہے تھے تو کیا ان کے کسی بھی قانونی مشیرنے انہیں بتایا نہیں تھا کہ حضور والا اس خط کی تفصیلات کو ثابت کرنے کیلئے آپ کو ان کی سپریم کورٹ کے سامنے ذاتی طور پر پیش ہونا پڑ سکتا ہے؟۔ شاہی خاندان کے قانونی ماہرین لا علم تو نہیں ہو سکتے کہ دنیا بھر کے قانون شہا دت میں یہ درج ہے کہ اگر عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جائے یا عدالت کے سامنے جان بوجھ کر جھوٹ بولا جائے تو یہ جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ 
شریف خاندان کے وکیل اکرم شیخ جب قطری شہزادے کا یہ خط سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے سامنے پیش کر رہے تھے تو ان کے کہے وہ الفاظ آج بھی عدالتی کارروائی کا حصہ ہونے کی وجہ سے سنے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا'' مائی لارڈ اب میں آپ کے سامنے ایک ایسی دستاویزپیش کرنے جا رہا ہوں جو انتہائی خفیہ ہے لیکن جس سے اس مقدمے کی حیثیت ہی ختم ہو کر رہ جائے گی جیسے ہی ان کے یہ الفاظ گونجے تو کمرہ عدالت میں ایک سنا ٹا سا چھا گیا۔ عمران خان سمیت عدالت میں موجود سب لوگ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے ابھی ان سب کی حیرت کم نہیں ہوئی تھی کہ اکرم شیخ نے قطری شہزادے کا وہ مشہور خط سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کے سامنے رکھ دیا۔۔۔تو جناب والا یہ خط لکھنے سے پہلے اور اسے حکومت پاکستان کے حوالے کرنے سے پہلے اسے عدالتی کارروائی کا باقاعدہ حصہ بنانے سے پہلے آپ کو سوچنا چاہئے تھا کہ کل کو اگر شہزادے کو عدالت نے اس خط کی سچائی اور اس میں در ج کی گئی کسی بھی تفصیل کی جانچ پڑتال کیلئے طلب کیا تو انہیں اس معزز عدالت کے سامنے پیش ہونا پڑ سکتا ہے کیونکہ اگر میرے ملک کا وزیر اعظم اس خط کے بارے میں جواب دینے کیلئے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو سکتا ہے تو کسی بھی شہزادے کی عزت اور احترام اپنی جگہ پر لیکن اس کی شان اور مرتبہ ہمارے وزیر اعظم سے زیا دہ کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔ وزیر اعظم کی کرسی پر چاہے کوئی بھی ہو لیکن وہ کرسی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ملکیت ہے وہ دنیا کی ساتویں بڑی ایٹمی قوت کے حامل ملک کے وزیر اعظم کی کرسی ہے اس لئے جے آئی ٹی کے سامنے وزیر اعظم پاکستان کے پیش ہونے کے بعد قطری شہزادے کو پیش ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے کیونکہ عدالتی کارروائی میں جس طرح رضاکارانہ طور پر قطری شہزادے نے مداخلت کی ہے انہیں اس پر قائم رہتے ہوئے پاکستان کے عدالتی وقار کو سامنے رکھتے ہوئے خود بھی پیش ہونا چاہئے ۔
یہ میں نے کسی جگہ پڑھا ہے کہ کسی نے دوحا قطر میں حماد بن جاسم سے جے آئی ٹی کے دوحا آنے کی خبر پر اپنی رائے دینے کیلئے رابطہ کیا تو انہوں نے کہ وہ غیر ملکی ہونے کی وجہ سے پاکستان کے کسی قانون کے پابند نہیں ہیں کیونکہ وہ پاکستانی شہری نہیں ہیں لیکن چونکہ انہیں ہر ملک کے قانون کا احترام ہے اس لئے پاکستان سے آئے ہوئے جے آئی ٹی ارکان سے ملاقات کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ مجھے خبر ہے کہ پاکستان میں شریف خاندان کو1972ء میں بھٹو حکومت نے بہت نقصان پہنچایا تھا، اس گروپ کے مطا بق شہزادہ جاسم نے بتایا کہ ہم شاہی خاندان کے لوگ کسی بھی دوسرے شخص سے کاروباری شراکت کرتے ہوئے ان کے حسب ونسب کے بارے میں مکمل تفصیلات سے آگاہ ہونے کے بعد ہی ان کے ساتھ چلتے ہیں اور شریف خاندان ایک نیک اور بااصول خاندان ہے۔اس پر پاکستان میں کچھ لوگ جھوٹے الزامات لگا رہے ہیں اور اس سلسلے میں کچھ لوگوں کی طرف سے ہمارے شاہی خاندان کو بھی بد نام کیا جا رہا ہے۔
قطری شہزادے کے خیالات سر آنکھوں پر‘ ان کا احترام ہم پاکستانیوں کیلئے واجب ہے لیکن عرض یہ ہے کہ یہ خط آپ نے پاکستان کیلئے نہیں لکھا بلکہ اس کے ایک خاندان کو خوش کرنے کیلئے لکھا ہے اس لئے آپ کو خود پاکستان آ کر اپنی اور شریف خاندان کی صفائی دینی ہو گی کیونکہ۔۔۔YOU ASKED FOR IT۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں