"MABC" (space) message & send to 7575

میرے لیے چند فیصد بھی نہیں؟؟

بظاہربھکاری دکھائی دینے والے کو سڑک کنارے گرا ہوا دیکھ کر ایک شریف صورت انسان اپنے لباس کی پروا کئے بغیر اپنے ڈرائیور کی مدد سے اسے گاڑی میں ڈال کر قریب ہی واقع ایک بڑے سے نجی ہسپتال لے گیا۔ شہر کی معروف ہستی کو کلینک میں اس بد حال نوجوان کے ساتھ دیکھا تو سب حیران رہ گئے۔ اس کا چیک اپ کرایا تو اس نے بتایا کہ بھوک اور گرمی کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہوئی ہے۔ ڈاکٹروں نے فوری طور پر اسے کچھ انجکشن اور ڈرپ لگا دی، کوئی دو گھنٹے بعد وہ نیک دل انسان اس بد حال بھکاری کو ہسپتال سے اپنے گھر لے آیا ۔ شاندار اور آرام دہ صوفے پر بیٹھا ہوا نوجوان اپنی جانب دیکھتے ہوئے سوچنے لگا کہ اسے یہاں سے بھاگ جانا چاہئے۔ انہی سوچوں میں گم تھا کہ صاف ستھرے لباس میں ملبوس ایک ویٹر بڑی اور خوبصورت سی ٹرالی کھینچتا ہو اس کی جانب بڑھا جو کھانے پینے کی اشیا سے لدی ہوئی تھی، اب اس کیلئے ایک اور مصیبت نازل ہو چکی تھی کہ وہ یہ کیسے اور کس طرح کھائے گا۔بے شک بھوک نے کئی گھنٹوں سے اس کا برا حال کیا ہوا تھا اور اگر اسے یہ سب کہیں باہرملتا تو اس ٹرالی میں رکھی ہوئی اشیا پر ٹوٹ پڑتا لیکن یہاں تو اس کے ہاتھ پائوں من من کے ہو چلے تھے۔
کچھ ہی دیر بعد اسے یہاں تک لانے والے صاحب لباس تبدیل کر کے اس کے پاس آئے اور خوبصورت نازک سی پلیٹ میں مختلف اشیا ڈال کر اس کے آگے رکھتے ہوئے کھانے پر مجبور کرنے لگے۔ اچھی طرح پیٹ بھر جانے کے بعد چائے پیتے ہوئے صاحب نے اس نوجوان بھکاری سے اس کے بارے میں پوچھا تو وہ وقفے وقفے سے روتے ہوئے اسے بتانے لگا کہ باپ فوت ہو چکا ہے، غربت کی وجہ سے ایف اے تک پڑھنے کے بعد نوکری کی تلاش میں دھکے کھاتا پھرتا ہے گائوں سے ساتھ جو کچھ لایا تھا وہ سب کب کا ختم ہو چکا ہے، اب آدھا دن نوکری کی تلاش میںگزارنے کے بعد باقی دن مانگ کر گزارا کرتا ہے کیونکہ رات کو فٹ پاتھ یا کسی پارک کے بنچ پر سونے کیلئے اسے پولیس کو پیسے دینے پڑتے ہیں۔ نوجوان بھکاری کی داستان سننے کے بعد صاحب نے اپنے سامنے رکھی گھنٹی پر ہاتھ رکھا تو ایک با ادب ملازم حاضر ہوا نوجوان کو اس کے سپرد کرتے ہوئے کہا کہ اسے مہمان خانے میں لے جایا جائے ۔۔ جب اسے بتایا گیا کہ وہ اب یہاں اس کمرے میں رہے گا تو اس کی آ نکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
شام ہوتے ہی ڈرائیور اسے ساتھ لئے بڑی سی مارکیٹ جا پہنچا جہاں وہ اکثر کھڑے ہو کر بھیک مانگا کرتا تھا اسے ہر لمحے یہی دھڑکا لگا کہ ہر راہ چلتا یا دکاندار اسے پہچان کر بھگا دے گا لیکن جب اسے ایک بڑے سٹور سے اس کے پہننے کیلئے بہترین کپڑے اور جوتے خریدے جانے لگے تو ایسا لگا کہ وہ ابھی زمین میں دھنس جائے گا شہر کے بڑے سٹور کے سیلز مین اور گاہک اس نوجوان کی حالت اور خریدے گئے لباس کو دیکھ کر حیرت زدہ سے ہو رہے تھے اور وہ بڑی مشکل سے چوری نظروں سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سٹور سے نکل کر ڈرائیورکے ساتھ واپس جانے کیلئے گاڑی تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔
دس روز بعد ایک صبح صاحب نے اسے بلایا اور اسے لئے ہوئے کپڑوں کی ایک بڑی مارکیٹ میں لے گئے جہاں اسے بطور سیلز مین ایک دکاندار کے حوالے کر دیا اسے وہاںکام کرتے کوئی ایک سال ہوا تھا کہ ایک دن صاحب نے وہی دکان خرید کر اس کے حوالے کر تے ہوئے کہا یہ د کان اب تمہاری ہو چکی ہے اس میں تمام کپڑا بھی تمہارا ہے اس کے علا وہ مزید کپڑا بھی تمہیں مہیا کیا جایا کرے گا۔۔۔ شرط یہ ہے کہ تم نے ہر ماہ کی پہلی اتوار کو اپنی اس دکان کی تمام کمائی کا صرف پانچ فیصد مجھے ادا کرنا ہو گا نوجوان نے جو یہ بات سنی تو اسے یقین نہ آ یا لیکن جب اس نے دکان کے کاغذات دیکھے تو وہ چکرا کر رہ گیا کہ اب وہ اس دکان کا واحد مالک بن چکا ہے اور اس میں کام کرنے والے اس کے ملازم ہوں گے۔۔۔ وہ دھاڑیں مارتا ہوا صاحب کے پائوں میں گر گیا۔
صاحب کی جانب سے اسے ہر قسم کا کپڑا مہیا ہونے اورمارکیٹ میں ا س کے اصلی کپڑے اور صحیح دام کی دھوم مچنے سے خریداروں کا رش بڑھنے لگا اور پھر ایک سال بعد ہی صاحب نے ساتھ والی دکان بھی خرید کر اس کے حوالے کر دی۔ اب اس نے اپنی شادی کاسوچا اور اپنی ماں کی وساطت سے خاندان میں شادی کر لی جس پر اسے صاحب کی جانب سے اچھی آبادی میں ایک کنال کا نیا گھر بھی لے دیا گیا شادی کے چند ماہ تک تو وہ روزانہ صاحب سے ملنے جاتا رہا لیکن پھر اس میں وقفہ آنا شروع ہو گیا جس کیلئے صاحب کو ہر ماہ طے شدہ پانچ فیصد وصول کرنے کیلئے خود اس کے گھر جا نا پڑا۔
بھکاری نوجوان کی ایک سے د دکانیں ہونے سے آمدنی بڑھنا شروع ہو چکی تھی اس لئے ہر ماہ اس کا پانچ فیصد دی جانے والی رقم دیکھتے ہوئے اس کی نیت میں فتور آنا شروع ہو گیا کئی ماہ تک تو وہ اس میں گھپلے کرتا رہا کبھی کبھی نقصان کا بہانہ بھی کیا اور پھر ایک دن سوچا کہ روزانہ دس بجے دکان پر جاکر رات دس بجے تک گرمیوں اورسردیوںمیں کام کرتا ہوں نہ جانے کتنے لوگوں سے مغز ماری کرنے کے بعد چار پیسے ہاتھ آتے ہیں اور صاحب ہر ماہ کی پہلی اتوار کو بلا ناغہ اپنا پانچ فیصد ''بھتہ‘‘ لینے پہنچ جاتے ہیں اب میرے بیوی بچے ہیں پہلے تو اکیلا تھا اب ان کے اخراجات بھی ہیں، بالآخر اس نے فیصلہ کیا اب یہ پانچ فیصد والا صاحب کا ماہانہ بھتہ اسے ختم کرنا ہو گا بیگم بھی کئی ماہ سے کہہ رہی ہے کہ ہم کیوں اسے یہ پیسے دیں یہ ہمارے بچوں کے کام آئیں گے۔
مہینہ پورا ہوتے ہی پہلے اتوار'' صاحب‘‘ نے طے شدہ پانچ فیصد لینے کیلئے اس نوجوان کے گھر کی گھنٹی بجائی تو کوئی اندر سے کوئی جواب نہ ملنے پر دو تین بار گیٹ پر ہاتھ مارا تو وہ نوجوان بری طرح منہ بناتا ہوا ہلکا سا دروازہ کھولتے ہوئے بولا اب کوئی پانچ فیصد نہیںمیرے اپنے اخراجات پورے نہیں ہوتے، یہ کہتے ہوئے اس نے کھڑاک سے دروازہ بند کر دیا۔۔۔اور وہ صاحب جنہوں نے اسے زمین اٹھا کر بلندیوں تک پہنچایا جس نے سڑک پر گرے ہوئے بھکاری کے منہ میں پانی ڈالا اسے ہسپتال اور پھر گھر لے جانے کے بعد ایک بھکاری سے شہر کا ایک کامیاب تاجر بنایا۔۔۔۔ کھڑاک سے بند کئے گئے دروازے کے باہر کھڑا سوچ رہا تھا کہ جسے کروڑ پتی بنایا اس کے پاس میرے لئے پانچ فیصد بھی نہیں؟۔ 
اب ذرا سوچیں کہ ہمارے پروردگار نے ہمیں کس حالت میں پیدا کیا بچپن اور لڑکپن سے ہوتے ہوئے جوان ہوئے اور وہ بیش بہا نعمتیں یاد کریں جن سے ہمیں اس نے نواز رکھا ہے بڑے بڑے گھر، بنگلے گاڑیاں اور اولاد کی نعمت سے سرفراز کرتے ہوئے ہاتھ پائوں کان آنکھیں اور صحت و تندرستی دی ہے۔۔۔ہم کیا تھے اور اﷲ کے کرم اور مہربانی سے آج کیا ہیں چند لمحوں کیلئے اپنے آبائی گھروں اور والدین کے ساتھ گزاری ہو ئی زندگیوں کو دیکھئے اورپھر اﷲ نے اپنی نعمتوں سے لاکھوں کروڑوں روپے کا مالک بنا د یا اچھی ملازمت اور بہترین کاروبار عنایت کیا اور اگر وہ اپنی بد حال، مظلوم مخلوق کیلئے ہم سے سال بعد اگر اس کا صرف اڑھائی فیصد زکوٰۃ کے طور پر دینے کو کہتا ہے تو ہمارے ہاتھ سکڑ جاتے ہیں ہم اپنا منہ دوسری جانب کرتے ہوئے دروازے بند کردیتے ہیں؟!!کیوں؟

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں