"MABC" (space) message & send to 7575

بم پروف گاڑی

حکومت پاکستان اور اس کے اہم ترین ادارے ہلکے پھلکے بیانات اور دھمکیوں کی زبان میں ملنے والے اشاروں سے یقینا جان چکے ہوں گے کہ امریکہ اور بھارت سمیت کچھ ممالک نہیں چاہتے کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا جائے۔ مسلم لیگ نواز کی حکومت اس سلسلے میں اگر دو قدم آگے کی جانب بڑھانے کا ارادہ کرتی ہے تو اگلے ہی لمحے چار قدم پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ حال اور مستقبل کی کچھ ایسی سیاسی مجبوریوں نے نواز حکومت کے پائوں جکڑ رکھے ہیں کہ اس کے لئے حتمی فیصلہ کرنا دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ اگر وہ قبائلی علا قوں کو کے پی میں ضم کر دیتی ہے تو ا س کے دوستوں‘ محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان کی کے پی اور بلوچستان میں طاقت اور سیاست کو زک پہنچنے کا احتمال ہے۔ جس کے میاں نواز شریف کبھی بھی متحمل نہیں ہو سکیں گے۔ اور اس کا با قاعدہ اظہار ان کے یہ دونوں دوست ان سے ہونے والی ملاقاتوں میں برملا کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف کے مرکز، بلوچستان اور کے پی‘ کے یہ دونوں اتحادی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں کہ فاٹا کو ہر حالت میں کے پی میں ضم ہونے سے روکا جا سکے۔ دوسری جانب آنے والے دنوں میں فاٹا کی آزاد حیثیت امریکہ، بھارت، افغانستان اور برطانیہ کے پاکستان کے بارے میں طے شدہ ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ناگزیر ہے۔ اگر ملک کی دوسری سیاسی جماعتیں اور ملک کی محافظ قوتیں امریکہ اور بھارت کی ان کوششوں کو ناکام بنا دیتی ہیں تو اس کے الحاق کے با قاعدہ منظور ہونے کے ساتھ ہی امریکہ اوربرطانیہ سمیت بھارت کے لئے اپنی سازشوں اور تخریبی کارروائیوں کی تکمیل کی راہ میں خاصی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ کیونکہ ہر قسم کی مخالفت اور رکاوٹ عبور کرتے ہوئے افواجِ پاکستان کی جانب سے 2356 کلو میٹر طویل پاک افغان سرحد پر56 ارب روپے کی لاگت سے بارہ فٹ اونچی خار دار تاروں کی جو باڑ لگائی جا رہی ہے‘ وہ اس الحاق کی تکمیل کی جانب اشارہ ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد ان آہنی باڑوں میں شام ہونے سے پہلے ہی برقی رو چھوڑ دی جائے گی اور یوں پاکستان کی مغربی سرحد بھی بہت حد تک محفوظ ہو جائے گی۔ پاک فوج کی نگرانی میں اس منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ پاک افغان سرحد پر انتہائی جدید اور حساس قسم کے مواصلاتی آلات کی سہولتوں سے لیس ایف سی کی70 نئی اور انتہائی تربیت یافتہ کمپنیوں کو اس سرحد کے ساتھ بنائے گئے مورچہ نما قلعوں اور پوسٹوں پر تعینات کیا جا ئے گا تاکہ وہ پاک افغان سرحد کے چپے چپے پر دہشت گرد گروپوں کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھ سکیں۔ اور اگر عمیق نظروں سے دیکھا جائے تو یہ سرحدی باڑ صرف پاکستان کے لئے نہیں بلکہ افغانستان میں قیام امن کے لئے بھی بے حد کار آمد رہے گی۔ کیونکہ اس کے دوسری جانب بیٹھی ہوئی افغان فوج اور اس کی ایجنسیاں اگر الرٹ رہیں تو دونوں جانب سے کسی بھی دہشت گرد کا ایک دوسرے کے علاقے میں داخلہ ناممکن بن کر رہ جائے گا۔ ایک جانب جہاں امریکہ، بھارت اور افغانستان سمیت برطانیہ کی خفیہ ایجنسیاں فاٹا کے کے پی میں ضم ہونے کی خبروں سے بے چین ہیں تو ساتھ ہی امریکی پاکستان کے ایسے لوگوں کو جو ہمیشہ کی طرح اس مسئلے پر بھی ان کی مدد کے لئے پیش پیش ہیں‘ کی حفاظت کیلئے ہر ممکن کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ '' ایک بہت ہی سینئر فوجی افسر جنہوں نے1983-84 میں War Course کیا تھا‘ بتاتے ہیں کہ ''ہم نے آج سے 33 برس قبل اپنے وار کورس میںحکومت پاکستان کو تجویز دی تھی کہ فاٹا کو جس قدر جلد ہو سکے، باقاعدہ طور پر پاکستان کے ساتھ شامل کر لیا جائے‘‘۔ ان کی یہ تجویز شاید اس وقت روس کی افغانستان میں موجودگی اور افغان جہاد‘ اور اس کے بعد طالبان کی حکومت اور شورش کی وجہ سے بھرپور توجہ حاصل نہیں کر سکی۔ لیکن اس وقت پاکستان کے لئے اس سے بہتر موقع کبھی بھی نہیں آ ئے گا کیونکہ ضربِ عضب اور آپریشن ردّ الفساد کی بے پناہ قربانیوں کی وجہ سے دہشت گردوں کے دس سے زائد گروپ‘ جنہیں یہاں سے نکال باہر کر دیا گیا ہے‘ اب بھی فاٹا کے اندر ''کہیں ہیں کہ نہیں ہیں‘‘ کی صورت میں موجود ہیں۔ جس کی تازہ مثال راجگال میں لیفٹیننٹ ارسلان کی شہادت کی صورت میں سامنے آ چکی ہے۔ اگر فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم نہیں کیا جاتا تو آپریشن راہِ نجات سے ضربِ عضب اور ردّ الفساد تک حاصل ہونے والی کامیابیاں ضائع ہو سکتی ہیں۔
ایک خلیجی ملک جو اپنی روشن خیالی اور تعمیرو ترقی کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں اور سرمایہ کاروں کی جنت بن چکاہے‘ اس وقت بین الاقوامی اداروں، مختلف تنظیموں اور کچھ طاقتور ملکوں کی پس پردہ سرگرمیوں کا اہم مرکز بھی سمجھا جاتا ہے۔کوئی چھ ماہ قبل ایک طاقتور اور بہت بڑے ملک کی اندرون اور بیرون ملک کام کرنے والی مشہور ترین خفیہ ایجنسی نے اس خلیجی ملک میں ایشیا بالخصوص جنوبی ایشیا میں اس بڑے ملک کے مفاد کے لئے کام کرنے والی سیا سی اور مذہبی شخصیات کو طاقتور اور جدید ترین سہولیات سے لیس ''جدید ترین بم پروف‘‘ گاڑیاں فراہم کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس سلسلے میں ان کی جانب سے دبئی کی بم پروف گاڑیاں فراہم کرنے والی ایک پرائیویٹ کمپنی سے رابطہ کیا گیا۔ اس کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کے مطا بق اس سے پہلے بھی ان کی کمپنی مذکورہ ایجنسی کی ڈیمانڈ کے مطا بق سہولیات سے لیس گاڑیاں فراہم کرتی رہی ہے۔
دبئی کی اس کمپنی اور مذکورہ خفیہ ایجنسی کے درمیان طے کئے گئے SOP کے مطا بق خفیہ ایجنسی کو یہ حق تھا کہ مذکورہ کمپنی کی جانب سے فراہم کی جانے والی ہر بم پروف گاڑی کو صرف اسی وقت قبول کیا جائے گا جب تک اس گاڑی پر مختلف دھماکہ 
خیز مواد سے کئے جانے والے بم حملوں کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی کارکردگی کو با قاعدہ جانچ نہیں لیا جاتا۔ اس گاڑی پر کئے جانے والے طاقتور بم حملوں کے بعد بھی ایجنسی کے اہل کار اس کمپنی سے اس بات کی تحریری گارنٹی لیتے تھے کہ انہیں دی جانے والی گاڑی ان تمام شرائط پر پورا اترے گی جن کا ان سے تحریری معاہدہ کیا گیا ہے۔ لیکن دوسری جانب یہ گارنٹی دیتے ہوئے دبئی کی گاڑیاں فراہم کرنے والے وہ کمپنی اس بات کی بھی مُجاز تھی کہ وہ بم پروف گاڑی وصول کرنے والوں سے اُس شخصیت کا مکمل نام اور ایڈریس جان سکے کہ جس کے استعمال کے لئے یہ گاڑی ان سے خریدی جا رہی تھی۔ اس معاہدے کی رو سے دبئی کی مذکورہ کمپنی جب اپنے کلائنٹ کو گاڑی پر خطرناک ہتھیاروں اور بم حملوںکا عملی مظاہرہ کرانے کے بعد اسے گاڑی ان کے حوالے کر رہی تھی تو اس ایجنسی نے طے کی گئی شرائط کے مطا بق اس شخصیت کی مکمل شناخت کے کاغذات کمپنی کے حوالے کئے۔ جسے وصول کرتے ہوئے‘ جیسے ہی نام پر نظر پڑی تو کمپنی کے چیف ایگزیکٹو یوں اچھل پڑے جیسے انہیں کسی ہائی وولٹیج کا جھٹکا لگا ہو کیونکہ وہ بم پروف گاڑی پاکستان کی ایک بہت بڑی مذہبی اور سیا سی شخصیت کو فراہم کی جا رہی تھی‘‘۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں