خیبر پختونخوا کی قومی اسمبلی کے حلقہ این اے چار کے ضمنی انتخاب کے نتائج کا اعلان ہو چکا جس میں بیس کروڑ عوام کی مقبولیت کا دعویٰ کرنے والی مسلم لیگ نواز کا امیدوار نا صر خان موسیٰ زئی عوام کے بھاری ووٹوں سے شکست کھا چکا ہے۔ کیا بقول لیگی خاندان‘ یہ سمجھ لیا جائے کہ عوام کے اس بھاری فیصلے نے ثابت کر دیا ہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی معزز بنچ کا میاں نواز شریف کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ درست ہے۔ اگر تو اس ضمنی الیکشن کو اس خیال اور سوچ کے مطا بق موضوع بنانے سے گریز کیا جائے کہ ہر حکمران جماعت ہی ضمنی انتخاب میں کامیاب ہوتی چلی آ رہی ہے تو یہ تجزیہ درست مان لیتے ہیں لیکن چونکہ یہ ضمنی الیکشن اس بات کا فیصلہ کرنے والا تھا کہ لاہو رکے این اے 120 میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں پنجاب کے عوام نے بیگم کلثوم نواز کے حق میں ووٹ دے کر ثابت کیا ہے کہ میاں نواز شریف کو نا اہل قرار دینے کا فیصلہ عوام نے قبول نہیں کیا اور کسی کو رد کرنا یا نا اہل قرار دینا کسی عدالت کا نہیں بلکہ عوام کا کام ہوتا ہے تو پھر خیبر پختونخوا کے عوام نے تو بہت بڑے مارجن کے ساتھ میاں نواز شریف کو شکست دیتے ہوئے ثابت کر دیا ہے کہ عدالت نے جو کچھ کیا درست کیا ۔اس کے باوجود میں یہی ہوں گا کہ انتخابات کے فیصلے اور عدالتوں کے فیصلے ایک دوسرے سے بہت کم متفق ہوتے ہیں، ایک جانب قانون اور شہادتیں ہوتی ہیں تو دوسری جانب سیا سیات کے متعدد باب ہوتے ہیں۔
پشاور این اے چار میں جو چار بڑی سیا سی جماعتیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھیں ان میں تحریک انصاف، مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی اور خان ولی خان کی عوامی نیشنل پارٹی شامل تھی۔تحریک انصاف کے پی میں حکمران تھی جبکہ اس کے مقابلے میں ملک کی سب سے زیا دہ طاقتور اور با اختیار جماعت مسلم لیگ نواز تھی جس کے پاس مرکز ، پنجاب اور فاٹا کے وسائل تھے چونکہ مرکز میں اس کا وزیر اعظم اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بیش بہا خزانے تھے تو گورنر کے پی کی صورت میں بے پناہ طاقت، اربوں روپے کے خفیہ فنڈز اور قبائلی مفادات کے ون مین اختیارات تھے۔ہمیشہ سے ہی کے پی کا گورنر اس کے صوبے کے وزیر اعلیٰ سے کہیں زیا دہ وسائل اور اختیارات کا مالک ہوتا ہے اور ایجنسیوں میں کسی ایک من پسند پولیٹیکل ایجنٹ کی تقرری سے ہی ہزاروں ووٹ ادھر سے ادھر ہوجاتے ہیں۔
مسلم لیگ نواز نے این اے چار کے اس ضمنی انتخاب کے دوران اس کے ووٹروں پر نفسیاتی حملہ کرنے کیلئے ایک منصوبہ تیار کیا ہوا تھا جس کی تیاری تو کاغذات نامزدگی کے دوران ہی اسلام آباد کے پنجاب ہائوس میں مولانا فضل الرحمان اور میاں نواز شریف کی باہمی ملاقات کے دوران تیار کر لی گئی تھی لیکن فیصلہ اس میں یہ کیا گیا کہ اس کا اعلان ا نتخاب سے ایک یا دو ہفتے پہلے کیا جائے گا۔مولانا فضل الرحمان نے اپنی جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے خالد وقار چمکنی کو اس ضمنی الیکشن کیلئے کاغذات نامزدگی داخل کرنے کو کہہ دیا اور جب انتخابی مہم اپنے عروج پر تھی تو حسب معاہدہ ایک دن میڈیا پر بھرپور پروپیگنڈا کرتے ہوئے مسلم لیگ نواز کے پی ‘کے صدر امیر مقام اور جمعیت علمائے اسلام کے صوبائی صدر مولانا گل نصیب خان کی ایک پر ہجوم مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا گیا کہ مولانا فضل الرحمان کی خصوصی ہدایات پر خالد وقار چمکنی کو مسلم لیگ نواز کے امیدوار قومی اسمبلی نا صر خان موسیٰ زئی کے حق میں دستبردار کیا جارہا ہے۔۔۔اب کسی بھی دینی جماعت اور اس کی حمایت کرنے والوں سے پوچھنے کا حق ہے کہ ایک ہفتہ قبل جو جماعت اور لیڈر آئین پاکستان
سے ''حلف‘‘ کے لفظ کو ٹیکنیکل طریقے سے ''اقرار‘ میں بدلنے کی سازش کرتا ہے اس کے امیدوار کے حق میں دینی جماعت کی مدد کرنے کیلئے اس جماعت اور اس کے لیڈر کو مضبوط کرنے کے لئے آئین کی اس ترمیم کی توثیق کرنے کیلئے دست برداری جائز کہی جا سکتی ہے؟اس کا فیصلہ ایک مرتبہ پھر اس ملک کے عوام پر چھوڑے دیتے ہیں۔اگر وہ مذہب کے نام پر سیا ست کرنے والی کسی بھی جماعت کے اس قسم کے عمل کو جائز اور عین عبا دت سمجھتے ہیں تو یہ ان کا اپنا فعل ہو گا جس کے وہ آج نہیں تو اگلے جہان میں لازمی جواب دہ ہوں گے۔
حلقہ این اے چار کے اس ضمنی الیکشن کی نشست تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے گلزار خان کی وفات سے خالی ہوئی لیکن یہ بات ذہن میں رکھئے کہ گلزار صاحب ان چند ایک اراکین قومی اسمبلی میں شامل تھے جنہوں نے اسلام آباد میں تحریک انصاف کے دھرنے کے موقع پر عمران خان سے دھوکہ کرتے ہوئے میاں نواز شریف کی حمایت کا اعلان کر دیا تھا۔۔۔گلزار خان مرحوم جانتے تھے کہ اگلے الیکشن میں انہیں تحریک انصاف کا ٹکٹ نہیں ملے گا اس لئے انہوں نے پوری کوشش کی کہ مسلم لیگ نواز سے اگلا ٹکٹ کنفرم کرا لیں لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکا جس پر ان کے قریبی رابطے آصف علی زرداری سے ہونے لگے اور پھر یہی ہوا کہ 28 اگست کو ان کی اچانک وفات نے ان کے بیٹے کو پی پی پی کے قریب کر دیا جس نے انہیں اس ضمنی الیکشن کیلئے انہیں یہ سمجھتے ہوئے اپنا امیدوار بنا لیا کہ باپ کی وفات سے متعلقہ حلقے سے حاصل ہونے والا ہمدردی کا ووٹ پی پی کا اضافی اثاثہ ہو گا۔
مسلم لیگ نواز کے امیدوار نا صر خان موسیٰ زئی کی مدد کیلئے ملک کا طا قتور میڈیا خم ٹھونک کر میدان میں اتر پڑا اور لاہور اسلام آباد سے سکہ بند قسم کے '' تجزیہ کار‘‘ سروے کرنے کیلئے پشاور پہنچنا شروع ہو گئے۔ روانگی سے پہلے انہیں لیگی میڈیا سیل وغیرہ کی جانب سے خصوصی طور پر بریفنگ دی گئی۔۔۔اور یقین جانئے ایک براہ راست دکھائے گئے سروے کو دیکھنے کے بعد میرے جیساشخص بھی چکراکر رہ گیا کہ پشاور میں پی ٹی آئی کی حمایت کرنے والا خال خال ہی نظر کیوں آ رہا ہے۔ جس طرف بھی کیمرہ جاتا وہاں مسلم لیگ نواز کے علا وہ کسی اور کا سپورٹر نظر نہیں آرہاتھا بلکہ یہاں تک ہوا کہ میاں نواز شریف کے ایک پر جوش حامی کی طرف سے عمران خان کو دی جانے والی گالی کو بار بار دکھا یا گیا۔
اب ایک جانب گورنر کے پی ، وزیرداخلہ، وزیر خزانہ ایف آئی اے، پیسکو، گیس ، اسحاق ڈار اورماروی میمن کے انکم سپورٹ پروگرام کے اربوں روپے تھے تو ان کو تقویت دینے کیلئے الیکٹرانک میڈیا کے تباہ کن تبصرے اورتجزیے تھے جن کا مقابلہ کے پی حکومت کر رہی تھی، اس ضمنی الیکشن میں بلوچستان حکومت بھی کسی سے پیچھے نہ رہی اور اس حلقے میں موجود پختونوں کو لالچ اور دبائو میں لانے کیلئے زہری اور اچکزئی دن رات ایک کئے ہوئے تھے۔۔۔لیکن جب رزلٹ سامنے آیا تو الٹی ہوگئیں سب تدبیریں...تجزیوں نے کچھ کام نہ کیا اور تحریک انصاف کے امیدوار بھاری اکثریت سے اس طرح کامیاب ہو ئے کہ بیگم کلثوم نواز نے اگر پی ٹی آئی کی یاسمین راشد کے مقابلے میں 13 ہزار زائد ووٹ لئے تھے تو تحریک انصاف نے میاں نواز شریف کے امیدوار کو20 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست فاش سے ہمکنار کر دیا۔۔۔کیا میاں نواز شریف اب یہ فیصلہ تسلیم کرتے ہوئے اقرار کریں گے کہ عوام نے بھی انہیں نا اہل قرار دے دیا ہے؟؟
تحریک انصاف کے امیدوار بھاری اکثریت سے اس طرح کامیاب ہو ئے کہ بیگم کلثوم نواز نے اگر پی ٹی آئی کی یاسمین راشد کے مقابلے میں 13 ہزار زائد ووٹ لئے تھے تو تحریک انصاف نے میاں نواز شریف کے امیدوار کو20 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست فاش سے ہمکنار کر دیا۔۔۔