"MABC" (space) message & send to 7575

فیئر ٹرائل نہیں ہوا؟

معروف مزاحیہ اداکار اور ٹی وی اینکرعمر شریف اپنے سٹیج پروگراموں میں اکثر کہا کرتے ہیں کہ ایک عورت جس کے سات بچے تھے‘ اپنی پڑوسن سے بڑی حسرت سے کہا کرتی تھی ''بہن کیا بتائوں ابھی تک مجھے سچا پیار نہیں ملا‘‘۔ ان کا یہ مزاحیہ خاکہ اور فقرہ اس وقت یاد آ گیا جب لندن میں''میاں نواز شریف‘ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور شہباز شریف سے انتہائی خفیہ میٹنگ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ کہتے سنے گئے کہ ''ان کے ساتھ فیئر ٹرائل نہیں ہوا‘‘۔ میاں محمد نواز شریف کے اس شکوے کی تائید کرتے ہوئے‘ ان کے ساتھ کھڑے ان کے چھوٹے بھائی اور شہباز شریف نے بھی تائید میں سر ہلاتے ہوئے کہا بھائی صاحب کے ساتھ فیئر ٹرائل ہونا چاہئے تھا جو نہیں ہوا۔
126 دن یعنی 18 ہفتوں تک سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم میاںمحمد نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف پاناما لیکس کی سماعت ہوتی رہی۔ اس دوران بنچ میں شامل ہر جج انفرادی طور پر میاں نواز شریف کے وکلا سے کہتا رہا کہ کہیں سے قطری خط کی تفصیل یا لندن فلیٹس کے بارے میں کوئی کاغذ کا ٹکڑا ہی لے آئو تاکہ آپ کو بری کر دیا جائے۔ لیکن اس کاغذ کو نہ ملنا تھا سو نہ ملا۔ میاں نواز شریف کے خلاف پاناما لیکس کے کیس کی سماعت کے دوران اس مقصد کے لئے اتنے وقفے کئے گئے کہ کہیں سے تو کچھ ڈھونڈ لائو۔ اس کے با وجود شکوہ کیا جا رہا ہے کہ فیئر ٹرائل نہیں ہوا؟
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی معزز بنچ نے پاناما لیکس کے پہلے حصے کی طویل سماعت کے بعد کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے چھ اراکین پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا اور جیسے ہی معزز بنچ نے اس جے آئی ٹی کا اعلان کیا تو میاں نواز شریف سمیت ان کی پوری فیملی اور مسلم لیگ نواز نے سپریم کورٹ کی اندرونی سیڑھیاں اترتے ہوئے وکٹری کے نشانات بناتے ہوئے کامیابی اور بے گناہی ثابت ہونے کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ اور وہ فوٹو شوٹ تو کئی دنوں تک موضوع گفتگو رہا جس میں چھوٹے بھائی، اپنے بڑے بھائی صاحب کا‘ اس فیصلے کی خوشی میں منہ میٹھا کروا رہے تھے اور ساتھ کھڑے مریم صفدر اور پرویز رشید خوشی سے بے حال دکھائی دے رہے تھے۔ منہ میٹھا کرنے اور سپریم کورٹ کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر پانچ وفاقی وزراء کا وکٹری کا نشان بناتے ہوئے نعرے لگانے سے کیا یہ ثابت نہیں ہوجاتا کہ ''میاں نواز شریف کا فیئر ٹرائل ہوا ہے؟‘‘ اس کے با وجود اب میاں نواز شریف شکوہ کر رہے ہیں کہ ان کا سپریم کورٹ میں فیئر ٹرائل نہیں ہوا۔ تو پھر اب ایک ہی کسر رہ جاتی ہے کہ ان کی فرمائش پر عدالتیں جاتی امرا‘ رائے ونڈ میں قائم کر دی جائیں۔ یا ان کی خواہش پر کو آپریٹو بینکوں کے سکینڈل سے با عزت بری ہونے کی طرز پر ایک نیا کمیشن بنا دیا جائے۔ میاں محمد نواز شریف کو کیسے سمجھایا جائے کہ جناب والا! جس طرح آپ بار بار کہتے ہیں کہ اب کوئی طالع آزما مارشل لاء نہیں لگا سکتا‘ تو جس طرح اب کوئی طاقتور اپنے ذاتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے سول حکومت کو بر طرف نہیں کر سکتا، اسی طرح اب پہلے کی طرح اپنے حق میں من پسند فیصلے بھی نہیں لئے جا سکتے۔ جیسے آپ نادیدہ قوتوں کو کہتے ہیں کہ یہ 1999ء نہیں بلکہ 2017ء ہے تو حضور! سمجھ لیجئے کہ اب اداروں میں بھی ''من پسند‘ منظورِ نظر‘‘ نہیں بلکہ با عزت اور انصاف پسند حضرات بیٹھے ہوئے ہیں۔ صرف اعتزاز احسن پر ہی موقوف نہیں جو ہر ٹی وی چینل پر یہی شکوہ کرتے جا رہے ہیں کہ عدلیہ نے نواز شریف کو رعایات دی ہیں‘ ان پر ہاتھ نرم رکھا ہے،قانون سے واقف ہر شخص بھی یہی کہہ رہا ہے کہ میاں نواز شریف کو اقامہ کی بنیاد پر نااہل کرتے ہوئے شریف خاندان پر وہ احسانات کئے گئے ہیں جن کا وہ عمر بھر صلہ نہ دے سکیں گے۔ سب دیکھ رہے ہیں کہ شریف فیملی کی جانب سے سپریم کورٹ میں اپنی صفائی کے لئے پیش کئے گئے تمام ڈاکو منٹس جعلی اور بوگس تھے۔ اس کے باوجود ان پر سپریم کورٹ نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس حوالے سے کوئی کارروائی کیوں ضروری نہیں سمجھی گئی‘ یہ وہ سوال ہے جس کے بارے میں اعتزاز احسن اور ملک کے دوسرے معروف وکلا معنی خیز باتیں کرتے دیکھے جاتے ہیں۔
کسی مجسٹریٹ یا سول جج کی عدالت تو ایک طرف‘ اگر کسی سرکاری محکمے میں بھی کوئی جعلی کاغذ یا سرٹیفکیٹ جمع کرا دیا جائے تو پولیس اور ایف آئی اے میں پاکستان پنل کوڈ کے تحت دفعہ 420، 468، 471 اور 478 کا مقدمہ درج ہو جاتا ہے۔ جس کی سزا دس سے چودہ برس تک دی جا سکتی ہے لیکن سپریم کورٹ نے اس اہم اور خوفناک جرم سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنا فیصلہ اقامہ تک محدود رکھا۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو پھر سابق وزیر اعظم کی پوری فیملی کو چند گھنٹوں کے سمری ٹرائل کے ذریعے چھ ماہ قیدِ سخت کی سزا دی جا سکتی تھی۔
بوگس اور جعلی کاغذات کی جانب سے آنکھیں بندکرنے کی جو سزا ابھی تک اقامہ کے نام پر شریف فیملی کی جانب سے سپریم کورٹ کو دی جا رہی ہے اس پر کچھ نہ کہنا ہی بہتر ہو گا۔ 126 دنوں کی طویل سماعت اور اپنے دفاع میں کسی بھی قسم کا ثبوت نہ دینے کے با وجود با عزت طریقے سے نا اہل ہونے پر لندن میں میڈیا کے سامنے کھڑے ہو کر پیغام دینا کہ میرے ساتھ فیئر ٹرائل نہیں ہوا‘ سب کیلئے سوچنے کی بات ہے اور خاص طور پر ان کے لئے جو ''ایک نئے این آر او کے خد و خال درست کرنے میں دن رات مصروف ہیں‘‘۔ فیصلہ سازمت بھولیں کہ یہ این آر او بھی اس سے پیشتر آپ کی جانب سے کئے گئے این آر اوز کی طرح آپ کے اور وطن عزیز کے لئے سود مند نہیں ہو گا۔ 
این آر اوز نے شریف فیملی سے جو بھی نیکیاں اس سے پہلے کی ہیں وہ ایک کالک بن کر ان کے خالقوں کے چہروںپر اب تک اچھالی جا رہی ہیں اور اب بھی اگر آپ نے کسی این آر او کو فروغ دیا تو پھریہی سمجھا جائے گا کہ قانون صرف ان لوگوں کیلئے ہے جن کی کوئی سفارش نہیں۔
جناب اگر '' فیئر ٹرائل کے نام پر کوئی نیا این آر او تیار کیا جا رہا ہے تو پھر ملک بھر کی جیلوں، پولیس‘ ایف آئی اے اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حراست میں‘ چوری، خیانت، دھوکہ دہی، کرپشن اور لوٹ مار کرنے والے اور مقدمات کے فیصلوں کا انتظار کرنے والے سب لوگوں کو این آر او دے دیں۔ صرف طاقتور کو ہی این آر او نہ دیں جن کی پشت پر طاقتور لوگ ہیں۔

بنچ میں شامل ہر جج انفرادی طور پر میاں نواز شریف کے وکلا سے کہتا رہا کہ کہیں سے قطری خط کی تفصیل یا لندن فلیٹس کے بارے میں کوئی کاغذ کا ٹکڑا ہی لے آئو تاکہ آپ کو بری کر دیا جائے۔ لیکن اس کاغذ کو نہ ملنا تھا سو نہ ملا۔ میاں نواز شریف کے خلاف پاناما لیکس کے کیس کی سماعت کے دوران اس مقصد کے لئے اتنے وقفے کئے گئے کہ کہیں سے تو کچھ ڈھونڈ لائو۔ اس کے با وجود شکوہ کیا جا رہا ہے کہ فیئر ٹرائل نہیں ہوا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں