لاہور کے ایک بہت بڑے شاپنگ مال کے باہر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی نہ ختم ہونے والی طویل قطاریں دیکھتے ہی آگے بڑھنے کا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے واپس جانے کا فیصلہ کیا لیکن اب سب سے بڑی مشکل یہ پیش آ رہی تھی کہ گاڑی کو کس طرف سے واپس لے کر جائیں۔ میرے دوست نے گاڑی اپنے ڈرائیور کے حوالے کرتے ہوئے پیدل ہی شاپنگ مال کی جانب جانے کا فیصلہ کیا۔ ہجوم اور بے ترتیب ٹریفک میں سے گزرتے ہوئے ہم جیسے ہی شاپنگ مال کے داخلی دروازے کے قریب پہنچے تو اندر اخل ہونے کیلئے مردوں اور عورتوں کی علیحدہ علیحدہ طویل قطاریں دیکھتے ہی چکرا کر رہ گئے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ لاہور کے تمام مرد و خواتین بلیک فرائیڈے کے استقبال کیلئے اس شاپنگ مال میں امڈآئے ہیں ۔ایک طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد جب سکیورٹی کے تمام مراحل طے کرتے ہوئے شاپنگ مال کے اندر پہنچے تو ایسے لگا جیسے کہ ابھی اس کے دروازے بند کر دیئے جائیں گے کیونکہ وہاں دور دور تک انسانی سروں کا سمندر دکھائی دے رہا تھا۔ کہیں بھی تل دھرنے کوجگہ نہیں مل رہی تھی۔ ابھی ہم اس رش کی جانب دیکھ ہی رہے تھے کہ اچانک ایک جانب سے زبردست ہڑبونگ اور چیخ و پکار کی آوازوں نے سب کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ شاپنگ مال کی سکیورٹی پر مامور افراد جلدی سے اس جانب لپکے ہم نے بھی دیکھنے کی کوشش کی تو یقین جانئے سامنے نظر آنے والے منا ظر دیکھتے ہی ایسا لگا جیسے ''شرافت بال کھولے ناچ رہی ہے‘‘ بہت ہی اچھے گھرانوں کی بظاہر تعلیم یافتہ اور فیشن ایبل خواتین ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہوئے ایک مشہور برانڈ کے سٹور کے اندر داخل ہونے کیلئے زور آزمائی کرتی دکھائی رہی تھیں‘ کسی کا دوپٹہ کہیں گرا ہوا تھا تو کوئی اپنے لباس اور جسم سے بے خبرتھی۔۔ایک جگہ سے اپنی پسند کے لباس خرید کر کسی دوسرے برانڈ کی جانب لپکتی ان خواتین کو اپنے آپ کا ہوش بھی نہیں تھا۔۔۔من پسند ملبوسات پسند کرنے کے بعد دوسرا بڑ امرحلہ کیش کائونٹر پر رقم کی ادائیگی کا تھا اور وہاں بھی لمبی لمبی بل کھاتی ہوئی قطاریں اور کائونٹر تک پہنچنے کیلئے طویل انتظار کا سامنا تھا۔
اس شاپنگ مال میں دیکھا جانے والایہ منظر کسی ایک برانڈ تک مخصوص نہیں تھا بلکہ اس کے اندر موجود سٹورز میں ہر جانب یہی منا ظر دیکھنے کو مل رہے تھے اور افسوس یہ تھا کہ اپنے آپ کو سر عام کس کیلئے رسوا کیاجا رہا تھا‘ صرف اور صرف چند فیصد رعایتی قیمت پر فروخت ہونے والے لباس کیلئے؟۔ وہ لباس جو اپنا ستر چھپانے کیلئے خریدا جاتا ہے لیکن ہو یہ رہا تھا کہ یہاں اس لبا س کیلئے اپنا ستر واضح کیا جا رہا تھا۔۔۔۔افسوس۔ایک سروے کے مطا بق بے حسی اور بے شرمی پر مبنی یہ منا ظر صرف لاہور تک محدود نہیں‘ صرف اسی ایک شاپنگ مال تک نہیں بلکہ پاکستان بھر کے بازاروں ، مارکیٹوں اور شاپنگ مالوں میں دیکھنے کو مل رہے تھے۔ 23 اور24 نومبر کو میڈیا نے بلیک فرائیڈے پر کی جانے والی شاپنگ کے جو منا ظر براہ راست اپنے نا ظرین کو دکھائے اس نے انسانیت کے سر شرم سے جھکا دیئے۔ ان منا ظر کو دیکھ دیکھ کر یہی ایک سوچ بے چین کئے جا رہی تھی کہ قوم کی مائیں کس جانب چل نکلی ہیں۔
بلیک فرائیڈے کہہ لیں یا اسے کوئی بھی نام دے لیں اس پر معاشیات اور مارکیٹنگ کے چند اساتذہ سے جب بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا ایک محتاط اندازے کے مطا بق پاکستان بھر میں اس کی آڑ میں مقامی اور غیر ملکی برانڈز کے نام پر ملبوسات بیچنے والوں نے دس ارب روپے سے زائد کا کاروبار کیا ہے ۔۔۔۔ بلیک فرائیڈے پر اپنی پسند کا لباس سب سے پہلے حاصل کرنے کیلئے خواتین کی آپس میں دھینگا مشتی اور ان کے ہاتھوں میں تھامے ہوئے پانچ پانچ ہزار کے نوٹ دیکھتے ہوئے مجھے فورٹ عباس کے مروٹ سے کچھ کلومیٹر آگے واقع صحر ا میں اونٹ چرانے والا وہ لڑکایاد آ گیا جسے یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ سو روپے کا نوٹ بھی ہوتا ہے۔ کوئی پندرہ برس قبل مروٹ کے ارد گرد اپنی پیشہ ورانہ مشقوں پر آئے ہوئے ایک فوجی افسر نے پھٹے پرانے کپڑے پہنے مفلوک الحال اونٹ چرانے والے اس پیا سے لڑکے کو پاس بلا کرپوچھا کہ اگر تمہیں سو روپے دے دیئے جائیں تو تم اس کا کیا کرو گے۔۔۔اس فوجی افسر کے ذہن میں تھا کہ اس سے وہ اپنے لئے کوئی لباس خرید لے گا۔۔۔جب صاحب نے سو روپے کے نوٹ والی بات کی تو سامنے کھڑا ہوا بارہ سالہ لڑکا فوجی افسر کی بات شائد صحیح طریقے سے سن نہیں سکا تھا یا وہ اس بے یقینی کی کیفیت میں تھا کہ کوئی اس جیسے غریب ترین لاوارث بچے سے اس قسم کے پیار بھرے لہجے میں بھی بات کر سکتا ہے۔ وہ یہی سمجھ رہا تھا کہ میجر صاحب کسی اور سے بات کر رہے ہیںاس لئے اس فوجی افسر نے جب دوبارہ اس سے پوچھا کہ اگر تمہیں سو روپے مل جائیں تو اس کا کیا کرو گے تو اونٹ چرانے والا لڑکا کہنے لگا '' چا چا جی میں سو کا نہیں دس کا نوٹ لوں گا ‘‘اس فوجی افسر نے اپنی جیب سے پرس نکالتے ہوئے کہا اگر تمہیں دس روپے مل جائیں تو تم اس سے کیاخریدو گے؟۔اس بارہ سالہ کے ننھے چرواہے نے کہا کہ وہ ان ''دس روپوں سے اپنے لئے ڈھیر سار ی سرخ مرچیں خریدے گا‘‘۔ اس فوجی افسر کے ساتھ وہاں کھڑے ہوئے اس کے جوانوں میں سے ایک نے لڑکے کی جانب حیرانی سے دیکھتے ہوئے پوچھا کہ وہ سرخ مرچیں کس کیلئے خریدے گا؟۔ تو لڑکے نے اپنے ایک اونٹ کی گردن کے ساتھ بندھی ہوئی پوٹلی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ صبح اپنے گھر سے اونٹ لے کر صحرا میں نکلتا ہے تو روٹی اور نمک اس کے پاس ہوتا ہے جب بھی اسے بھوک لگتی ہے تو وہ اونٹنی کا دودھ مٹی کے پیالے میں نکال کر اس میں نمک ملا کر ساتھ لائی ہوئی روٹی کو اس میں ڈبو ڈبو کر کھا لیتا ہے۔۔۔۔اور اگر سرخ مرچیں مل جائیں گی تو پھر دودھ ،نمک اور مرچوں سے وہ ''لسن پلائو‘‘ سے مزے مزے سے روٹی کھا سکے گا۔
آج جب لاہور ، ملتان، بہاولپور کے شاپنگ مالز اور بڑی بڑی مارکیٹوں کو بلیک فرائیڈے یا بلیسڈ فرائیڈے جیسے مختلف ناموں کے خوش کن بینرز اور بورڈز سے سجا ہوا دیکھ رہا ہوں تو فوراً اونٹ چرانے والے ا س بارہ سالہ لڑکے کے الفاظ یاد آ جاتے ہیںکہ ایک جانب پاکستان کے دس بارہ سال کے نہ جانے اس چرواہے جیسے کتنے بچوں نے سو روپے کا نوٹ دیکھا ہی نہیں‘ انہیں یہ علم ہی نہیں کہ ایک سو روپے کے نوٹ اور دس روپے میں کیا فرق ہوتا ہے۔ انہیں صرف یہی معلوم ہے کہ ان کے گائوں کی چھوٹی سی دکان سے دس روپے کی مرچیں ہی ملتی ہیں اور وہ بچے ہوش سنبھالتے ہی اپنا پیٹ بھرنے کیلئے ''لسن پلائو‘‘ کھانے کیلئے دس روپے کی لال مرچیں خریدنے کے خواب دیکھتے ہیںاور دوسری جانب بلیک فرائیڈے کے نام پر جگہ جگہ دھکے کھاتی ہوئی آپس میں لڑتی جھگڑتی ہوئی قوم کی مائیں اور بیٹیاں قیمتی اور من پسند مہنگے لباس خریدنے کیلئے ہاتھوں میں ہزاروں روپے تھامے ہوئے ایک دوسرے کو دھکے دے رہی ہیں۔ اس شاپنگ مال میں گھومتے ہوئے میری نظروں کے سامنے وہ گھرانہ بھی بار بار گھومنے لگا جس کے پانچ افراد کے پاس اس سردی سے بچنے کیلئے نہ ہی گرم بستر ہے اور نہ ہی گرم کپڑے کیونکہ وہ نواب ٹائون کے علاقے کی جس جھگی میں رہ رہے تھے اُسے اچانک بھڑکنے والی آگ نے بھسم کر کے رکھ دیا۔ یقین جانئے یہ جلنے والی جھگی لاہور کے اس سب سے بڑے شاپنگ مال سے کوئی تین فرلانگ کے فاصلے پر ہے جہاں صرف ایک فرائیڈے کو پچیس کروڑ سے زائد کی شاپنگ ہوئی ہے!!