"MABC" (space) message & send to 7575

مولاناعبد الرحیم اور ارباب گلاچی کا پاکستان

پاکستان تاریخ انسانیت میں ریاست مدینہ کے بعد دوسری ریاست ہے جس نے کسی فکر، عقیدہ اور نظریۂ حیات کے بطن سے جنم لیا ہے۔ ریاست مدینہ ہی کی طرح اس میں بسنے والی قوم پہلے وجود میں آئی اور اس قوم کی جدوجہد کے نتیجے میں‘ جس میں ہجرت بھی شامل ہے، پاکستان کی صورت میں یہ وطن وجود میں آیا۔ جس کا پہلے سے کوئی تاریخی یا جغرافیائی وجود نہیں تھا بلکہ یہ ایک نظریہ اور تصور کی تخلیق ہے جس میں قوم پہلے بنی اور ملک بعد میں وجود میںآیا۔ ہم پاکستانی پہلے قرار پائے اور پاکستان بعد میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ پاکستان جس کی بنیادوں میں ہزاروں نامعلوم مسلمان بیٹیوں کے عصمتوں کے جنازے دفن ہیں، وہیں اَن گنت نامعلوم لوگوں کی بے لوث قربانیاں اور اسلامی جذبہ بھی پنہاں ہے ایسے ہی لوگوں میں خان ارباب گلاچی اور مولانا عبد الرحیم پچھمیؒ بھی شامل ہیں۔
آج اگر تاریخ پاکستان پر عبور رکھنے والوں سے پوچھا جائے کہ آپ جانتے ہیں مولانا عبد الرحیم پچھمی اور ارباب گلاچی کون تھے تو ہو سکتا ہے کہ کوئی بھی ان کے نام تک سے واقف نہ ہو، ایسے میں اگر یہ کہا جائے کہ ان دونوں میں سے اگر کوئی ایک بھی 1942ء میں خود کو پنڈت نہرو کے آگے بیچ دیتا تو ممکن ہے کہ پاکستان کی جدوجہد مزید طویل ہوجاتی یا اس کا نقشہ کچھ اور ہوتا، تو یہ ایک ایسی منطق ہو گی جس سے کوئی بھی اتفاق نہیں کرے گا لیکن اس کا فیصلہ کرنے سے پہلے آپ مولانا عبد الرحیم پچھمی اور ارباب گلاچی کے بارے میں کچھ جان لیجئے۔ اس کے بعد آپ اپنی رائے کا جو بھی اظہار کریں گے وہ سر آنکھوں پر۔ لیکن اتنا جان لیں کہ یہ دونوں ہستیاں‘ جو آج اپنے خدا کے حضور یقینا اعلیٰ مقام پر تشریف فرما ہوں گی‘ پاکستان کی تسبیح کے دو گمنام دانے ہیں۔ جن کے ہاتھوں سے اﷲ نے پاکستان کی تخلیق مکمل کرنے کا کرشمہ کر دکھایا۔
1942ء میں متحدہ ہندوستان کے انتخابات کے بعد جب سندھ اسمبلی میں حکومت سازی کے لئے کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان کانٹے دار مقابلہ جا ری تھا تو سخت جوڑ توڑ کے بعد صورت حال اس حد تک دلچسپ یا خطرناک موڑ تک جا پہنچی کہ دونوں حریف جماعتوں کے اراکین اسمبلی کے ووٹوں کی تعداد برا بر ہو گئی اور سندھ میں حکومت بنانے کے لئے کانگریس اور مسلم لیگ کو صرف ایک ووٹ کی ضرورت تھی۔ اس کے لئے پنجہ آزمائی اپنے جوبن پر تھی، دونوں جماعتیں بھرپور کوشش کر رہی تھیں کہ آزاد رکن یا اپنی مخالف جماعت کے کسی ایک رکن اسمبلی کو کسی بھی قیمت پر اپنے ساتھ ملا لیا جائے کیونکہ جس کو بھی ایک ووٹ مزید مل جاتا، وہی سندھ کا تاج اپنے سر رکھ سکتا تھا۔ اور اس وقت وہ ووٹ جس کے پیچھے دونوں جماعتیں بھاگ دوڑ کر رہی تھیں''ارباب گلاچی‘‘ کا تھا جو کہ خود کو کسی بھی جماعت کے پلڑے میں ڈالنے کی بجائے اب تک غیر جانبدار تھے۔
ارباب گلاچی سندھ کے ایک دور افتادہ گوٹھ کے رہنے والے ایک درویش مولانا عبد الرحیم پچھمی کے انتہائی معتقد تھے۔ اندرونِ سندھ میں پاکستان کی ایک مذہبی اور سیاسی جماعت کا حلقہ اثر‘ جس طرح آج بہت زیادہ ہے، قیام پاکستان سے پہلے بھی یہی مذہبی جماعت سندھ کے مسلمانوں میں طاقتور تھی اور یہ جماعت جسے اس وقت جمعیت العلمائے ہند کے نام سے پکارا جاتا تھا، کانگریس کی حامی اور قائداعظم سمیت مسلم لیگ اور پاکستان کے نام کی سخت مخالف تھی۔ پنڈت نہرو نے ارباب گلاچی‘ جو کراچی میں موجود تھے، کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے سندھ کے انتہائی با اثر مسلمانوں کو بلاکر مولانا خیر محمد اور اور بدین کے پیر عالی شاہ کو یہ ٹاسک سپرد کرتے ہوئے کہا کہ: میری طرف سے آپ کو ہر قسم کا اختیار ہے کہ جس قیمت پر بھی چاہیں‘ ارباب گلاچی کا ووٹ کانگریس کے لئے حاصل کریں۔ ایک بہت بڑی پیشکش لے کر مولانا خیر محمد اور پیر عالی شاہ ارباب گلاچی کے پاس پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے ووٹ کا مکمل اختیار صرف ایک ہستی کے پاس ہے جن کا نام مولانا عبد الرحیم پچھمی ہے، وہ جہاں کہیں گے میرا ووٹ اسی طرف جائے گا۔
پنڈت نہرو نے فوری طور پر ان دونوں کانگریسی رہنمائوں کے لئے جہاز چارٹر کیا اور یہ دونوں کانگریسی رہنما اگلے ہی دن اندرون سندھ مولانا عبد الرحیم پچھمی کی رہائش گاہ ''ککر‘‘ پہنچ گئے!! مولانا عبد الرحیم پچھمی سوائے دین کی تبلیغ کے‘ کسی اور چیز میں دلچسپی ہی نہیں لیتے تھے۔ ایک سادہ سے دیہاتی تھے، جو دور افتادہ دیہات میں رہنے کی وجہ سے تحریک پاکستان سے بھی واقف نہیں تھے۔ نہ ہی انہیں اخبار وغیرہ سے کوئی شغف تھا۔ مولانا خیر محمد نے ان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا ''حضور ہمارے ساتھ کراچی چلئے، آپ سے ہندوستان کے مسلمانوں کی بھلائی کا کام لینا ہے۔ اس طرح یہ د ونوں کانگریسی رہنما مولانا کو ارباب گلاچی کے پاس کراچی لے جانے کے لئے جہاز میں سوار ہو گئے۔ جہاز میں سوار ہونے کے بعد مولانا نے ان سے پوچھا: مجھے اصل ماجرا تو بتائیں کہ میں نے کس طرح ہندوستان کے مسلمانوں کی بھلائی کرنی ہے، جو صرف کراچی جا کر ہی ہو سکتی ہے؟ جس پر خیر محمد صاحب کہنے لگے حضور آپ نے مسلم لیگ اور جناح کا نام تو سن رکھا ہو گا؟ یہ سب دینی تعلیم سے ناواقف اور انگریز کی تہذیب میں رنگے ہوئے بغیر ڈاڑھی مونچھ کے لوگ ہیں، یہ انگریزی لباس پہننے والوں کی جماعت ہے لیکن یہ سب ہندوستان بھر کے مسلمانوں کو یہ کہہ کر ورغلا رہے ہیں کہ ہندوستان کو تقسیم کر کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن بنایا جائے گا جس کانام انہوں نے پاکستان رکھا ہوا ہے۔
مولانا خیر محمد اور پیر عالی شاہ نے مولانا سے بڑی لجاجت سے درخواست کرتے ہوئے کہا ''مسلم لیگ کے مقابلے میں کانگریس یہ چاہتی ہے کہ ہندوستان کو انگریز کی تہذیب کے اثرات سے بچایا جائے اور ہندوستان تقسیم نہ ہو، تاکہ یہ انگریز اور دنیا کے دوسرے ملکوںکے مقابلہ میں مضبوط طاقت بنے۔ اس طرح کی چکنی چپڑی باتیں کرنے کے بعد حرفِ آخر زبان پر لاتے ہوئے دونوں اصحاب کہنے لگے کہ حضور ہم اس لئے آپ کو ساتھ لے کر آئے ہیں کہ آپ خان ارباب گلاچی کو اس بات کا پابند کر دیں کہ وہ اپنا ووٹ مسلم لیگ کے لئے نہیں بلکہ صرف اور صرف کانگریس کیلئے وقف کر دیں۔
مولانا عبد الرحیم پچھمی نے اطمینان سے ان دونوں کانگریسی رہنمائوں کی گفتگو سننے کے بعد کہا ''میں نے آج تک محمد علی جناح کو نہیں دیکھا لیکن چونکہ وہ پاکستان بنانا چاہتا ہے جبکہ نہرو ہندوئوں کے لئے ہندوستان بنانا چاہتا ہے اور اگر کوئی مجھ سے یہ کہے کہ تم کہاں رہنا چاہتے ہو تو میرا جواب ہو گا کہ پاک لوگوں کے پاکستان میں... مولانا عبدالرحیم نے خیر محمد صاحب سے کہا مسلم لیگ اور اس کے لیڈر‘ بقول آپ کے، لاکھ برے سہی لیکن وہ چونکہ پاکستان مسلمانوں کے لئے بنانا چاہتے ہیں اور یہ پاکستان انگریز اور ہندو سے آزاد کروا کر مسلمانوں کے حوالے کریں گے، اس لئے میں بھی انہی کا ساتھ دوں گا۔ اتنا سننا تھا کہ دونوں کانگریسی رہنمائوں کے منہ لٹک گئے اور کراچی کے ہوائی اڈے پر اترتے ہی مولانا عبد الرحیم پچھمی کو وہیں پر اکیلا چھوڑ کر وہ دونوں غائب ہو گئے۔ اب وہ بے چارے سادہ سے دیہاتی بزرگ‘ بڑی مشکل سے پیدل چلتے ہوئے کئی گھنٹوں بعد ارباب گلاچی کے گھر پہنچے تاکہ اسے سختی سے تاکید کر سکیںکہ ''تم نے اپنا ووٹ صرف اور صرف مسلم لیگ کو دینا ہے‘‘ اس طرح ایک درویش کی خداداد بصیرت سے‘ ایک ووٹ کی اکثریت سے‘ مسلم لیگ کی سندھ میں حکومت قائم ہو گئی اور مسلم لیگ کی اسی سندھ حکومت نے 1943ء میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کی قرارداد منظور کرتے ہوئے 'پاکستان کی بنیاد رکھی‘۔ 1942ء میں سندھ میں اگر مسلم لیگ کی بجائے کانگریس اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی تو ممکن تھا کہ حالات آج مختلف ہوتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں