اکتوبر 2001ء سے افغانستان پر قابض‘ نیٹو فورس کا کمانڈر‘ امریکی جنرل جان نکلسن آج سولہ برس بعد بھی اپنے سابق کمانڈروں کی طرح یہی کہے جا رہا ہے کہ امریکہ پاکستان کی وجہ سے افغانستان میں امن قائم نہیں کر سکا کیونکہ وہ طالبان کو اپنے ہاں محفوظ پناہ گاہیں مہیا کرتا ہے۔ (کہا جا رہا ہے کہ اس قسم کی اطلاعات انہیں ایک سابق وزیراعظم کا خصوصی مشیر فراہم کرتا رہا ہے) جنرل نکلسن کا کہنا بجا لیکن سابق صدر جنرل مشرف نے فروری 2007ء میں کھچا کھچ بھرے ہوئے آرمی ہائوس کے کانفرنس ہال میں‘ جہاں پچاس سے زائد غیر ملکی میڈیا نمائندے بھی موجو دتھے، باقاعدہ تحریری طور پر درخواست کی تھی کہ پاک افغان سرحدوں پر بائیو میٹرک سسٹم کے علا وہ 8 فٹ اونچی آہنی باڑیں لگانے میں پاکستان کی مدد کی جائے تاکہ دونوں جانب سے کوئی بھی مشکوک شخص ایک دوسرے کی حدود میں داخل نہ ہو سکے تو آپ نے ان کا مذاق اڑاتے ہوئے اسے ردّ کر دیا تھا، کیوں؟ لیکن جب دیکھا کہ جنرل مشرف اس میں سنجیدہ ہو چکے ہیں تو اگلے بیس دنوں میں ایک منصف کو ان کے سامنے لاتے ہوئے ان کا یہ پلان ہی ''ملیا میٹ‘‘ کرا دیا۔ کیونکہ امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان میں استحکام پیدا ہو شاید اسے گھر کے کسی بھیدی نے اطلاع دے دی ہو گی کہ آہنی باڑ مکمل ہوتے ہی افواج پاکستان دہشت گردوں کے خلاف وزیرستان میں بہت بڑا آپریشن کرنے جا رہی ہیں۔
ممکن ہے کہ کسی وقت‘ کوئی ایک امریکی سینیٹر یا رکن کانگرس اپنی حکومت سے یہ پوچھنے کی کوشش کر لے کہ سولہ برسوں میں آپ افغانستان میں ابھی تک وہیں کیوں کھڑے ہوئے ہیں جہاں آپ نے قدم رکھا تھا؟ ٹیکس ادا کرنے والے امریکی عوام سے اس قدر دھوکہ دہی کیوں کی جا رہی ہے کہ آج بھی کابل میں افغان صدر یا چیف ایگزیکٹو کے نام پر بٹھائے گئے‘ اپنی طرف سے منتخب کرائے گئے لوگ اس وقت تک اپنے محلات سے باہر قدم نہیں نکال سکتے جب تک امریکہ انہیں سکیورٹی کے حصار میں لے کر نہ چلے؟ کوئی بھی صاحب عقل اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اسے افغانستان کے استحکام کا نام نہیں دے سکے گا۔ ایک جانب امریکی فوج اور سی آئی اے دوسری جانب نیٹو اور اس کی ایجنسیاں تو تیسری جانب ایساف کی فوجیں تو چوتھی جانب بھارتی را کے دستے افغانستان کی فوج اور NDS، اس کے باوجود کوئی ایک ذی شعور انسان کیسے یقین کر سکتا ہے کہ صرف ایک پاکستان نے ان کو افغانستان میں اکیلے ہی شکست دے رکھی ہے؟ امریکی جنرل نکلسن نے برسلز میں نیٹو کے وزرائے دفاع کی کانفرنس کے بعد ایک بار پھر پاکستان کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اسے دنیا کی سب سے بڑی فوجی قوت کے جنرل کی نہیں بلکہ کسی تیسرے درجے کے ملک کی فوج کے سارجنٹ کی مضحکہ خیز گفتگو سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔
جس دن امریکی تھنک ٹینکس اور ان کے فیصلہ سازوں نے خود کو کسی الگ تھلگ کمرے میں چند گھنٹوں کے لئے پابند کرتے ہوئے اپنی اب تک کی غلطیوں کو جانچنا شروع کیا تو یقین سے کہا جا سکتا ہے ان کی آنکھوں کے سامنے پڑے ہوئے پردے ایک ایک کرتے ہوئے خود بخود ہٹنا شروع ہو جائیں گے اور انہیں احساس ہو نے لگے گا کہ افغانستان میں امن کا رستہ صرف اور صرف پاکستان سے گزر سکتا ہے نہ کہ بھارت سے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ اگر امریکہ خود ہی چاہتا ہو کہ افغانستان میں دہشت گردی کا بازار اسی طرح گرم رکھنا ہے توا س کے لئے افغانستان میں امریکہ کے سابق ''وائسرائے‘‘ حامد کرزئی کا اکتوبر میں الجزیرہ کو دیا جانے والا وہ ا نٹرویو ہی سب کچھ بیان کر رہا ہے جس میں کرزئی نے کہا تھا کہ ''افغانستان میں داعش کو امریکہ اپنے مقاصد
کے لئے ترتیب دے رہا ہے‘‘۔ نیٹو کمانڈر جنرل نکلسن کیا اپنے سابق وائسرائے کرزئی کے اس انکشاف کی کبھی وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے؟
جنرل نکلسن کا یہ کہنا کہ 2018ء سے افغان سکیورٹی فورسز کے ذریعے طالبان پر وسیع پیمانے پر حملے کئے جائیں گے اور اگلے دو برسوں میں امریکہ افغانستان میں مکمل امن لے آئے گا اس سلسلے میں امریکہ کوشش کر رہا ہے کہ چند ہزار مزید‘ مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے سینئر فوجی‘ نئے بھرتی کئے جانے والے افغان نیشنل فورس کے سپاہیوں کو تربیت دے سکیں تاکہ وہ اس قابل ہو سکیں کہ امریکیوں پر انحصار کرنے کی بجائے وہ خود طالبان کا مقابلہ کر سکیں۔ جس سے یہ ہو گا کہ امریکی فوجی‘ ان کے کسی بھی آپریشن میں‘ زیادہ توجہ سے ان کی مدد کے لئے دستیاب ہو سکیں گے۔ (ایک اطلاع کے مطابق اس سلسلے میں نیٹو مشن نے تین ہزار مزید فوجی افغانستان بھیجنے کی منظوری دے دی ہے) پاکستان کے لئے بھی یہ بات انتہائی غور طلب ہونی چاہئے کیونکہ شک ہوتا ہے کہ ان دو برسوں میں امریکہ افغانستان کی آڑ میں بلوچستان، آزاد کشمیر سمیت گلگت بلتستان میں بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی سنگین قسم کی مداخلت کرا سکتا ہے۔ اس تناظر میں امریکی وزارت خارجہ کا وہ بیان کبھی بھی نظر انداز نہ کیجئے کہ ''سی پیک کا مجوزہ رستہ گلگت بلتستان جیسے متنازع حصوں سے گزر تا ہے‘‘۔
ایک مخالف تجزیہ کار بھی اپنے ایک حالیہ انٹر ویو میں یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ کاش امریکی اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھنے کی کوشش کریں جن میں سب سے بڑی غلطی افغانستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی خفیہ سرگرمیوں کو نظر انداز کرنا ہے۔ کیونکہ افغانستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ہی امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتی آ رہی ہے۔ اور یہی وہ افغان اسٹیبلشمنٹ ہے جو پاکستان مخالف دہشت گرد گروپوں کے لوگوں سے کابل اور جلا ل آباد کے انتہائی ریڈ زون علا قوں میں خود کش حملے کراتی ہے اور جب حملہ آور کی باقیات سے پتا چلتا ہے کہ یہ پاکستانی تھا تو پھر امریکیوں کے اس تاثر کو مزید پختہ کر دیا جاتا ہے کہ دیکھیں! ہم نہیں کہتے کہ یہ سب پاکستان کا کیا دھرا ہے، وہی افغانستان میں یہ سب دھماکے اور دہشت گردی کراتا ہے۔
افغانستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کسی صورت بھی نہیں چاہتی کہ افغانستان میں امن قائم ہو کیونکہ ان میں سے کچھ لوگوں کے افغان طالبان سے با قاعدہ روابط ہیں۔ 31 دسمبر 2015ء کی ڈیڈ لائن سے پہلے امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی کے پیش نظر ان کی جگہ لینے کے لئے امریکہ نے کروڑوں ڈالر خرچ کرتے ہوئے ANSF کے نام سے جو افغان نیشنل سکیورٹی فورس تشکیل دی تھی وہ اب تک خود کو ہی سکیورٹی دینے کے قابل نہیں ہو سکی بلکہ امریکی فوج کے جانے کے فوراً ہی بعد افغان طالبان نے افغان نیشنل سکیورٹی فورس کو بھگا کر قندوز اور ہلمند پر قبضہ جما لیا تھا۔ جس سے امریکی ایک مرتبہ پھر یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہو گئے کہ واپسی کا فیصلہ غلط تھا جو انہیں مہنگا پڑ سکتا ہے۔ 2016ء کے آغاز میں امریکیوں نے قطر کے ذریعے ایک بار پھر افغان طالبان کو اربوں ڈالر کی پیشکش کی تاکہ وہ سی پیک کے خلاف کام کرنے کے لئے راضی ہو سکیں لیکن اس کی یہ تمام کوششیں نا کام ہو گئیں۔
Afghans have come to consider the US as another Imperial Power intent to destroy the ''Afghan Way Of Life" and exploit the Natural Resources. ایک با شعو ر اور محب وطن افغان کی نظروں سے اگر درج بالا انگریزی کی یہ عبارت گزرے تو اسے اس پر تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی‘ غور ضرور کرنا چاہیے...!!!