معزز کسٹمر آپ کو کمپنی اور بینک کی جانب سے انتہائی مسرت سے اطلاع دی جا رہی ہے کہ آپ ہماری جاری کی جانے والی سکیم سے ایک عدد کار جیتنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔۔۔یہ پیغام مجھے03xx سے شروع ہونے والے نمبر سے بھیجا گیا۔ ایک لمحے کیلئے اپنے موبائل پر میں یہ پیغام دیکھنے کے بعد خوش ہوا کیونکہ یہ کسی موبائل نمبر سے نہیں بلکہ۔۔۔صرف03xx سے موصول ہوا جو ظاہر ہے کہ ایک منظور شدہ ٹیلی کام کمپنی کا ابتدائی کوڈ تھا ۔۔۔لیکن پھر سوچنے لگا کہ بینک کے ساتھ ان کا نمبر نہیں بلکہ گاڑی حاصل کرنے کیلئے رابطہ کیلئے جو نمبر دیا گیا ، اس لئے تھوڑی سی تحقیق کے بعد یہ مسرت بھی ایک خواب یا سراب محسوس ہوئی اور میں ایک نئی کار کا مالک بنتے بنتے رہ گیا۔ لیکن اس عارضی خوشی کے بعد سوچنے لگا کہ دن میں نہ جانے کتنی مرتبہ میرے جیسے لوگوں کو اس قسم کے پیغامات بھیجے جاتے ہوں گے اور ان میں سے نہ جانے کتنے ہوں گے جو ان کے دائو یا فریب میں آکر دس بیس ہزار روپے گاڑی کی کیرج کے کرائے کی مد میں انہیں بھجوا چکے ہیں اور بات صرف گاڑی تک نہیں بلکہ اس سے بھی آگے تک نہ جانے کتنی قسموں کے انعامات تک پہنچ جاتی ہے اور اب تک نہ جانے کتنے لوگ ان کے ہاتھوں لٹ چکے ہوں گے؟۔ ان میں سے کتنے ہوں گے جنہوں نے نئی گاڑی ملنے کی خوشی میں کسی سے قرض لے کر انہیں یہ ادائیگیاں کی ہوں گی؟۔سارے لوگ تو پڑھے لکھے نہیں ہوتے، ایسے لوگوں کی بڑی تعداد ایسی انعامی کالوں پر یقین کر لیتی ہے اور پانچ دس ہزار روپے لگا کر لاکھوں کا انعام ملنے کی امید لگا لیتی ہے۔ بعد میں جب انہیں معلوم ہوتا ہے تب یہ روتے پیٹتے سڑکوں پر آ جاتے ہیں۔ ان میں ان کا اپنا قصور بھی ہوتا ہے کیونکہ یہ لوگ بغیر کسی تصدیق کے پیسے دینے کو تیار ہو جاتے ہیں اور ہر آنے والے میسیج پر یقین کر لیتے ہیں۔
چار دسمبر کو ایک نمبر سے میرے موبائل پر پیغام آیا کہ ایک انعامی شو میں ایک نمبر پر میں نے کال کی تھی جس پر قرعہ اندازی میں مجھے ایک عدد موٹر سائیکل اور پانچ لاکھ روپے انعام کا حق دار قرار دیا گیا ہے اس پر مجھے مبارکباد دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اپنے یہ انعامات حاصل کرنے کیلئے فلاں نمبر پر رابطہ کریں۔۔۔۔۔ اسی دن مجھے خوش خبری دیتے ہوئے پیغام بھیجا گیا کہ آپ نے اپنے فون سے اسی نمبر پر کال کی تھی جس پر آپ کو انعام کا حق دار قرار دیتے ہوئے ایک موٹر سائیکل اور پانچ لاکھ روپے انعام دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اپنا چیک اور موٹر سائیکل حاصل کرنے کیلئے براہ مہربانی رابطہ کریں۔۔۔۔29 نومبر کو مجھے ایک اور نمبر سے موبائل کی گھنٹی بجی تو دوسری جانب سے ایک بہت ہی رعب دار سی آواز میں کہا گیا کہ ہیڈ کوارٹر سے صوبیدار بول رہا ہوں‘ آپ کے گھر مردم شماری کیلئے جو ٹیم آئی تھی اس نے آپ سے جو سوالات کئے تھے ان کے جوابات چونکہ درست نکلے ہیں اس لئے آپ کا نام ان خوش نصیب لوگوں میں شامل کر لیا گیا تھا‘ اب قرعہ اندازی میں آپ کا پانچ لاکھ کا انعام نکلا ہے۔
18 نومبر کو ایک نمبر سے ایسا ہی پیغام آیا کہ بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام سے آپ کے اکتیس ہزار روپے منظور ہو چکے ہیں اپنی یہ رقم حاصل کرنے کیلئے رابطہ کریں۔۔۔سترہ نومبر کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت منظور ہونے والے اکتیس ہزار روپے وصول کرنے کا پیغام ملا ۔۔۔۔تین نومبر کو ایک اور نمبر سے مجھے ایک بار پھر جیتو پاکستان کی قرعہ اندازی میں ایک موٹر سائیکل اور پانچ لاکھ انعام کیلئے منتخب کیا گیا اور حسب معمول رابطہ کیلئے ایک اور نمبر لکھ کر بھیجا گیا۔۔۔چند دن پہلے ایک اور نمبر سے پیغام ملا کہ آپ تین تولہ سونا، ایک موٹر سائیکل اور پانچ لاکھ روپے انعام کے حق دار بن چکے ہیں‘ نیچے دیئے گئے نمبر پر رابطہ کریں۔۔۔اسی طرح کے انعامات کی خو شخبری دیتے ہوئے ایک اور پیغام سے بھیجا گیا ۔۔۔بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام میں جس قسم کی کرپشن گزشتہ آٹھ برسوں سے جاری ہے اس کی مثال نہیں ملتی کیونکہ ابھی تک اس کے بارے میں تفصیلات سامنے نہیں آ رہیں‘ اس لئے پردہ پڑا ہوا ہے لیکن پی پی پی کے دور حکومت میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں کام کرنے والے اعلیٰ افسران کے بارے میں ایک محتاظ اندازے کے مطا بق کہا جا رہا ہے کہ ایک ایک ڈائریکٹر نے کم ازکم پچیس پچیس کروڑ روپے کی کرپشن کی ہے اور ان کا طریقہ واردات یہ تھا کہ وسیلہ روزگار پروگرام کے تحت‘ جس میں ایک ایک گھرانے کو تین سے پانچ لاکھ روپے اور پھر ساڑھے سات لاکھ سے دس لاکھ اور اس سے بھی زائد رقم مفت میں بطور امداد دی جاتی رہی ہے اور یہ کروڑوں روپے نا قابل واپسی ہوتے تھے‘کسی ایک ڈائریکٹر کے اپنے کسی کارِ خاص کے ذریعے اس کے رشتہ داروں کے دس بیس شناختی کارڈ لینے کے بعد ان کی فائل بنا دی جاتی اور پھر اپنے ہی رکھے گئے آدمیوں کے ذریعے ان کی تحقیق کرائی جاتی اور پھر اسے اے ٹی ایم کارڈ جاری کر دیئے جاتے جہاں سے وہ لوگ اپنے ہی بنائے گئے پاس ورڈز کے ذریعے لاکھوں روپے حاصل کر لیتے۔
ایسے پیغامات ہر کسی کو مل رہے ہیں لیکن ان پر یا تو ایکشن نہیں لیا جا رہا اور اگر لیا جا رہا ہے تب بھی یہ نیٹ ورک اتنا وسیع ہے کہ یہ لوگ اپنا دھندا کھلے عام اور مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے کوئی غلط کام کیا جائے تو اس کا کھوج لگانا بھی آسان ہوتا ہے۔ ویسے بھی آج کل موبائل سمیں رجسٹرڈ کر لی گئی ہیں اس کے باوجود نامعلوم نمبروں سے ایسے پیغامات روزانہ ہزاروں لوگوں کو موصول ہو رہے ہیں اور اس پر حیرت یہ کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں کی جا رہی ۔ایسے نمبروں کو ٹریس کرنا مشکل نہیں۔ یہ کام ماہرین آسان سے کر سکتے ہیں لیکن لوگ روزانہ لٹ رہے ہیں ،ان کا کوئی پرسان حال ہی نہیں۔
جس دن پی پی پی کی حکومت ختم ہوئی تھی‘ اگر اس دن اے ٹی ایم کے کارڈز پر نکالی جانے والی رقم گنی جائے تو وہ کم از کم پچاس کروڑ سے بھی اوپر چلی جائے گی اور یہ کوئی مشکل نہیں ہے لیکن چونکہ ابھی تک پی پی پی کے دور کی بے نظیر بھٹو انکم پروگرام کی کرپشن سامنے نہیں لائی گئی اس لئے پی پی پی کے بعد میاں نواز شریف حکومت کا ریکارڈ جب کوئی احتساب کرنے والا ادارہ سامنے لے کر آئے گا تو لوگوں کے ہوش اڑ کر رہ جائیں گے کیونکہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کرپشن کے نام پر ایک دوسرے کے ساتھ میثاق جمہوریت پر سمجھوتہ کرنے والے آپس میں دست و گریبان ہوں۔
سینیٹر انور بیگ جنہیں میاں نواز شریف نے اپنی حکومت کے ابتدائی دور میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا چیئرمین مقرر کیا تھا ان کے خیالات سننے والے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تو شریف اور ایماندار انسان تھا جس کی زندگی کرپشن سے پاک اور صاف رہی ہے جو رزق حرام کے نزدیک جا نا بھی گناہ سمجھتا ہے اس نے جب بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے صاف انکار کیا تو مسلم لیگ نواز کی حکومت کے وزیر اعظم نے انہیں مکھن سے بال کی طرح نکال کر پرے پھینک دیا اور کہا اگر ہمارے ساتھ رہنا ہے تو آپ کو ہمارے رنگ میں رنگنا پڑے گا۔
انور بیگ جو سابق چیئر پرسن کے پول کھولنے کی تیاری کر چکے تھے‘ ایک دن وزیر اعظم ہائوس سے انہیں پیغام ملا کہ ان کی فائل ہمارے پاس بھیج دیں اور جیسے ہی وہ فائل وزیر اعظم ہائوس پہنچی وہاں کی غلام گردشوں کا رستہ ایسے بھولی آج تک اس کا پتہ ہی نہیں چل رہا کہ کدھر ہے۔
نیچے سے اوپر تک سبھی لوٹ مار میں لگے ہیں۔ جو جتنا بڑا ہاتھ مار سکتا ہے مار رہا ہے۔ کوئی عوام سے چار ہزار لوٹ رہا ہے تو کوئی چار ارب۔ ذرا سوچئے کہ بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام کا120 کروڑ روپیہ کون لے گیا ہے اور چیئر مین سے لے کر وزیر خزانہ اور مسلم لیگ نواز سمیت پی پی پی کی قیا دت نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے ۔۔۔۔آخر کسی کو تو حق ہے پوچھنے کا کہ یہ ایک سو بیس کروڑ روپیہ کہاں گیا، کون کھا گیا، کیسے کھا گیا؟!!