"MABC" (space) message & send to 7575

روہنگیا اور جنرل بپن راوت

چار دسمبر کی شام اس وقت نئی دہلی میں بیٹھے ہوئے داخلہ اور خارجہ کے وزراء کے ہاتھ پائوں پھولنا شروع ہو گئے جب پونا میں ایک کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت نے پہلی مرتبہ روہنگیا کے بارے زبان کھولتے ہوئے انکشاف کیا کہ2015 میں بھارت کی سپیشل فورسز نے اطلاع دیئے بغیر میانمار میں داخل ہو کر نیشنلسٹ سوشلسٹ کونسل آف نا گا لینڈ کے باغیوں کو ٹھکانے لگانے کیلئے کمانڈو آپریشن کیا تھا۔۔۔ جنرل بپن راوت کی زبان سے نکلے ہوئے ان الفاظ نے بھارت کی اس ہنڈیا کو بیچ چوراہے پھوڑ کر رکھ دیا کہ وہ دوسری ریاستوں کی سرحدوں کا ہمیشہ سے احترام کرتا چلا آ رہا ہے۔ جنرل بپن راوت ایک فوجی ہونے کے ناتے پونا میں کتاب کی تقریب رونمائی کی تقریب میں سامنے بیٹھے ہوئے بھارت کی چیدہ چیدہ شخصیات پر مشتمل سامعین پر دھاک بٹھانے کیلئے جسے آپ فوجی زبان میں پیشہ ورانہ مہارت سے حاصل کی گئی کامیابیوں کی داستان بھی کہہ سکتے ہیں‘ سناتے ہوئے سمجھ رہا تھا کہ اس نے اپنی زیر کمان فوج کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے بھارت اور اس کی افواج کا سر فخر سے اونچا کر دیا ہے لیکن جنرل بپن شائد اس راز تک نہیں پہنچ سکا تھا جو نریندر مودی اپنی کچن کیبنٹ کے فیصلوں کے ذریعے میڈیا کے سامنے گزشتہ دوسال سے ڈھول پیٹتے ہوئے کہے جا رہا تھا کہ میانمار روہنگیا میں ناگا لینڈ کی عسکری تنظیموں اور روہنگیا کے خلاف Naypyidaw's کے تعاون سے قابو پایا جا رہا ہے؟
بھارت کے خارجہ اور داخلہ کے دونوں وزراء نے جنرل بپن راوت کے اس نا معقول انکشاف پر سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اسے بھارت کی نیشنل سکیورٹی اور اس کی خارجہ پالیسی کیلئے ایک دھچکا قرار دیتے ہوئے جنرل عاوت سے شکوہ بھی کیا کہ آپ اس قسم کے حساس معاملات پر رائے زنی سے گریز کیا کریں۔ بھارت کے مشہور اخبار'' دی ہندو‘‘ نے اپنی چار دسمبر کی اشاعت میں وزارت خارجہ کے ایک انتہائی سینئر رکن کے حوالے سے کہا ہے کہ جنرل بپن راوت کو جو مختصر نوٹ بھیجا گیا اس میں لکھا گیا ہے کہ آپ کو اس نوعیت کی بات کرتے ہوئے سوچنا چاہئے کہ Such detailed discussions on the operation wouldn't help the situation at all' بھارت کو جنرل بپن راوت کی اس سچائی سے لگنے والی اندرونی ٹیسوں کا درد تو اٹھنا ہی تھا لیکن دوسری جانب پاکستان میں ایک مدہوش قسم کی لاتعلقی چھائی رہی۔۔۔بھارت چھوٹے چھوٹے ایشو لے کر پاکستان کو ہر سطح پر بدنام کرنے کا کوئی ایک موقع بھی ضائع کرنا سنگین جرم سمجھتا ہے جبکہ بعض پاکستانیوں کو بھارت کے خلاف زبان کھولتے ہوئے نہ جانے لندن میں بیٹھی ہوئی کس شخصیت کا خوف قوت گویائی چھین لیتا ہے؟۔ شمالی کوریا کے حوالے سے اپنے گزشتہ آرٹیکل میں بتایا تھا کہ کس طرح بغیر کسی سر پیر کے پاکستان کو شمالی کوریا کے میزائل تجربات کا پارٹنر ثابت کرنے میں جتاہوا ہے ۔۔۔اور اس کے مقابلے میں بھارت کی اس کے آرمی چیف کے ذریعے پکڑی جانے والی چوری کیلئے کیا پاکستان کیلئے یہ ضروری نہیں تھا کہ جیسے ہی جنرل بپن راوت نے پونا میں کھڑے ہو کر یہ بیان داغا تو مسلم لیگ نواز کی حکومت اور اس کی وزارت خارجہ کو نریندر مودی اور بھارت کو دنیا کے سامنے ننگا کرنے کیلئے کوئی جھوٹی کہانی یا ڈرامے کا سکرپٹ نہیں بلکہ نریندر مودی کے اکتوبر 2016 کے دورہ میانمار کے دوران آنگ سان سوچ کے ساتھ ہونے والی ملاقات اور اس دورہ کے اختتام پر دونوں ممالک کی جانب سے جاری کئے گئے مشترکہ اعلامیہ پر مشتمل Their mutual respect for sovereignty and territorial integrity کے الفاظ کو دنیا بھر کے سامنے رکھتے ہوئے ۔۔۔جنرل بپن راوت اور مشترکہ اعلامیہ کا آئینہ رکھتے
ہوئے بتایا جاتا کہ بھارت نے مشترکہ اعلامیہ میں حسب عادت جوجھوٹ بولاتھا اس کا آرمی چیف جنرل بپن راوت نے پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے بتا دیا ہے کہ بھارت اور اس کی فوج نے کبھی بھی کسی کی سرحدوں کا احترام نہیں کیا بلکہ بھارت کا حال یہ ہے کہ اس مشترکہ اعلامیہ سے ایک سال قبل اس کی سپیشل سروسز گروپ نے میانمار کی حدود میں بلا اطلاع گھس کر 2015 میں ناگا لینڈ کے18 باغیوں کو ہلاک کیاہے۔دنیا بھر میں بیٹھے ہوئے بھارتی سفارت کار اپنی قوم کے ایک ایک پیسے کو بھارت کے مفاد میں خرچ کرتے ہیں اور انہوں نے اپنا سب سے بڑا ٹارگٹ چین اور پاکستان کو بنا رکھا ہے جس کیلئے وہ سفارتی نمائندوں اور میڈیا کو ہر قسم کے لالچ اور حربوں کے ذریعے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں اور جب روہنگیا کا معاملہ دنیا بھر کے افق پر چھا گیا تو بھارت نے جنگی بنیادوں پر اس کا رخ پاکستان اور لشکر طیبہ کی جانب کرنے کیلئے میڈیا کے کچھ لوگوں پر ڈالروں اور دوشیزائوں کی بارش شروع کردی۔
ان میں سے ایک شکارDeutsche Welle ٹی وی کا ایک اہلکار بنا جس نے اپنی 14 ستمبر کی اشاعت میںMuslim Hypocrisy over the Rohingya کے عنوان سے آرٹیکل شائع کیا کہ میانمار میں مسلح بغاوت میں لشکر طیبہ کے لوگ ملوث ہیں جسے افغانستان اور پاکستان کی مدد حاصل ہے۔
روہنگیا کی تاریخ اور اس کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ1948 کے سٹیزن قانون میں میانمار کی فوجی حکومت نے میانمار میں رہنے والے روہنگیا سے اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان سے ان کی شہریت کا بنیادی حق چھین لیا اور انہیں عارضی شہریت دیتے ہوئے ان کی پہچان کے طور پر ان سب کو سفید کارڈ جاری کئے گئے۔۔۔لیکن اس کے بعد بھی برما کی بدھ مت پر مشتمل حکومت اس خدشے سے لرزتی رہی کہ روہنگیا کے مسلمانوں کی دن بدن بڑھتی ہوئی آبادی ایک دن ان کیلئے مشکلات پیدا کر دے گی جس سے وہ اقلیت کی بجائے اکثریت ہو جائیں گے۔
2014 میں میانمار میں30 برس بعد اقوام متحدہ کی نگرانی میں کرائی جانے والی قومی مردم شماری میں انہیں برمی شہریت کی بجائے بنگالی ظاہر کیا گیا اور پھر2015 میں آئینی ریفرنڈم کے نام پر ان سے سفید کارڈ والی عارضی شہریت کا حق چھینتے ہوئے ان کو جاری کردہ سفید کارڈ بھی منسوخ کر دیئے گئے اور مہاتما بدھ کی تعلیمات کو پائوں تلے روندتے ہوئے ان کے پیروکاروں کے نام سے میانمار پر حکومت کرنے والوں نے روہنگیا مسلمانوں پر عجیب قسم کی پابندیاں عائد کرنا شروع کر دیں جن میں شادی پر پابندی ، جن کی اس حکم سے پہلے شادیاں ہو چکی ہیں وہ دو سے زائد بچے پیدا نہیں کر سکتے۔۔۔۔ان روہنگیا مسلمانوں پر تعلیم، روزگار، مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ ان کے کہیں آنے جانے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ جیسے ہی میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم اور زیاد تی کا آغاز ہوا تو ساتھ ہی بھارت کے اندر خوشیاں ابلنے لگیں کہ کوئی تو ہے جو اس کی پیروی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی طرح میانمار میں بھی مسلمانوں کی کھال کھینچ رہا ہے۔
2014 میں نریندر مودی نے جیسے ہی بھارت کا اقتدار سنبھالا تو تھوڑے ہی عرصے بعد بھارت میں رہنے والے ان چالیس ہزار روہنگیا مسلمانوں کو نکالنے کیلئے کارروائیاں تیز کر دی گئیں اور اس مقصد کیلئے میڈیا کے ذریعے یہ تاثر دینا شروع کر دیا کہ ان چالیس ہزارروہنگیا مسلمانوں کا تعلق لشکر طیبہ اور پاکستان سے ہے۔ اس سے بھارت کے دو مقاصد تھے ایک پاکستان کو دہشت گردی میں ملوث کرنا اور دوسرا روہنگیا کیلئے ہمدردی کی بجائے بنگلہ دیش اور بھارت کے مسلمانوں میں ان کے بارے میں بد گمانی پیدا کر دی جائے۔!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں